gay vegas hookup best totally free hookup app pregnant hookup hookups skateboards shirts

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’سمندر میں اس امید سے کودے کہ جلد مدد مل جائے گی مگر مدد ملنے تک دو پاکستانی لاپتہ تھے‘

رو رو السلمی 6 کو حادثہ: خیلج فارس میں کارگو جہاز کو پیش آنے والے حادثے میں ایک پاکستانی ہلاک، دوسرا تاحال لاپتہ

  • محمد زبیر خان
  • صحافی

رحمت اللہ، جمیل احمد خان

،تصویر کا ذریعہAbu Hussain Jamal/Facebook

’سوات سے رحمت علی کی والدہ اور اہلیہ مجھے فون کر کے ان کے بارے میں پوچھتی ہیں تو میرے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ اب تو میں نے ان کی کال سننا ہی چھوڑ دی کہ میں ان کو کیا جواب دوں؟‘

یہ کہنا تھا رحمت علی کے خالہ زاد بھائی عزیز الرحمان کا۔ رحمت علی ایران کی سمندری حدود میں 16 مارچ کو حادثے کا شکار ہونے والے کارگو بحری جہاز ’رو رو السلمی 6‘ کے تیس رکنی عملے کے رکن تھے۔

اس جہاز کی کمپنی کے پاکستانی ایجنٹ منصف کے مطابق اس جہاز کی منزل عراق تھی۔ اس میں نئی اور قیمتی گاڑیاں کارگو کی گئی تھیں جبکہ حادثے کے بعد 28 لوگوں کو بچا لیا گیا تھا۔

حادثے کے بعد ابتدا میں عملے کے دو افراد، جو پاکستانی تھے کو لاپتہ قرار دیا گیا۔ جس میں کراچی سے تعلق رکھنے جمیل احمد خان کی لاش تقریباً ایک ہفتے بعد ایران ہی کی سمندری حدود سے ملی اور ابھی تک ایران ہی میں ہے جبکہ رحمت علی ابھی تک لاپتا ہیں۔

جمیل احمد خان کے بھائی ابوالحسن جمال کے مطابق جمیل نے سوگواروں میں بیوی اور دو کم عمر بچے چھوڑے ہیں جبکہ رحمت علی کی بیوی اور ان کی تین ماہ کی بیٹی کے علاوہ بوڑھی والدہ بھی رحمت علی کے لیے پریشان ہیں۔

رو رو السلمی 6 کے ساتھ کیا ہوا؟

کارگو جہاز رو رو السلمی 6 سنہ 1983 میں تیار کیا گیا تھا۔ اس کا مجموعی حجم 16,021 ٹن تھا، رو رو السلمی 6 دبئی کی کمپنی سلیم المکرانی کارگو کمپنی کی ملکیت تھا۔

کمپنی کے ترجمان کے مطابق جہاز دبئی سے عراق جا رہا تھا۔ اس کو خیلج فارس میں تیز ہوا اور لہروں کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے وہ سمندر میں ڈوب گیا۔

ترجمان کے مطابق 28 لوگوں کو ایران کے اہلکاروں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے بچا لیا۔ اس کمپنی کے کراچی میں موجود ایجنٹ منصف کے مطابق حادثے کے بعد ایمرجنسی صورتحال تھی۔

بحری جہاز

،تصویر کا ذریعہEPA

وہ کہتے ہیں کہ ’اس میں یہ پتا نہیں چل رہا تھا کہ متاثرہ دو لوگ کون ہیں۔ حادثے کے بعد پتا چلا کہ متاثر ہونے والے دونوں پاکستانی تھے۔‘

منصف نے بتایا کہ ’کمپنی کوشش کر رہی ہے کہ جمیل احمد خان کی لاش کو جلد از جلد پاکستان پہنچایا جائے۔ جس کی راہ میں قانونی رکاوٹیں حائل ہیں۔

’رحمت علی کی تلاش کے لیے ایران کی حکومت کے ساتھ رابطے کے علاوہ اپنے طور پر بھی ممکنہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ دونوں کے واجبات اور جو بھی قانونی حق ہو گا وہ کمپنی جلد از جلد ان کے لواحقین تک پہنچائے گی۔‘

پاکستانیوں کے ساتھ کیا ہوا؟

عزیز الرحمان کے مطابق رحمت علی کے ساتھ کیا ہوا اس بارے میں بہت کم اطلاعات دستیاب ہیں۔

عزیز الرحمن کہتے ہیں کہ ’ہمیں جہاز پر موجود عملے کے ایک اور پاکستانی رکن نے بتایا کہ جب جہاز پر فیصلہ ہو گیا کہ اب عملے کے تمام ارکان اپنی جانیں بچائیں گے اور جہاز کو بچایا نہیں جا سکتا تو اس وقت رحمت علی نے میرے ساتھ ہی لائف جیکٹ پہن کر سمندر میں چھلانگ لگائی تھی۔‘

’رحمت علی کوئی آدھے گھنٹے تک میرے ساتھ سمندر ہی میں رہا، میں اس کو دیکھ سکتا تھا، مگر اس کے بعد وہ اچانک غائب ہو گئے۔ مجھے کچھ پتا نہیں چلا وہ کہاں گئے۔ اس کے بعد مدد آئی تو رحمت علی موجود نہیں تھے۔‘

