آبادی تین ہزار لیکن ہر سال چھ ہزار شادیاں۔۔۔’عاشقوں کا گاؤں‘ جہاں جوڑے صرف شادی کرنے آتے ہیں
،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES
- مصنف, انگھا پھاٹک
- عہدہ, بی بی سی، انڈیا
دوپہر کا وقت تھا لیکن پھر بھی سخت سردی تھی۔ ڈبل روٹی کے دو ٹکڑوں میں پنیر کا ایک ٹکڑا، بس یہی میرا دوپہر کا کھانا تھا۔ میں خاموشی سے ایک کونے میں بیٹھ کر اسے کھا رہی تھی۔
میں انگلینڈ اور سکاٹ لینڈ کی سرحد پر واقع ایک چھوٹے سے گاؤں میں بیٹھی تھی۔ گاؤں میں کچھ خاص چہل پہل نہیں تھی۔ وہاں بمشکل دو کیفے اور دو یا تین چھوٹی دکانیں تھیں۔ میں نے کُھلی جگہ پر رکھے گئے بینچوں پر بیٹھ کر اپنا دوپہر کا کھانا کھایا۔
مگر پھر اچانک مجھے تھوڑا شور سنائی دیا۔
بہت سے لوگ بن ٹھن کر گاؤں کی جانب آتے دکھائی دیے۔ وہ باراتی تھے جن کے ہمراہ دلہن اور دلہا بھی تھے، جن کی عمریں 50 سال سے زیادہ ہوں گی۔
وہاں اُس کھلی جگہ میں بہت سے خوبصورت اور مختلف رنگوں کے پھول دار پودے تھے، قریب ہی ایک ’عاشق‘ کا مجسمہ تھا جس کے ساتھ چند دیگر مجسمے تھے۔ ان ہی مجسموں کے نزدیک دلہا اور دلہن کا فوٹو سیشن شروع ہو گیا۔
ایک ادھیڑ عمر شخص اسی دوران میرے پاس آ کر بیٹھ گئے اور نہایت معصومیت سے مسکراتے ہوئے میری جانب دیکھا اور مجھ سے کہا کہ ’اگر کوئی کسی کی مخالفت کرے اور وہ بھاگ کر شادی کرنا چاہے، تو ایسی صورتحال میں ایسے افراد کے لیے یہ خاص مقام اور جگہ ہے۔‘
’گریٹنا گرین‘
کئی برسوں سے جوڑے یہاں آتے ہیں اور شادی کر کے اپنی مرضی سے نئی زندگی کا آغاز کرتے تھے۔
یہ گاؤں انگلینڈ سے سکاٹ لینڈ جاتے ہوئے راستے میں آتا ہے۔ یہ گاؤں ان دونوں خطوں کی سرحد پر ہے۔ ہماری بس بھی رات کے کھانے کے لیے یہاں رکی۔
گریٹنا گرین 18ویں صدی سے شادیوں کے لیے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔
اس گاؤں کی آبادی تقریباً تین ہزار افراد پر مشتمل ہے اور یہاں صرف شادیاں ہوتی ہے، لوگ زندگی کے نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں اور آگے روانہ ہو جاتے ہیں۔
یہاں کی آبادی سے زیادہ تعداد میں یہاں شادیاں ہوتی ہیں۔ گریٹنا گرین میں ہر سال تقریبا 6000 شادیاں ہوتی ہیں۔
یہ جگہ محبت کرنے والوں کے لیے ایک خاص مقام رکھتی ہے۔
،تصویر کا ذریعہMADHURA SHUKLA
لیلیٰ جو اُس کیفے میں کام کرتی ہیں جہاں سے میں نے سینڈوچ خریدا تھا، اُنھوں نے مجھے بتایا کہ ’یہاں شادی کا ڈیڑھ سال سے انتظار ہے۔‘
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ آج گریٹنا گرین میں شادی کا اندراج آج کروائیں گے تو آپ کی باری ڈیڑھ سال بعد آئے گی اور آپ کو تب شادی کی تاریخ ملے گی۔
اگرچہ گریٹا کی ہوا ٹھنڈی تھی مگر ماحول نہایت خوبصورت اور پر سکون تھا۔ لوگ ہنس رہے تھے، خوش تھے اور مقامی لوگ بھی دلہنوں کی خوشی میں شریک ہو رہے تھے۔
گھومتے پھرتے میں نے دو دوسرے جوڑوں کو دیکھا۔ سفید لباس میں دلہن اور تنگ مگر نہایت خوبصورت سوٹ میں دلہا۔
لیکن جوڑے یہاں کیوں آتے ہیں؟
