- مصنف, ڈیبورا نکولس لی
- عہدہ, بی بی سی ، کلچر
- ایک گھنٹہ قبل
دو اگست 1939 کو البرٹ آئن سٹائن نے امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کو ایک خط لکھا۔ ان کے خط کا نتیجہ مین ہیٹن پروجیکٹ کی صورت میں نکلا جو تاریخ کی سب سے اہم اور تباہ کن ایجادات یعنی ایٹم بم بنانے کے لیے بنایا گیا پروجیکٹ تھا۔سنہ 2023 کی بلاک بسٹر فلم اوپن ہائیمر میں ایٹمی طاقت کے مہلک استعمال کا ڈرامائی سکرپٹ سائنس فکشن سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا تھا اگر دو اگست 1939 کو دو صفحات پر مشتمل یہ خط کبھی نہ لکھا گیا ہوتا۔امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کے نام لکھے گئے ایک خط میں کہا گیا تھا کہ ’جوہری طبیعیات میں حالیہ تحقیق سے یہ ممکن ہوا ہے کہ یورینیم کو توانائی کا ایک نیا اور اہم ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔‘انھوں نے لکھا تھا کہ ’اس توانائی کو انتہائی طاقتور بموں کی تشکیل کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
مقبوضہ چیکوسلواکیہ میں یورینیم کی فروخت روکنے کے جرمنی کے فیصلے پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے یہ خط دو ارب ڈالر کے انتہائی خفیہ تحقیقی پروگرام ’مین ہیٹن پروجیکٹ‘ کے لیے محرک تھا جو جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں جرمنی کو شکست دینے کی دوڑ کا مرکز تھا۔طبیعیات دان رابرٹ اوپن ہائیمر کی سربراہی میں تین سالہ منصوبہ امریکہ کو جوہری دوڑ میں لے گیا اور تاریخ کی سب سے اہم اور تباہ کن ایجادات میں سے ایک ایٹم بم کا سبب بنا۔10 ستمبر 2024 کو آئن سٹائن کا خط کرسٹیز نیو یارک میں نیلام کیا جائے گا اور توقع ہے کہ اس کی قیمت 40 لاکھ ڈالر سے زائد ہو گی۔اس خط کے دو ورژن تیار کیے گئے تھے۔ ایک مختصر ورژن جسے کرسٹیز نے نیلام کرنا ہے اور ایک زیادہ تفصیلی ورژن جو وائٹ ہاؤس کو پہنچایا گیا تھا اور اب نیو یارک میں فرینکلن ڈی روزویلٹ لائبریری کے مستقل مجموعے میں شامل ہے۔کرسٹیز یونیورسٹی میں کتابوں اور خطوط کے سینیئر ماہر پیٹر کلارنیٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کئی حوالوں سے یہ خط سائنس، ٹیکنالوجی اور انسانیت کی تاریخ میں ایک اہم موڑ کی حیثیت رکھتا ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ پہلا موقع تھا جب امریکی حکومت بڑی سائنسی تحقیق میں براہ راست مالی طور پر شامل ہوئی تھی۔‘انھوں نے کہا کہ اس خط میں امریکہ کو ٹیکنالوجی میں ہونے والی تبدیلیوں سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی اجازت دی گئی۔سوانسی یونیورسٹی میں شعبہ سیاست، فلسفہ اور بین الاقوامی تعلقات کے پروگرام ڈائریکٹر اور امریکی اور نیوکلیئر ہسٹری کے لیکچرر اور محقق ڈاکٹر برائن ولکوک بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایٹم بم کی ابتدا کے بارے میں زیادہ تر تاریخی کہانیاں اس خط پر بحث سے شروع ہوتی ہیں۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’خط کے مندرجات نے صدر روزویلٹ کی براہ راست کارروائی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ یہ خط روزویلٹ کو جوہری تحقیق شروع کرنے پر مجبور کرنے میں’اہم‘ وجہ ثابت ہوا۔‘ایوارڈ یافتہ فلم اوپن ہائیمر جو مین ہیٹن پروجیکٹ کی کہانی پر مبنی ہے۔ اس میں اوپن ہائیمر اور طبیعیات دان ارنسٹ لارنس کے درمیان ایک منظر میں اس خط کا حوالہ دیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ اس کی وجہ سے نیلامی میں اضافہ ہو گا۔کلارنیٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ (خط) ایک ایسی چیز ہے جو 1945 کے بعد سے مقبول ثقافت کا حصہ رہا ہے، لہٰذا یہ پہلے سے ہی اہم ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اوپن ہائیمر فلم نے اسے اب ایک نئی نسل تک پہنچایا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہChristie’s Images Ltd
