جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

کورونا وائرس کی وبا کے دوران ’رومانس فراڈ‘ میں اضافہ

کورونا وائرس کی وبا کے دوران ’رومانس فراڈ‘ میں اضافہ

Phone with 'I love you' message

ریورس امیج کے طریقے سے تصاویر کی جانچ پڑتال کریں تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کہیں جعلی تصاویر تو استعمال نہیں کی جا رہی ہیں۔

اور کسی مشکوک صورتحال میں فوری طور پر اپنے بینک یا ایکشن فراڈ اے رابطہ کر کے ایسے فراڈ کی فوری اطلاع دیں۔برطانیہ کے اس قسم کے فراڈ پر نظر رکھنے والے ادارے ایکشن فراڈ کے مطابق 2019 اور 2020 میں آن لائن شاپنگ میں ہونے والے فراڈ سے بھی زیادہ ’رومانس فراڈ‘ میں رقوم چرائی گئی ہیں۔ سال 2020 میں آن لائن شاپنگ اور ’آکشن فراڈ‘ میں 63 ملین جبکہ ڈیٹنگ فراڈ میں 68 ملین پاؤنڈ چرائے گئے ہیں۔ کورونا وائرس کے دوران اس طرح کے فراڈ میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تنظیم ’ایکشن فراڈ‘ کے سربراہ پاؤلن سمتھ کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے جو لاک ڈاؤن کیا گیا اس عرصے میں ساتھی تلاش کرنے کی غرض سے لوگوں نے آن لائن ساتھیوں کی تلاش شروع کی جس کی وجہ سے اس قسم کے فراڈ کی زیادہ تعداد میں اطلاعات سامنے آئیں۔

Woman at a laptop

منی لانڈرنگ

رومانس فراڈ کے متاثرین رقوم کی منتقلی اور جعلی تحائف کے کارڈ بھیجنے، واؤچر، فون اور لیپ ٹاپ تک رسائی دینے کی وجہ سے اپنی رقوم سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

کچھ صارفین تو اپنے بینک اکاؤنٹس یا بینک کارڈ تک رسائی دیتے ہیں۔ فراڈ کرنے والے بہت متاثر کن انداز میں ایسی کہانیاں سناتے ہیں کہ لوگ انھیں پیسے دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ لوگوں سے میڈیکل بل کے لیے پیسے مانگتے ہیں

اب ایسے متاثرین کو مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ ان کے بینک اکاؤنٹس منی لانڈرنگ کے لیے بھی استعمال کیے جا رہے ہیں کیونکہ فراڈ کرنے والے ان سے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث گروہوں کے لیے پیسے بٹور رہے ہیں۔

اے بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق ایک آسٹریلین خاتون ایک ایسے ہی فراڈ کا نشانہ بنی۔ وہ ایک امریکی فوجی افسر کے پیار میں گرفتار ہوئی مگر اس کے بینک اکاؤنٹ سے 150 ہزار ڈالر ایک گینگ تک پہنچ گئے۔

شناخت سے متعلق فراڈ

لائڈز بینک کے اعداد و شمار کے مطابق 55 سے 64 سال کی عمر کے لوگوں کو اس طرح کے خطرے کا زیادہ سامنا ہے۔

اینا( فرضی نام) کی طرح جو پچاس برس سے زائد کی عمر کی ہیں اور وہ بیوہ بھی ہیں، ایسے ہی فراڈ کا نشانہ بنیں جب انھیں ایک فراڈ کرنے والے نے اپنا ٹم بتا کر فون کیا۔ ان دونوں کی ایک ڈیٹنگ ویب سائٹ پر ملاقات ہوئی۔ اس کے بعد دونوں نے واٹس ایپ پر رابطہ قائم کر لیا تھا۔

چند ہفتوں کے بعد ٹم نے اینا کو بتایا کہ وہ ایک ٹرانسپورٹ سے متعلق منصوبے پر کام کرنے کی غرض سے رومانیا جا رہے ہیں اور اس سے رقم بھیجنے کا کہا۔ پہلے تو اس نے چھوٹی رقوم کا مطالبہ کیا مگر اس کے بعد پھر کرتے کرتے اس نے کل 320 ہزار پاؤنڈ اس سے بٹور لیے۔

’رومانس فراڈ‘ اکثر ڈیٹنگ ویب سائٹ سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ سوشل میڈیا پر چلا جاتا ہے یا پھر پرانے طریقے سے ٹیکسٹ میسج بھیجے جاتے ہیں، جس کے بعد فراڈ کا ثبوت نہیں رہتا۔

بعض دفعہ تو فراڈ کرنے والا رقم کے مطالبے کی بجائے ذاتی نوعیت کی معلومات کا پتا چلاتے ہیں، جس کی بنیاد پر بعد میں فراڈ کیا جاتا ہے، جسے شناختی فراڈ کہا جاتا ہے۔

بہت سے متاثرین مذاق اڑائے جانے کے ڈر سے ’رومانس فراڈ‘ کی اطلاع تک نہیں دیتے۔ مگر ایسے لوگ جو اس کی رپورٹ کرتے ہیں ان کے لیے پھر بھی کوئی راستہ نکل آتا ہے۔

سال 2019 میں بینک ایک ’والنٹری کوڈ‘ پر رضامند ہو گئے، جس کے مطابق اگر احتیاط کے باوجود بھی کسی کی رقم فراڈ کی بھینٹ چڑھ جائے تو پھر ایسے متاثرہ شخص کو بینکوں کی طرف سے رقم ری فنڈ کی جاتی ہے۔

جیسا کے اینا کے کیس میں آدھی رقم اسے واپس مل گئی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.