کوئٹہ میں فلسطینی طلبا کی تشویش: ’یہاں پاکستانی بھائی مدد کر رہے ہیں لیکن وہاں ہمارے پیاروں کے سروں پر ہر وقت موت کا سایہ ہے‘

فلسطینی طلبا

،تصویر کا ذریعہCourtesy

  • مصنف, محمد کاظم
  • عہدہ, بی بی سی اردو، کوئٹہ

’ہم تو اس صورتحال کی وجہ سے شدید ذہنی صدمے سے دوچار ہیں کیونکہ ہمارے تو پیارے وہاں ہیں اور ہر وقت موت کی تلوار سر پر لٹکنے کی وجہ سے وہ ایک خوفناک ماحول میں گھرے ہوئے ہیں۔‘

یہ کہنا ہے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں مقیم فلسطینی طالب علم مراد خطاب کا جن کا تقریباً دو ہفتوں سے اپنے گھر والوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’اس وقت میرے اپنے گھر والوں کا کیا حال ہے، اس کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا لیکن کوئٹہ میں مقیم فلسطینی طالب علموں میں سے ایک کے تین رشتہ دار جبکہ دوسرے کے خاندان کے 15 لوگ مارے گئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’نہ ہم واپس فلسطین جا سکتے ہیں اور نہ اپنے گھر والوں اور دیگر رشتہ داروں اور دوستوں کی کوئی خبر لے سکتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ غزہ کی صورتحال کی وجہ سے ہم مالی مشکلات سے دوچار بھی ہیں لیکن ہر وقت پیاروں کے ساتھ کچھ ہوجانے کی خوف نے ہماری تعلیم کو بھی بری طرح سے متاثر کیا ہے اور کچھ عرصے بعد ہمارے امتحان بھی ہونے والے ہیں۔‘

دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان علی مردان ڈومکی نے اعلان کیا ہے بولان میڈیکل کالج میں زیر تعلیم فلسطینی طالب علموں کی کفالت اور تعلیمی اخراجات حکومت بلوچستان اٹھائے گی۔

مراد خطاب کون ہے؟

مراد خطاب کا تعلق فلسطین میں غزہ کی پٹی سے ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا گھر غزہ شہر کی وسط میں واقع ہے۔

انھوں نے کہا کہ وہ ڈاکٹر بننا چاہتے تھے جس کے لیے انھوں نے محنت کی اور انھیں کوئٹہ میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔

وہ کوئٹہ پہنچے اور یہاں میڈیکل کی تعلیم کا آغاز کیا اور بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں ایم بی بی ایس، فرسٹ ایئر کے طالب علم ہیں۔

فلسطینی طلبا

بولان میڈیکل کالج کے فلسطینی طالب علم

ویسے تو بلوچستان کے پہلے اور قدیم میڈیکل کالج، بولان میڈیکل کالج میں طویل عرصے سے فلسطین سے طالب علم پڑھنے کے لیے آ رہے ہیں۔

تاہم اس وقت یہاں زیر تعلیم طلبا میڈیا کی توجہ کا مرکز اس وقت بنے جب کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات نے ان کے بارے میں سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر ایک پوسٹ کی۔

کمشنر کوئٹہ نے کہا کہ ’کوئٹہ میں 11 فلسطینی طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ ان میں سے بعض نے غزہ میں اپنے پورے کے پورے خاندان کو کھو دیا ہے۔‘

مراد خطاب نے بتایا کہ بولان میڈیکل کالج میں فلسطین کے مجموعی طور پر 11 طالب علموں میں سے آٹھ کا تعلق غزہ سے ہے جبکہ باقی تین کا دیگر حصوں سے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سب بالخصوص غزہ سے تعلق رکھنے والے طالب علم وہاں کی صورتحال کی وجہ سے ایک ایسے صدمے سے دوچار ہیں جن کو شاید الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہ ہو۔‘