- والدین کے طعنوں سے پہلی بچی کی موت تک، آئن سٹائن نے کیا کیا دکھ دیکھے؟16 مار چ 2021
- کیا آئن سٹائن خدا پر یقین رکھتے تھے؟7 دسمبر 2018
- آئن سٹائن کا وہ دوست جس نے انھیں بے روزگاری سے بچایا29 جولائی 2022
کلارنیٹ نے آئن سٹائن کو’ایک افسانوی کردار‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔ اوپن ہائیمر میں وہ ایک کیمیو کردار کی طرح ہیں جس کا ہم بے صبری سے انتظار کرتے ہیں ان کی شناخت صرف اس وقت ظاہر ہوتی ہے جب ان کی ٹوپی اڑ جاتی ہے اور ان کے اڑے اڑے سفید بال بے نقاب ہوتے ہیں۔آئن سٹائن نے خود کو اس منصوبے سے دور رکھا اور ہمیشہ اصرار کیا کہ جوہری توانائی کے اخراج میں ان کا حصہ ’بالکل بالواسطہ‘ تھا۔اگرچہ آئن سٹائن کے (E = mc2) نے جوہری رد عمل میں خارج ہونے والی توانائی کی وضاحت کی اور اس کے مذموم اطلاق کی راہ ہموار کی لیکن ایٹم بم بنانے میں ان کے کردار کو شاید فلم میں بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔کلارنیٹ کہتے ہیں کہ اختتامی منظر میں اوپن ہائیمر اور آئن سٹائن کے درمیان یہ مکالمہ کہ (اوپن ہائیمر: ’جب میں آپ کے پاس انکیلکولیشنز کے ساتھ آیا تو ہم نے سوچا کہ ہم ایک چین ری ایکشن شروع کر سکتے ہیں جو پوری دنیا کو تباہ کر دے گا) ’بکواس‘ ہے۔ان کا کہنا ہے کہ آئن سٹائن کے بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے خیالات اور جرمن ورثے نے انھیں شک کی نگاہ سے گھیر رکھا تھا اور ان کے پاس اس کے لیے سکیورٹی کلیئرنس نہیں تھی۔’درحقیقت بحیثیت امن پسند انھوں نے خود کو اس منصوبے سے دور کر لیا اور ہمیشہ اس بات پر اصرار کیا کہ جوہری توانائی کے اخراج میں ان کا حصہ ’بالکل بالواسطہ‘ تھا۔‘اگر کوئی اس کی ترغیب دینے والا تھا تو وہ آئن سٹائن کے سابق طالبعلم لیو زیلارڈ تھے۔یہ خط جس میں زیلارڈ کا پنسل سے لکھا نوٹ ’اصل نہیں بھیجا گیا‘ موجود تھا سنہ 1964 میں ان کی موت تک زیلارڈ کے پاس رہا۔جرمن نژاد آئن سٹائن اور ہنگری میں پیدا ہونے والے زیلارڈ دونوں یہودی تھے جو نازی ازم کے عروج کے بعد بھاگ کر امریکہ چلے گئے تھے۔یہ خط لکھنے کا خیال زیلارڈ کا تھا لیکن وہ اس کوشش میں تھے کہ آئن سٹائن اس پر دستخط کریں۔کلارنیٹ کہتے ہیں کہ آئن سٹائن نے کافی اختیارات حاصل کیے اور 1921 میں نوبل انعام جیتنے کے بعد وہ ’جدید سائنس کی شخصیت‘ بن گئے۔’ان کا ایسا اثر و رسوخ تھا جو کسی اور کا نہیں تھا۔ بظاہر دوسرے لوگوں نے روزویلٹ کو متنبہ کرنے کی کوشش کی کہ کچھ مہینوں میں کیا ہو سکتا ہے لیکن اچانک آپ کو البرٹ آئن سٹائن کا ایک خط ملتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آپ کو یہ کرنا چاہیے تو اس کا اثر تو ہوتا ہے۔‘پھر آخر کار 16 جولائی 1945 کو نیو میکسیکو کے صحرا میں بم کے پروٹو ٹائپ جسے ’گیجٹ‘ کے نام سے جانا جاتا ہے کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ اس کا نظارہ کرنے والے مخصوص تماشائیوں نے چشمے پہن کر اسے دیکھا۔اس کے نتائج فتح اور خوف کے ملے جلے تاثر لیے ہوئے تھے۔ اس دن امریکی صدر ہیری ایس ٹرومین نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا کہ ’ہم نے دنیا کی تاریخ کا سب سے خوفناک بم دریافت کیا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.