بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج، خواتین اپنے سکرٹس سڑکوں پر کیوں لٹکا رہی ہیں؟

سارونگ انقلاب: میانمار میں خواتین کا فوجی بغاوت کے خلاف احتجاج میں توہم پرستانہ عقیدے کا استعمال

میانمار احتجاج

خواتین نے گلیوں میں اپنے سکرٹ ٹانگ دیے

میانمار میں خواتین اپنے لباس سے متعلق مقامی ’توہم پرستی‘ کا استعمال فوجی بغاوت اور عسکری حکمرانی کے خلاف احتجاج کر کے کر رہی ہیں جسے میانمار میں ’سارونگ انقلاب‘ بھی کہا جا رہا ہے۔

میانمار میں بڑے پیمانے پر یہ مانا جاتا ہے کہ اگر مرد عورت کے ’سارونگ‘ یا سکرٹ کے نیچے سے گزر جاتا ہے تو وہ اپنی مردانہ طاقت کھو دیتا ہے۔

میانمار میں مردانہ طاقت کو ’ہاپون‘ کہا جاتا ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں خواتین کے سارونگ (سکرٹ) پہننے کا رواج عام ہے۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

میانمار میں خواتین نے پولیس اہلکاروں اور فوج کے جوانوں کو رہائشی علاقوں میں داخل ہونے سے روکنے اور مظاہرین کو گرفتاری سے بچانے کے لیے ملک کے متعدد شہروں میں اپنی سکرٹس سڑکوں پر لٹکا دی ہیں اور کچھ جگہوں پر اس کے اثرات بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔

برما کی کچھ ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں جس میں پولیس اہلکار گلیوں میں داخل ہونے سے پہلے یہ کپڑے اتارتے ہوئے دکھائے دیے تھے۔

میانمار احتجاج

میانمار میں خواتین کے اجتجاج کا یہ طریقہ بلکل انوکھا ہے

میانمار میں لوگ فوجی حکمرانی کے خاتمے اور یکم فروری کو اقتدار سے بے دخل ہونے والے آنگ سان سوچی سمیت ملک کی منتخب حکومت کے رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ’انتخابی دھاندلی کے جواب میں‘ یہ کارروائی کی اور آرمی چیف کو اقتدار سونپ دیا۔ فوج نے ملک میں ایک سال کے لیے ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔

وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جانے والا عقیدہ

میانمار کی خواتین کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے ’سارونگ انقلاب‘ کے قیام کے لیے وسیع پیمانے پر مقبول توہم پرستانہ عقائد پر انحصار کیا ہے۔

ہٹن لِن نامی ایک طالبِ علم نے کہا ’میں توہم پرستی کے ساتھ پروان چڑھا ہوں کہ عورت کا سارونگ ایک ناپاک کپڑا ہے جس کو اگر مجھ پر رکھا جائے تو میری مردانہ طاقت کم ہو جائے گی۔‘

میانمار احتجاج

میانمار میں بہت سے لوگ اس عقیدے کو مانتے ہیں

برمی مصنف ممی آئے، جو اب برطانیہ میں مقیم ہیں، کا کہنا ہے کہ ’احتجاج کرنے والی خواتین ان جنسی عقائد کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’توہم پرستی اصل میں یہ نہیں تھی کہ سارونگ کی وجہ سے ایک آدمی اپنی مردانہ طاقت کھو دے گا، کیونکہ خواتین کو ناپاک سمجھا جاتا تھا۔ بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ عورتوں کو جنسی شے کے طور پر سمجھا جاتا ہے یا پھر ایک فریب کے طور پر دیکھا جاتا ہے ایک ایسا فریب جو ایک کمزور مرد کو برباد کر سکتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ روایتی طور پر سارونگ خوش قسمتی کی علامت بھی سمجھا جاتا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک وقت ایسا تھا کہ جنگ میں جانے والے مرد اپنی والدہ کی سارنگ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ جبکہ 1988 کی بغاوت کے دوران مظاہرین نے اپنی ماؤں کے سارونگ اپنے سروں پر پہنا تھا۔‘

اب میانمار کی خواتین مظاہرین عوامی مقامات پر سارونگ کی طاقت کا استعمال کر رہی ہیں۔

آٹھ مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر خواتین مظاہرین نے مختلف مقامات پر اپنے سارونگ لٹکا دیے جنھیں ایک انقلاب کا حصہ قرار دیا گیا۔

جمہوریت کے حامی کارکن تھنزار شنلی یی نے اپنی ایک تصویر آن لائن پوسٹ کی جس کے ساتھ انھوں نے لکھا ’میرا سارونگ مجھے میانمار میں فوج سے زیادہ تحفظ فراہم کرتا ہے۔‘

کچھ خواتین مظاہرین نے سینیٹری پیڈوں پر جنرل من اونگ ہیلینگ کی تصاویر چسپاں کر کے انھیں اس امید پر سڑکوں پر بکھیر دیا کہ فوج ان کے جنرل کی تصویروں پر قدم رکھنا پسند نہیں کرے گی اور اس کی وجہ سے فوج آگے نہیں بڑھے گی۔

میانمار احتجاج

میانمار میں فوج کے خلاف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے

تُن لِن نامی ایک طالبِ علم، سارونگ کو اپنے سر پر پہن کر ان مظاہروں میں شرکت کر رہے ہیں۔

ملک کے سوشل میڈیا پر انھوں نے لکھا کہ ’یہ احتجاج میں شریک بہادر خواتین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی دکھانے کا ان کا ایک طریقہ ہے۔‘

درجنوں ممالک نے میانمار کی فوج کی جانب سے کیے جانے والے پُرتشدد اقدامات کی مذمت کی ہے لیکن بڑی حد تک اس فوجی بغاوت کرنے والے عسکری حکمرانوں نے نظرانداز کیا ہے۔ لیکن خواتین مظاہرین نے فوجی حکمرانی کی خلاف اپنے لباس کا استعمال کرتے ہوئے خاموش رہنے سے انکار کر دیا ہے۔

میانمار میں خواتین کے اس احتجاج میں ’ہمارا سارونگ ، ہمارا بینر ، ہماری فتح‘ کا ایک مقبول نعرہ سامنے آیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.