کورونا: روس میں کئی افراد روس کی اپنی بنائی سپٹنِک ویکسین لگوانے سے گریزاں کیوں ہیں؟
مقامی اہلکار گالینا بورڈاڈیمووا کو اس روسی کامیابی پر فخر ہے۔
روس کے سپٹنِک نامی گاؤں میں جب حکام نے یہ اعلان کیا کہ کورونا وائرس کے خلاف تیار کی گئی روسی ویکسین سپٹنِک سب کے لیے مقامی دوا خانے پر دستیاب ہے تو محض 28 عمر رسیدہ افراد ہی سامنے آئے۔
روسی ویکسین کے بارے میں طبی جریدے لینسیٹ میں شائع ہونے والے اعداد وشمار کے مطابق یہ ویکسین کورونا وائرس کے خلاف 91.6 فیصد کارآمد ہے، یعنی یہ دنیا کی بہترین ویکسینز میں سے ایک ہے۔ لینسیٹ کی اس رپورٹ کے بعد سپٹنِک میں بین الاقوامی دلچسپی بڑھی ہے۔
یہ ماسکو کے لیے طبی فتح کے ساتھ ساتھ سیاسی فتح بھی تھی، کیونکہ ابتدائی مراحل میں جہاں روس میں اس ویکسین کے بارے میں کافی جوش تھا وہیں مغربی ممالک میں اس پر شک و شبہات کا اظہار کیا گیا تھا۔
تاہم اب لاطینی امریکہ سے لے کر یورپی ممالک تک سپٹنِک کی خوراکیں خرید رہے ہیں۔ اس کے برعکس خود روس میں ویکسینیشن کا عمل سست روی کا شکار رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر لوگ ویکسین لگوانے سے کترا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
سپٹنِک کے لیے سپٹنِک
سپٹنِک گاؤں میں سپٹنِک کا انجیکشن لگوانے کے بعد ایک عمر رسیدہ، پینشن یافتہ شخص نے اپنی قمیض صحیح کرتے ہوئے کہا ’سب نے مجھے ڈرا رکھا تھا کہ بہت درد ہوگا۔ مجھے تو پتہ بھی نہیں چلا!‘۔
ان کے پیچھے کھڑی ایک نرس نے ایک دوسرے پینشنر کی طرف جھکتے ہوئے کہا کہ انھیں انجیکشن لگوانے کے کچھ دیر بعد تک شراب نوشی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ماسکو سے دو تین گھنٹے کی دوری پر واقع سپٹنِک گاؤں میں مویشیوں کا ایک فارم اور کچھ رہائشی عمارتیں ہیں اور اس بات کا کوئی بھی نشان نہیں کہ اس کا نام روس کے کامیاب خلائی پروگرام پر کیوں رکھا گیا۔
ویکسین کے ساتھ اس خلائی پروگرام کا رشتہ واضح ہے۔
گاؤں کی ایک اہلکار گالینا بورڈاڈیمووا نے ہنستے ہوئے ہمیں بتایا ’سنہ 1957 کا سپٹنِک سیارہ ایک اہم پیش رفت اور مشعل راہ تھا، بالکل اس ویکسین کی طرح!‘
انھوں نے اس تاثر کو رد کیا کہ 1,000 سے زیادہ آبادی والے اس گاؤں میں لوگ ویکسین لگوانے سامنے نہیں آ رہے۔ انھوں نے کہا، ’ہمیں لگا تھا کہ 25 لوگ آئیں گے، لیکن 28 آئے، ہم تو خوش ہیں۔‘
ان کے عملے نے عمر رسیدہ افراد سے رابطہ کرکے انھیں ویکسین کے لیے بلایا تھا۔ گالینا بورڈاڈیمووا نے کہا کہ ’ویکسین سب کے لیے دستیاب تھی، جو بھی چاہتا لگوا سکتا تھا۔‘
بین الاقوامی دلچسپی
شروع شروع میں سپٹنِک ویکسین کے بارے میں روس کے دعوؤں کو مغربی مبصرین نے سنجیدگی سے نہیں لیا، کئی نے تو اس کا مذاق بھی اڑایا۔
لیکن اب تیسرے مرحلے کے تجربات سے سامنے آنے والے اعداد وشمار سے اس ویکسین کی افادیت واضح ہو گئی ہے۔ یہ اتنی ہی کارآمد ہے، جتنا کہ یورپ اور امریکہ میں بننے والی ویکسینز اور اس سے ہونے والے سائیڈ افیکٹس بھی ملتے جلتے ہی ہیں۔
سپٹنِک سے منسلک ریاستی انویسٹمنت فنڈ آر ڈی آئی ایف کے سربراہ کیریل دمیتریو نے پچھلے ماہ کہا تھا کہ ’اب تو ہمارے ناقدین کے پاس بھی کہنے کو کچھ نہیں بچا۔‘
آر ڈی آئی ایف کے مطابق 39 مملک پہلے ہی اس کے ویکسین کا اندراج کر چکے ہیں اور ویکسین کی کمی کی وجہ سے اب تو یورپ بھی روس کی مدد مانگ رہا ہے۔
ہنگری، روسی ویکسین کو ہنگامی حالات میں استعمال کے لیے منظوری دینے والا پہلا یورپی ملک تھا، جبکہ سلوواکیا نے سپٹنِک کو ’روسی اثر و رسوخ کا آلہ کار‘ ہونے والی باتوں پر کان نہ دھرتے ہوئے دو ملین خوراکیں حاصل کی ہیں۔