یہ 1754 کی بات ہے جب لارڈ ہیڈرک نے انگلینڈ میں ایک نیا قانون منظور کیا۔
اس نئے قانون میں کہا گیا کہ 21 سال سے کم عمر نوجوانوں کو شادی کے لیے اپنے والدین کی اجازت درکار ہوگی اور معاملہ بس اتنا نہیں تھا بلکہ شادی کو باضابطہ طور پر رجسٹر کرنے کی بھی ضرورت تھی۔
اگر کوئی مذہبی رہنما یا پادری کسی خفیہ یا نجی جگہ پر کسی کی شادی کرواتے تو انھیں 14 سال قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ کچھ پادریوں کو اس وجہ سے جیل بھی بھیج دیا گیا۔
اس سے انگلینڈ میں خوف و ہراس پھیل گیا اور ان لوگوں کو غصہ آیا جو اپنے اہلخانہ کی مرضی کے خلاف شادی کرنا چاہتے تھے۔
،تصویر کا ذریعہMADHURA SHUKLA
یہاں معاملہ یہ ہوا کہ زمانہ محبت ’دشمن‘ بن چکا تھا۔ اس کے بعد ایسے جوڑوں نے سکاٹ لینڈ کا رخ یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’دشمن کا دشمن اپنا دوست۔‘
آگے بڑھنے سے پہلے، تاریخ کا ایک چھوٹا سا سبق پڑھ لیتے ہیں، سکاٹ لینڈ اور انگلینڈ کے درمیان تعلقات اچھے نہیں رہے ہیں لیکن اب جبکہ دونوں ممالک برطانیہ کا حصہ ہیں، ان کی لڑائیاں خاصی کم ہو گئی ہیں۔
اب چلتے ہیں واپس اپنی لو سٹوری یعنی محبت کی کہانی کی جانب۔
اگرچہ انگلینڈ نے شادی کے قوانین سخت کر دیے تھے لیکن سکاٹ لینڈ میں 12 سال سے زیادہ عمر کی لڑکیاں اور 14 سال سے زیادہ عمر کے لڑکے اپنی مرضی سے شادی کر سکتے تھے۔ انھیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔
سکاٹ لینڈ میں شادی کے اعلان کا نظام بھی موجود تھا۔ دوسرے لفظوں میں، دو گواہوں کے سامنے، وہ اعلان کرتے تھے کہ وہ ایک دوسرے سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور بس شادی ہو گئی۔
اب یہاں یعنی سکاٹ لینڈ میں کوئی قاعدہ نہیں تھا کہ شادی چرچ میں ہی ہونی چاہیے۔ آپ سکاٹ لینڈ کی سرزمین پر کہیں بھی شادی کر سکتے ہیں اور کوئی بھی آپ سے حلف لے کر شادی کا اعلان کر سکتا ہے۔
،تصویر کا ذریعہMADHURA SHUKLA
گریٹنا گرین سکاٹ لینڈ میں ہے لیکن یہ انگلینڈ کے ساتھ سرحد پر بہت قریب ہے۔ چنانچہ اگلے چند سال میں انگلینڈ سے تعلق رکھنے والے نوعمر جوڑے شادی کے لیے یہاں آنے لگے۔
لیکن شادی کرنے کے لیے یہاں کوئی مذہبی رہنما نہیں تھے۔ اس وقت، گریٹنا کے زیادہ تر لوگ لوہار کے طور پر کام کرتے تھے۔ پھر وہی لوگ ’مذہبی رہنما‘ بن گئے۔
ایک طرف وہ لوہاروں کا کام انتہائی مہارت سے کرتے تھے اور دوسری جانب اب وہ دو پیار کرنے والوں کو ملانے یعنی اُن کی شادی کا اعلان کرنے کا سامان بھی کرنے لگے تھے۔
یہ لوہار زیادہ پیسے بھی نہیں لیتے تھے اور کبھی کبھی تو بس شراب کی چند بوتلیں ہی ان کے اس کام کی اُجرت ہوا کرتی تھیں۔
1843 میں لوہار کا کام کرنے والے ایک شخص نے ٹائمز اخبار کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ انھوں نے 25 سال میں تقریباً 3500 شادیاں کروائی ہیں۔
گریٹنا گرین کے حوالہ جات ادب میں بھی مل سکتے ہیں۔ گریٹنا گرین کا ذکر مشہور انگریزی مصنفہ جین آسٹن کی کتاب ’پرائڈ اینڈ پریجوڈس‘ میں ملتا ہے۔
