وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ حکومت یا پارلیمان عدلیہ کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتی۔ انہوں نے کہا کہ آئین نے پارلیمنٹ کی کوکھ سے جنم لیا ہے، عدلیہ بھی ہمیں ڈکٹیٹ نہیں کر سکتی۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ سینئر ترین ججز پر مشتمل کابینہ کے بنائے گئے تحقیقاتی کمیشن کو چیف جسٹس نے کام کرنے سے روک دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کمیشن میں چیف جسٹس کو اسی لیے شامل نہیں کیا تھا کیونکہ آڈیوز میں خود ان کی خوشدامن کی آڈیو بھی ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ امید تھی کہ چیف جسٹس کمیشن کے معاملے سے فاصلہ اختیار کریں گے تاکہ انصاف ہو سکے۔ مبینہ آڈیو لیکس کے تحقیقاتی کمیشن پر بننے والے سپریم کورٹ کے بینچ سے چیف جسٹس کو علیحدہ ہو جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا بیٹا الیکشن ٹکٹوں میں کروڑوں کی ڈیل کے معاملے میں بے نقاب ہو چکا ہے اور وہ خود اس کیس میں ملوث ہوکر بھی آڈیو لیک کمیشن کے خلاف عدالت میں درخواست گزار ہے۔
وزیر دفاع نے کہا کہ آئین کے تحت کوئی بھی ادارہ دوسرے ادارے کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتا اور وہ عدلیہ پر بھی لاگو ہوتا ہے۔عدلیہ پارلیمنٹ کو ڈکٹیٹ نہیں کرسکتی۔پارلیمنٹ بالادست ہے اس کی کوکھ سے آئین نے جنم لیا ہے، ہمیں کہا گیا کہ ڈکٹیٹ نہ کریں تو عدلیہ بھی دوسرے ادارے کو ڈکٹیٹ نہ کرے۔ آڈیو لیکس کمیشن کا سربراہ چیف جسٹس کے بعد سب سے سینئر جج کو بنایا لیکن وہ چیف جسٹس کو ناگوار گزار۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ماضی میں ہم سیاست دانوں نے بڑی بڑی غلطیاں کیں اپنے معاملات کے لیے اپنی مرضی کا بندہ کہیں بٹھادیں اس قسم کی دو نمبریاں تو کرسکتے ہیں مگر ایسی دو نمبری نہیں دیکھی کہ آپ انصاف کی سب سے بڑی کرسی پر بیٹھے ہیں اور جس کیس میں آپ ملوث ہیں آپ اسے کیسے سن سکتے ہیں؟یہ روایات قابل فخر نہیں۔
Comments are closed.