بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

گرفتاری کے ڈر سے روہنگیا جموں کے جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور

روہنگیا مسلمانوں کی گرفتاری: شدید سردی اور جانوروں کے خطروں کے باوجود انھیں جنگل ’زیادہ محفوظ‘ لگ رہا ہے

فیروزہ اپنی 18 سالہ بیٹی کے ساتھ

روہنگیا پناہ گزین فیروزہ اپنی 18 سالہ بیٹی کے ساتھ

فیروزہ بیگم اپنی 18 سالہ بیٹی کے ہمراہ جموں کے رحیم نگر مہاجر کیمپ میں واقع جھونپڑے میں رہتی ہیں۔ وہاں ان دونوں کا کوئی نہیں ہے۔ فیروزہ کے شوہر سید عالم اُن ڈیڑھ سو سے زیادہ روہنگیا مسلمان پناہ گزینوں میں شامل ہیں جنھیں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے جموں شہر سے پولیس نے ‘غیرقانونی پناہ گزین‘ قرار دے کر قید کرلیا ہے۔

حکومت کی اس کارروائی نے جموں کے کئی علاقوں میں گزشتہ دس سال سے مقیم روہنگیا مسلمانوں کے ڈیڑھ ہزار سے زیادہ خاندانوں کو اس قدر خوفزدہ کردیا ہے کہ بیشتر پناہ گزین جموں کے جنگلوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے ہیں کیونکہ اُنھیں خوف ہے کہ ‘پولیس سب کو اُٹھا لے جائے گی۔’

فیروزہ کہتی ہیں: ‘میں اپنی بیٹی کو لے کر جنگل میں کیسے جاوٴں، وہاں کیسے محفوظ رہیں گے ہم۔ میرے خاوند کو دوا لینی ہوتی ہے، وہ بیمار ہیں، اچانک سے سٹیڈیم میں سب کو جمع کیا اور وہیں سے کئی لوگوں کو لے گئے۔ میں کیا کروں، کہاں جاوٴں۔ اچھا تھا ہم سب کو قید کرتے، کم از کم ساتھ رہتے۔’

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جموں اور سانبا اضلاع کے مختلف مقامات پر 6500 سے زیادہ روہنگیا مسلمان مقیم ہیں۔ واضح رہے کہ ہزاروں روہنگیا پناہ گزین دس سال قبل میانمار میں مسلم نسل کشی کی لہر سے جان بچا کر بنگلہ دیش پہنچے جہاں سے وہ انڈیا میں داخل ہوگئے۔ اُن میں سے بیشتر نے جموں کا رُخ کیا اور یہاں شہر کے نواحی علاقوں نروال، بھٹنڈی، کرانہ تالاب وغیرہ میں زمینداروں کے خالی احاطوں میں کرایہ کے عوض مقیم ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیے

روہنگیا پناہ گزین

میانمار میں بودھ انتہا پسندوں نے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی شروع کردی تو فیروزہ بیگم اپنے خاوند سید عالم اور دو بچوں کے ہمراہ سمندر کے راستے بنگلہ دیش کے لیے نکل پڑیں، لیکن اس کٹھن سفر کے دوران اُن کا بیٹا عبدالسلام اُن سے بچھڑ گیا۔

کئی سال بعد اُنھیں معلوم ہوا کہ اُسے بنگلہ دیش اور انڈیا کی سرحد کے قریب گرفتار کیا گیا ہے۔ اس واقع کی وجہ سے سید عالم شدید تناوٴ کا شکار ہوگئے۔ ‘اُن کی اب دماغی حالت بھی ٹھیک نہیں۔ اب ایک ہی مسئلہ تھا کہ ہم بیٹی کی شادی کرلیتے، لیکن سب برباد ہوگیا۔’

انورہ بيگم

جلال احمد مزدوری کے لیے کشمیر آئے تھے اور انورہ بیگم (تصویر میں اپنے بچوں کے ساتھ) کے مطابق یہیں سے اُنھیں دیگر ساتھیوں کے ہمراہ گرفتار کرکے ہیرانگر جیل منتقل کیا گیا۔

جموں کے ضلع مجسٹریٹ یا پولیس سربراہ اس سلسلے میں سرکاری طور کوئی بھی بیان دینے سے احتراز کررہے ہیں، تاہم پولیس ذرایع نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈیڑھ سو سے زیادہ روہنگیا مہاجرین کو کٹھوعہ کے ہیرانگر جیل میں رکھا گیا ہے۔

حکام کے مطابق صرف ایسے لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے جن کے پاس جائز دستاویزات نہیں ہیں۔ لیکن فیروزہ بیگم کہتی ہیں کہ جموں میں ہی اقوام متحدہ کی کونسل برائے مہاجرین کے دفتر سے سید عالم نے اپنے ‘یو این کارڈ’ کی تجدید صرف دو ماہ قبل کروائی تھی۔ ‘پہلے یہ سب کرنے دلیّ جانا پڑتا تھا، لیکن کورونا کے دِنوں میں کارڈ بنوانے کا کام جموں میں ہی شروع ہوگیا تھا۔’

نروال قصبہ کے کِرانہ تالاب کیمپ میں ایک اور خاتون انورہ بیگم اپنے چار بچوں کے ہمراہ خاوند کی گرفتاری پر ماتم کناں ہیں۔ اُن کے خاوند جلال احمد مزدوری کے لیے کشمیر آئے تھے اور انورہ بیگم کے مطابق یہیں سے اُنھیں دیگر ساتھیوں کے ہمراہ گرفتار کرکے ہیرانگر جیل منتقل کیا گیا۔