یہاں شادی کا ایک اہم اصول یہ ضرور تھا کہ ایک بار جب شوہر اور بیوی جنسی تعلق قائم کر لیتے تو ان کی شادی منسوخ نہیں ہو سکتی تھی۔
،تصویر کا ذریعہMADHURA SHUKLA
فطری طور پر اس سے انگلینڈ کے رہنماؤں خاص طور پر مذہبی رہنماؤں کو غصہ آیا۔ سکاٹ لینڈ میں ایسے فرار ہونے والوں کی شادیوں کو روکنے کی متعدد کوششیں کی گئی۔
بی بی سی کی ایستھر ویبر ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ ’1885 میں نیو کاسل سے تعلق رکھنے والے ایک رکن پارلیمنٹ نے گریٹنا گرین میں شادیوں کے خلاف مہم شروع کی۔ انھوں نے کہا کہ اس طرح کی شادیاں انگلینڈ کا امیج خراب کر رہی ہیں اور یہاں کے لوگوں کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔‘
اس کے ایک سال بعد ایک قانون منظور کیا گیا کہ جو جوڑا سکاٹ لینڈ فرار ہو کر شادی کرنا چاہتا ہے اسے ایک عرصے تک سکاٹ لینڈ میں رہنا پڑے گا۔
یہ مدت 21 دن تھی، جس کے دوران کم از کم ایسے شخص کو یہاں چرچ کے احاطے میں اتنے لمبے عرصے تک رہنے کی ضرورت تھی۔
یہ قانون نوجوانوں کو جذبات کی وجہ سے شادی کے فیصلے کرنے سے روکنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
جوں جوں وقت بدلتا گیا ویسے ویسے حالات بھی تبدیل ہوتے گئے۔
سنہ 1940 میں سکاٹ لینڈ میں صرف اعلان کے ذریعے شادی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا اور طے پایا کہ شادی کا باضابطہ نوٹس پہلے دینا ہو گا اور پھر اس کا اندراج بھی کرنا ہوگا۔
1977 میں انگلینڈ میں قانون تبدیل ہو گیا۔ 18 سال کی عمر مکمل کرنے والے بچے اپنے والدین کی رضامندی کے بغیر شادی کر سکتے تھے۔
اب گریٹا گرین ’باغی‘ محبت کی علامت نہیں لیکن محبت کی علامت ضرور ہے۔
ہزاروں جوڑے اب بھی یہاں شادی کرنے آتے ہیں۔ یہاں کے مقامی لوگوں کا روزگار اب یہی کام ہے کہ وہ یہاں آنے والوں کو خوش آمدید کہتے ہیں اور دو دلوں کا ملاپ کرواتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہMADHURA SHUKLA
گریٹنا میں اب کیک، پھولوں، کپڑوں کی دکانیں اور ویڈنگ پلانر کے دفاتر ہیں۔
چاہے موسمِ بہار اور گرمیوں کا موسم بھی نہ ہو مگر ایک موسم یہاں ہمیشہ رہتا ہے اور وہ ہے شادی کا۔
میں اکتوبر میں وہاں گئی تھی لیکن میں خوش قسمت تھی کیونکہ میں نے وہاں ایک شادی ہوتی دیکھی اور دو کی تیاریاں دیکھیں۔
آج انگلینڈ میں والدین کی رضامندی کے بغیر شادی کی عمر 18 سال جبکہ سکاٹ لینڈ میں یہ عمر 16 سال ہے۔
سکاٹ لینڈ میں شادی سے قبل 15 دن کا نوٹس لینا ضروری ہے لیکن شادی کے لیے رہائشی ہونے یا وہاں کچھ عرصہ رہنے کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔
لہٰذا آج بھی انگریزی جوڑے جو ’چٹ منگنی پٹ بیاہ‘ کرنا چاہتے ہیں انھیں گریٹنا گرین کی حمایت حاصل ہے۔
بہت سے لوگ یہ بھی چاہتے ہیں کہ گریٹنا گرین میں شادی کی جائے۔ اب یہاں بہت زیادہ کمرشلائزیشن ہے۔ ایک دن میں دس دس شادیاں ہوتی ہیں۔ اکثر شادیاں 15 منٹ میں ختم ہو جاتی ہیں لیکن تاریخ اور رومانس سے محبت کرنے والے اب بھی یہاں آتے ہیں۔
Comments are closed.