الاسکا مذاکرات: چین اور امریکہ کے وزرائے خارجہ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ، ایک دوسرے پر الزامات
بائیڈن انتظامیہ اور چین کے درمیان پہلی مرتبہ اعلیٰ سطحی مذاکرات ہو رہے ہیں اور اس میں چینی اور امریکی حکام کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا ہے۔
الاسکا میں ہونے والے ان مذاکرات میں چینی حکام نے امریکہ پر الزام عائد کیا کہ وہ دیگر ممالک کو ’چین پر حملہ کرنے کے لیے‘ اکسا رہا ہے جبکہ امریکہ نے کہا کہ چین ’دکھاوے کے لیے ذہن بنا کر‘ آیا تھا۔
دونوں سپرپاورز کے درمیان تعلقات کئی برس کی کشیدہ ترین سطح پر ہیں۔
امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ متنازع معاملات مثلاً چین کی جانب سے سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں سے سلوک پر بات کرے گا۔
سخت تناؤ بھرے ماحول میں ہونے والے ان مذاکرات میں امریکہ کی جانب سے وزیرِ خارجہ اینٹونی بلنکن اور قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان شریک تھے جبکہ چین کی نمائندگی وہاں کے سب سے سینیئر خارجہ پالیسی اہلکار یینگ جیچی اور وزیرِ خارجہ وانگ یی نے کی۔
یہ بھی پڑھیے
بلنکن نے سخت ابتدائی بیان میں کہا کہ امریکہ ’چین سے سنکیانگ، ہانگ کانگ، تائیوان میں اس کے اقدامات، امریکہ پر سائبر حملوں اور ہمارے اتحادیوں پر اقتصادی دباؤ کے حوالے سے گہرے خدشات پر بحث کرے گا۔‘
اُنھوں نے کہا کہ ’ان میں سے ہر ایک اقدام عالمی استحکام برقرار رکھنے والے ضابطہ نظام کے لیے خطرہ ہے۔‘
اس کے جواب میں یینگ جیچی نے واشنگٹن پر دوسرے ممالک کو دبانے کے لیے اپنی مالیاتی برتری اور فوجی قوت کے استعمال کا الزام عائد کیا۔
یینگ جیچی (درمیان میں) نے امریکہ سے کہا کہ وہ اپنی طرح کی جمہوریت پھیلانا بند کرے
اُنھوں نے کہا: ’یہ قومی سلامتی کے نام نہاد تصورات کے خلاف ہے کہ معمول کی تجارت میں رکاوٹ ڈالی جائے اور کچھ ممالک کو چین پر حملہ کرنے کے لیے اُکسایا جائے۔‘
یینگ کا کہنا تھا کہ امریکہ میں انسانی حقوق کی صورتحال ابتر ہے اور سیاہ فام امریکیوں کو ’ذبح‘ کیا جا رہا ہے۔
اس کے جواب میں جیک سلیوان نے کہا کہ واشنگٹن چین کے ساتھ تنازع نہیں چاہتا لیکن کہا کہ ’ہم ہمیشہ اپنے اُصولوں کے لیے، اپنے لوگوں کے لیے اور اپنے دوستوں کے لیے کھڑے ہوں گے۔‘
تند و تیز جملوں کا یہ تبادلہ عالمی میڈیا کے سامنے ایک گھنٹے تک جاری رہا۔
اس کے بعد امریکی وفد نے چین پر الزام لگایا کہ اس نے طے شدہ پروٹوکول کی خلاف ورزی کی ہے جس کے تحت طرفین کو اپنے ابتدائی بیانات کو دو منٹ تک محدود رکھنا تھا۔
امریکی انتظامیہ کے ایک سینیئر عہدیدار نے کہا کہ ’لگتا ہے کہ چینی وفد یہ ذہن بنا کر آیا تھا کہ اس نے دکھاوا کرنا ہے اور اس نے عوامیت پسند ڈرامائی انداز کو معنی خیز باتوں پر ترجیح دی۔‘
جیک سلیوان نے کہا کہ امریکہ چین سے تنازع نہیں چاہتا
اِن اہلکار کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکہ مذاکرات کو منصوبے کے مطابق لے کر چلے گا اور کہا کہ ’بڑھ چڑھ کر پیش کیے گئے سفارتی مؤقف اکثر اپنے ملک کے عوام کے لیے ہوتے ہیں۔‘
بی بی سی کی باربرا پلیٹ اشر کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات بائیڈن انتظامیہ کے پاس یہ دکھانے کے لیے پہلا موقع ہیں کہ وہ کس طرح اس صورتحال سے نمٹیں گے جسے انٹونی بلنکن نے ’اکیسویں صدی کا سب سے بڑا جیوپولیٹیکل امتحان‘ قرار دیا ہے۔
ہماری نامہ نگار کے مطابق چین ٹرمپ کے دورِ حکومت میں دو طرفہ تعلقات میں شدید ترین خرابی کے بعد اب بحالی چاہتا ہے۔
چینی وزیرِ خارجہ وانگ یی نے کہا کہ بیجنگ ’تعمیری مذاکرات‘ دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
Comments are closed.