سلوواک وزیر اعظم ایگور ماٹووک کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس جیو پولیٹکس کی پرواہ نہیں کرتا۔
روسی ویکسین کی طلب اس قدر بڑھ گئی ہے کہ روس کا کہنا ہے کہ موجودہ پیداوار کم پڑ رہی ہے۔
آر ڈی آئی ایف کا کہنا ہے کہ وہ غیر ملکی آرڈرز کو بیرون ملک قائم پلانٹس کے ذریعے پورا کریں گے، اور روسی شہریوں کے لیے خوراکوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم اب تک اس کی کوئی تفصیلات واضح نہیں کی گئی ہیں۔
آر پولیٹیک نامی فرم سے منسلک ٹاٹیانا سٹانووایا کہتی ہیں ’پیوٹن کے لیے ویکسین بنانا دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنے کا ذریعہ تھا کہ روس ایک ترقی یافتہ، طاقتور ملک ہے، جو مشکل شعبوں میں بڑی کامیابیاں حاصل کر سکتا ہے۔‘
لیکن اسی وجہ سے یورپ بھر میں سپٹنِک کو منظوری دلوانا مشکل ثابت ہو رہا ہے۔
ٹاٹیانا سٹانووایا کہتی ہیں ’جب آپ روسی ویکسین خریدنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ آپ خود کو پیوتن کے اقتدار یا پھر خود پیوتن سے جوڑ رہے ہیں۔‘
روسی احتیاط
سپٹنِک گاؤں میں اس طرح کی سیاست کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ کچھ رہائشی پریشان ہیں کہ کہیں انھیں کورونا وائرس نہ ہو جائے۔ وبا کی پہلی لہر میں عمر کی پچاسوین دہائی میں دو مقامی لوگ اس کا شکار ہوئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود گاؤں والے ویکسین لگوانے سے ہچکچا رہے ہیں۔
لیواڈا سینٹر کی طرف سے کیے جانے والے ایک پول کے مطابق صرف تیس فیصد روسی شہری سپٹنِک ویکسین لگوانے کے لیے تیار ہیں۔ یہ ابتدائی دنوں سے آٹھ فیصد کم ہے۔
سپٹنِک گاؤں کی رہائشی لیڈیا نیکولیونا کہتی ہیں ’لوگ ڈرتے ہیں، ویکسین سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں ہیں۔‘
وہ خود حال ہی میں کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب ہوئی ہیں اس لیے ان کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ انھیں فی الحال ویکسین لگوانے کی ضرورت نہیں ہے۔
وہ کہتی ہیں ’شاید کچھ عرصے بعد۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ ٹھیک ہی ہے، لیکن دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ اگر سب ٹھیک رہے گا تو مزید لوگ ویکسین لگوائیں گے۔‘
رشین انٹرنیشنل افئیرز کاؤنسل کے ایندرے کورتونوو کہتے ہیں ’روسی کافی روایت پسند لوگ ہیں، وہ اپنی ریاست اور اس کی طرف سے آنے والی ہر بات پر یقین نہیں کرتے۔‘
ملک میں نہ تو لاک ڈاؤن ہے اور نہ ہی کورونا کی وجہ سے ہونے والی اموات کا ذکر۔ ایسے میں شاید زیادہ تر لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ خطرہ ٹل گیا ہے۔
ریاستی ٹی وی پر بھی اس کا ذکر کم ملتا ہے اور خود صدر نے اب تک ویکسین نہیں لگوائی ہے۔
اس سب کا مطلب یہ ہے کہ اب تک صرف چار ملین روسی شہریوں کو ہی ویکسین لگائی گئی ہے، جو کہ وزارت صحت کے حدف سے کہیں کم ہے۔
کریملن کا اصرار ہے کہ قومی سطح پر ویکسین کے استعمال میں کوئی کمی نہیں ہے۔
سپٹنِک گاؤں کے دوا خانے سے گھر جاتے ہوئے اناتولی کہتے ہیں کہ انجیکشن لگوانا کوئی مسئلہ نہیں تھا ’بس ایک لمحے میں سب ہو گیا!‘ لیکن ساتھ ہی انہیں اس بات کا بھی یقین نہیں ہے کہ انھیں اس کی ضرورت تھی۔
’میں صحت مند ہوں! روز ساماگون پینا چاہیے۔‘ ساماگون دیسی ساکھ کی ایک طاقت ور شراب ہے۔ چوہتر برس کے اناتولی ہنستے ہوئے کہتے ہیں ’مجھے لگتا ہے وہ مجھے کورونا سے بھی بچائے گا۔‘
Comments are closed.