انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے ساتھ معاہدے کی تفصیلات جاری کردیں۔ آئی ایم ایف اعلامیہ کے مطابق پاکستان نے ریونیو میں اضافے کیلئے ٹھوس یقین دہانی کرائی ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران پرائمری سرپلس 401 ارب روپے رکھا جائے گا۔ معاہدے کے تحت زراعت اور تعمیرات پر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ توانائی کے شعبے کی سبسڈی بتدریج کم کی جائے گی، تنخواہوں اور پینشن کی مد میں اخراجات کو کم کیا جائے گا۔
بینظیر انکم سپورٹ پروگراام (بی آئی ایس پی) جیسے کفالت پروگراموں کی فنڈنگ میں اضافہ کیا جائے گا، مرکزی اور صوبائی حکومتیں بہبود کے شعبے میں فنڈز بڑھائیں گی۔
آئی ایم ایف معاہدہ کے تحت درآمدات پر پابندیاں ختم کی جائیں گی، کرنسی کی شرح تبادلہ کو مارکیٹ کے مطابق رکھا جائے گا۔
حکومت معاہدے کے تحت نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم جاری نہیں کرے گی، حکومت ٹیکس چھوٹ یا ٹیکس مراعات جاری نہیں کرے گی جبکہ سرکاری اداروں کی مانیٹرنگ رپورٹ بھی جاری کی جائے گی۔
آئی ایم ایف اعلامیہ کے مطابق ڈالر کے اوپن اور انٹربینک ریٹ میں 1.25 فیصد سے زیادہ فرق نہیں ہوگا، 2024 میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔
معاہدے کے تحت سرکاری اداروں میں گورننس کی بہتری کے قانون کو فعال کیا جائے گا، نیشنل اکاؤنٹس کی سہ ماہی رپورٹ جاری کی جائے گی۔
درآمدات پر پابندیاں پروگرام کے خاتمے تک ہٹا دی جائیں گی، آئی ایم ایف نے کہا کہ پاکستان کو زر مبادلہ ذخائر بڑھانے کی ضرورت ہے، حکومت اسٹیٹ بینک سے نیا قرض نہیں لے گی۔
عالمی مالیاتی ادارے سے معاہدے کے مطابق ایف بی آر میں ٹیکس ریفنڈ کے مسائل کو فوری حل کرنے کی ضرورت ہے، پاور سیکٹر کے بقایاجات کو کلئیر کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں مہنگائی کی شرح 25.9 فیصد رہنے کا امکان ہے، پاکستان کی معیشت سست شرح نمو کا شکار رہے گی، معاشی ترقی کی شرح 2.5 فیصد ہوسکتی ہے۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ مالی سال 2024 میں بے روزگاری کی شرح 8 فیصد ہوسکتی ہے، مالی سال 2023 کے دوران پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 8.5 فیصد رہی۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ مالی سال 2022 میں پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 6.2 فیصد تھی۔
آئی ایم ایف نے مزید کہا کہ پاکستان کا مالیاتی خسارہ معیشت کا 7.5 فیصد رہنے کا امکان ہے، معیشت میں قرضوں کا حجم 74.9 فیصد رہے گا۔
نومبر 2023 اور فروری 2024 میں پاکستان کی معیشت کا جائزہ لیا جائے گا، دونوں جائزوں سے پہلے پاکستان کو کارکردگی دکھانا ہوگی۔
معاہدے کے مطابق نئے اقدامات کرنے اور پالیسیوں میں تبدیلی کیلئے آئی ایم ایف سے مشاورت کی جائے گی۔
پاکستان آئی ایم ایف کو بروقت مستند ڈیٹا فراہم کرے گا، پروگرام میں رہتے ہوئے پاکستان انٹرنیشنل ادائیگیاں نہیں روکے گا۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ پاکستان کو تعلیم اورصحت کے شعبوں پر بجٹ بڑھانے کی ضرورت ہے، محصولات بڑھانے کیلئے سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، بڑھانے کیلئے اقدامات کی ضرورت ہے۔
ایف بی آر ریفنڈ کیش کی صورت میں ادائیگیاں کرنے سے گریز کرے، سیلز ٹیکس ریفنڈ 183 ارب اور انکم ٹیکس ریفنڈ 215 ارب تک پہنچ چکے ہیں۔
آئی ایم ایف نے مزید کہا کہ پاکستان میں پاور سیکٹر میں اصلاحات ناگزیر ہوچکی ہیں، ڈسکوز ریکوری نہیں کر رہیں، ٹیرف میں فرق کے باعث گردشی قرضہ بڑھ رہا ہے۔
مہنگائی کم کرنے کیلئے مانیٹری پالیسی میں سختی لانا ہوگی، پاکستان کو اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ پروگرام کے تحت 3 ارب ڈالر ملیں گے۔
پاکستان کو نئے مالی سال کے دوران بھاری بیرونی مالی ضروریات کیلئے وسائل مہیا ہوں گے، پاکستان کو 9 ماہ کے نئے پروگرام پر ثابت قدمی سے عمل کرنا ہوگا۔
آئی ایم ایف کی رپورٹ میں کہا گیا کہ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری ضروری ہے، اسٹیٹ بینک کو مانیٹری پالیسی پر خودمختاری کے ساتھ کام کرنے کا موقع دیا جانا ضروری ہے۔
مالیاتی خسارہ کم کرنے کیلئے صوبوں کو سرپلس بجٹ دینا ہوگا، ٹیکس آمدن بڑھانے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔
آئی ایم ایف نے کہا کہ رواں مالی سال پیٹرولیم لیوی کی مد میں 859 ارب روپے وصول کیے جائیں گے، اگلے سال پیٹرولیم لیوی ایک ہزار ارب روپے سے بھی تجاوز کرنے کا امکان ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سال 2025-26 تک پیٹرولیم لیوی کا ہدف 1134 ارب تک پہنچنے کا امکان ہے، اس سال نان ٹیکس ریونیو کی مد میں 2116 ارب روپے وصولی کا امکان ہے۔
Comments are closed.