جلال احمد

انھوں نے کہا: ‘بچے رو رہے ہیں، وہ کہتے ہیں ابا کو بلاؤ نہیں تو ہم بھاگ جائیں گے، لیکن میں کہاں ڈھونڈوں جلال کو، کدھر جاوٴں، پولیس والوں سے پوچھتی ہوں، وہ کہتے ہیں اُنھیں بھی معلوم نہیں، میں کیا کروں؟’

جلال کے بھتیجے طفیل احمد نے بتایا کہ پولیس کی کارروائی اس قدر حیران کُن تھی کہ ‘اب لگتا ہے ہم سب کو ایک ایک کرکے جیل بھیج دیں گے۔’ طفیل کے مطابق یہ خوف اس قدر شدید ہے کہ بیشتر خاندانوں نے شہر چھوڑ کر جنگلوں کا رُخ کیا ہے۔ ‘اُنھیں لگتا ہے کہ جنگل میں وہ محفوظ ہیں، لیکن وہاں شدید سردی اور جنگلی جانوروں کا بھی خوف ہے۔’

انورہ بیگم کے خاوند مزدوری کرتے تھے اور خود وہ زمیندار کے لیے اخروٹ چھیلنے کا کام کرتی ہیں۔ ‘سو دو سو روپے دن کا ہوجاتا تھا، مشکل سے بچوں کو کھانا مل جاتا تھا،لیکن اب کیا ہوگا، مُجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا، میں یہاں سے چلی جاوٴں گی تو جلال کا کیا ہوگا، ہم کہیں جا بھی نہیں سکتے۔’

روہنگیا پناہ گزین

نئی دلی میں مقیم روہنگیا مہاجرین کے حقوق سے متعلق ایک این جی او کے سربراہ علی جوہر نے بی بی سی کو فون پر بتایا کہ پچھلے چند برسوں سے بی جے پی کے حامی پناہ گزینوں کے کیمپوں کے باہر مظاہرے کرتے ہیں اور الزام عائد کرتے ہیں کہ یہ لوگ جرائم میں ملوث ہیں اور شہر میں منشیات اور جرائم کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔

کم عمری میں ہی میانمار سے اںڈیا ہجرت کرنے والے علی جوہر کہتے ہیں: ‘مقامی میڈیا، مقامی تاجر انجمنوں اور دوسرے سیاسی حلقوں نے مسلسل ایک مہم چلا رکھی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو جموں سے بے دخل کردو۔ لیکن یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ حکومت نے باقاعدہ کارروائی کی ہے۔’

علی جوہر کہتے ہیں کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کُل ملا کر 34 شکایتیں پولیس میں درج ہیں جن میں سے 18 ایف آ ئی آ ر بنگلہ دیش سرحد کو عبور کرنے سے متعلق ہیں۔ ‘انصاف کی بات کریں تو ساڑھے چھہ ہزار لوگوں کا سماج ہے، اُس میں چھوٹی موٹی غلطیوں کے 16 واقعات اگر سچ بھی ہیں تو خود اندازہ کیجیے یہ تناسب کیا ہے۔’

سید عالم

جلال کے بھتیجے طفیل احمد کا کہنا ہے کہ خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں روہنگیا مسلمانوں کے لیے مرنے کے سِوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ ‘لوگ یہاں کہتے ہیں بھارت نے اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق کسی معاہدے پر دستخط نہیں کیے اس لیے یہاں سے جاوٴ، لیکن کیا دستخط اتنا اہم ہے، کیا انسانیت نہیں بھارت میں۔ ہم جائیں کہاں؟ میانمار میں تو اب بودھ بھی محفوظ نہیں، وہاں فوجی حکومت ہے، خود وزیراعظم جیل میں ہے۔ ہمارے لیے اب موت کے سوا اور کیا بچا ہے۔’

حکومت کا کہنا ہے کہ روہنگیا مہاجرین کی تفتیش عدالت کے اُس حکمنامے کے بعد کی گئی جس میں عدالت نے حکومت سے جموں میں مقیم روہنگیا پناہ گزینوں کی تفصیلات عدالت میں جمع کرنے کو کہا تھا۔ عدالت کا یہ حکم نامہ اُس عرضی کے جواب میں سامنے آیا ہے جو علی جوہر کے مطابق بی جے پی کے ایک حامی وکیل نے دائر کی تھی۔

واضح رہے کہ جموں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کا کہنا ہے کہ وہ انڈیا میں مستقل سکونت کا ارادہ نہیں رکھتے۔ علی جوہر کہتے ہیں: ‘ظاہر ہے یہ عارضی سکونت ہے، لیکن سب ہندوستانیوں کو معلوم ہے کہ روہنگیا کی حالت کیا ہے، میانمار میں اُن کے ساتھ کیا ہوا ہے اور اس وقت میانمار کی حالت کیا ہے۔ ایسے میں ہم کو واپس بھیج دیا جائے تو یہ انصاف نہیں ہے۔’

یہ بھی دیکھیے:

اپ کی ڈیوائس پر پلے بیک سپورٹ دستیاب نہیں

کشمیر میں پناہ کے متلاشی روہنگیا کو ہندو انتہا پسندو کی مخالفت کا سامنا

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.