ابو الحسن جمال کہتے ہیں کہ ’انھیں جہاز کے عملے میں شامل ایک پاکستانی نے بتایا کہ جب فیصلہ ہوا کہ اب سب کو اپنی اپنی جانیں بچانی ہیں اور جہاز نہیں بچ سکتا تو اس وقت تربیت کے مطابق ہر ایک نے اپنی اپنی لائف جیکٹ لی اور ان میں جمیل احمد خان بھی شامل تھے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے بتایا گیا کہ اس موقع پر جمیل احمد خان نے اپنے ساتھی کی لائف جیکٹ پہننے میں مدد بھی کی۔

’پھر سب اس امید پر سمندر میں کود گئے کہ جلد ہی مدد مل جائے گی مگر جب مدد ملی تو اس وقت محفوظ لوگوں میں جمیل احمد خان شامل نہیں تھے۔ ہمیں حادثے کے سات دن بعد بتایا گیا کہ ان کی لاش ملی ہے اور اب وہ ایران ہی میں موجود ہے۔‘

بحری جہاز

،تصویر کا ذریعہEPA

’اخراجات برداشت نہیں کر سکتے‘

ابو الحسن جمال کہتے ہیں کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ’لاش وصولی کے لیے جمیل احمد خان کے کسی بھائی، بیٹے یا والد کو ایران جانا پڑے گا، جہاں پر ان کا ڈی این اے ٹیسٹ ہو گا اور اس کے بعد حکام لاش دیں گے۔‘

’لاش وصولی کے لیے قانونی ضابطے پورے کرنے پڑیں گے۔ ہم سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہیں مگر صورتحال یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ ہم کسی کو ایران بھیج سکیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں خود ٹیوشن پڑھاتا ہوں جبکہ بھائی نے جہاز پر نوکری پاکستان میں کام نہ ہونے کی وجہ سے کی تھی۔

’اس وقت ہم لوگ مختلف لوگوں سے قرض لینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اتنے پیسے اکھٹے کر سکیں کہ بھائی کی لاش کو وصول کرنے کے لیے ایران جا سکیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

ابو الحسن جمال کا کہنا تھا کہ جمیل احمد خان نے جانے سے پہلے کہا تھا کہ وہ زیادہ عرصے تک جہاز کی نوکری نہیں کرنا چاہتے۔

’وہ چاہتا تھا کہ پاکستان ہی میں رہے۔ اس نوکری سے ملنے والے پیسوں سے وہ پاکستان ہی میں کوئی کاروبار کرے گا تاکہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دے سکے۔‘

جمیل احمد خان

،تصویر کا ذریعہAbu Hussain Jamal

،تصویر کا کیپشن

جمیل احمد خان کی لاش تقریباً ایک ہفتے بعد ایران ہی کی سمندری حدود سے ملی اور ابھی تک ایران ہی میں ہے

’بھتیجی روز پوچھتی ہے لیکن کوئی جواب نہیں‘

ابو الحسن کہتے ہیں کہ جمیل کی بڑی بیٹی دس سال کی ہے۔ جمیل نے جانے سے پہلے اپنی بیٹی کو کہا تھا کہ اس کے بعد وہ اتنے لمبے عرصے کے لیے نہیں جائیں گے۔

’وہ اب مجھ سے روز پوچھتی ہے کہ پاپا کب آئیں گے، پاپا فون کیوں نہیں کرتے، انھیں جلد واپس لے آئیں۔‘

’رحمت علی نے شوق سے جہاز کی نوکری کی تھی‘

عزیز الرحمن کہتے ہیں کہ تقریباً 22 سال کے رحمت علی کو دنیا دیکھنے کا بہت شوق تھا۔

’پیشے کے لحاظ سے وہ کارپینٹر تھا۔ اب کارپینٹر ہو کر وہ دنیا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ جہاز پر نوکری کر کے اس نے اپنے لیے راستہ نکالا کہ کمائی بھی کرے گا اور دنیا بھی دیکھے گا۔‘

عزیز الرحمن کا کہنا تھا کہ اس کو منع بھی کیا گیا تھا مگر وہ کہنے لگا کہ ’پیسے بھی کماؤں گا اور اپنا شوق بھی پورا کروں گا۔ اس کے بعد وقت نہیں ملے گا کہ بیٹی بڑی ہو جائے گئی اور اس کو میری ضرورت ہو گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ روزانہ سوات میں اپنی والدہ اور بیوی سے بات کرتے تھے۔

’ان کی بیوی کچھ دن سے بیمار بھی ہیں۔ اس نے آخری مرتبہ کہا تھا کہ میں کسی بھی ساحل پر پہنچ کر پیسے بھیجوں گا، بہت اچھے ڈاکٹر کو دکھانا۔

’ان کی والدہ کا بھی رو رو کر برا حال ہو چکا ہے اور وہ ہر وقت دعائیں کرتی رہتی ہیں کہ ان کا بیٹا محفوظ ہو۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.