مراد نے اپنے اور دیگر فلسطینی طلبا کے خاندانوں کے بارے میں کیا بتایا؟

مراد نے بتایا کہ اس وقت ان کا خاندان کس صورتحال سے دوچار ہے اور کس اذیت سے گزر رہے ہیں وہ ان کے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتے کیونکہ دس سے زیادہ دن ہو گئے اور ان کا اپنے خاندان کے لوگوں سے رابطہ منقطع ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ رابطہ نہ ہونے سے قبل ان کے گھر والے وہاں کی خوفناک صورتحال کی وجہ سے شدید پریشانی سے دوچار تھے لیکن اب ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ’اب وہ ہمارے اپنے گھر میں ہیں یا کہیں اور چلے گئے ہیں اس کے بارے میں کچھ نہیں پتہ چل رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح غزہ سے تعلق رکھنے والے دیگر طلبا میں کسی کا پندرہ روز سے تو کسی کا بیس روز سے اپنے خاندان کے لوگوں سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔

مراد خطاب کے مطابق ’کوئٹہ میں ہمارے جن دیگر فلسطینی طلبا کو ان کے خاندانوں کو جانی نقصانات کے حوالے سے معلومات ملی ہیں ان میں سے ایک کا بھائی، چچا اور چچی اسرائیلی بمباری اور شیلنگ کی وجہ سے مارے گئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں پر مقیم ایک اور فلسطینی طالب علم کو سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ ایک لحاظ سے ان کا پورا خاندان تباہ ہوا ہے کیونکہ ان کے گھر والوں سمیت مجموعی طور پر 15 رشتہ دار مارے گئے ہیں۔‘

غزہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کسی وقت کچھ ہو جانے کے خوف میں ہم کیا تعلیم حاصل کرسکیں گے؟

مراد خطاب نے بتایا کہ ’ہمارے خاندان کے افراد کے علاوہ رشتہ دار اور دوست سمیت پورے غزہ کے لوگ وہاں بمباری اور شیلنگ کی وجہ سے ایک کرب میں مبتلا ہیں لیکن ان کی طرح ہم پر بھی یہ خوف طاری ہے کہ کس لمحے ہمارے پیاروں کے ساتھ کیا ہو جائے گا کیونکہ وہاں ہر لمحہ کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے۔‘

انھوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’جس طرح کی خوفناک بمباری وہاں ہو رہی ہے، وہاں جس طرح بچوں سمیت لوگ بڑی تعداد میں مارے جا رہے ہیں۔

’جس طرح عمارتیں زمین بوس ہو رہی ہیں، ایسی صورتحال میں دنیا بھر میں لوگ تشویش میں مبتلا ہیں، ہمارے پیاروں کے سروں پر تو وہاں ہر وقت موت کا سایہ ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس صورتحال نے ہمیں ایک ایسے ذہنی صدمے سے دوچار کیا ہے جس کی وجہ سے ہمارے لیے پڑھائی کی جانب توجہ دینا مشکل ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’اب وہاں جو صورتحال ہے جس میں غزہ جانا تو دور کی بات ہے ہم کسی اور ذریعے سے اپنے پیاروں کے بارے میں یہ بھی نہیں جان سکتے ہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔‘

مالی مشکلات سے متعلق ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے اخراجات کے لیے پیسے ہمارے والدین ہی بھیجتے تھے، اب جب ان کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوں اور ان سے رابطہ نہیں ہو رہا ہو تو وہ ہمارے لیے پیسے کس طرح بھیج سکیں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم یہاں اپنے بھائیوں سے خوش ہیں کیونکہ انھوں نےاور مقامی سطح پر بعض تنظیموں نے ہماری مدد کی ہے تاہم مالی مشکلات کے مقابلے میں ہماری پریشانیاں ہمارے پیاروں کے حوالے سے بہت زیادہ ہیں۔‘

انھوں نے بین الاقوامی برادری سے اپیل کی کہ غزہ کے لوگوں کی مدد کریں اور وہاں جاری جنگ کو بند کروانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

غزہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

حکومت بلوچستان کی جانب سے فلسطینی طلبا کے اخراجات اٹھانے کا اعلان

ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق نگراں وزیرِ اعلیٰ بلوچستان میر علی مردان خان ڈومکی نے بولان میڈیکل کالج کوئٹہ میں زیر تعلیم فلسطین اور غزہ کے گیارہ طالب علموں کے تعلیمی اخراجات اور کفالت کی ذمہ داری اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’فلسطینی اور غزہ کے تمام طالب علم ہمارے مہمان ہیں اور مشکل کے اس وقت میں انھیں تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ تمام فلسطینی بچوں کے خاندان جنگ زدہ علاقوں میں ہیں جو اپنے خاندان سے رابطہ نہ ہونے کے باعث مالی مشکلات کا شکار تھے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