بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

روسی صدر پوتن کے پُرزور اور شدید مخالف الیکسی نوالنی کون ہیں؟

الیکسی نوالنی: روسی صدر پوتن کے پُرزور اور شدید مخالف الیکسی نوالنی کون ہیں؟

Russian anti-corruption campaigner and opposition figure Alexei Navalny attends a hearing at the Lublinsky district court in Moscow, Russia on 1 August, 2016

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

الیکسی نوالنی اکثر اوقات روسی صدر ولادیمیر پوتن پر تنقید کرتے رہتے ہیں

روس میں انسداد بدعنوانی مہم چلانے والے الیکسی نوالنی طویل عرصے سے صدر ولادیمیر پوتن کی مخالفت کا سب سے نمایاں چہرہ رہے ہیں۔ ان کی روسی صدر پر تنقید ان کی زندگی پر حملے کی کوشش اور جیل کی سزا کے باوجود جاری ہے۔

44 سالہ اس بلاگر کے سوشل میڈیا پر لاکھوں روسی فالورز ہیں اور جنوری 2021 میں حکومت مخالف جلسوں میں دسیوں ہزار افراد ان کی حمایت میں سامنے آئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ پوتن کی یونائیٹڈ رشیا پارٹی ’بدمعاشوں اور چوروں‘ کا ٹولہ ہے اور انھوں نے صدر پر کریملن میں اقتدار بڑھانے پر توجہ مرکوز کر کے ’جاگیردارانہ ریاست‘ کے ذریعے ’روس کا خون چوسنے‘ کا الزام عائد کیا ہے۔

انھوں نے حکام پر اگست 2020 میںاعصاب پر اثر کرنے والا زہر نویچوک کے ذریعے انھیں قتل کرنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا۔ انھوں نے حکام کے خلاف ملک گیر احتجاج کی قیادت کی، لیکن وہ بیلٹ باکس پر پوتن کو موثر انداز میں چیلنج کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

روسی عدالت کی جانب سے غبن کے جرم میں سزا سنائے جانے کی وجہ سے انھیں 2018 کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا۔

نوالنی نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی قانونی مشکلات ان کی جانب سے شدید تنقید کے ردعمل میں کریملن کی طرف سے انتقام تھیں۔ یہی سزا بعد میں انھیں جیل میں ڈالے جانے کا سبب بنے گی۔

یہ بھی پڑھیے

نویچکوک زہر سے بچ گئے

68 سالہ ولادیمیر پوتن کے خلاف ان کی جنگ انتہائی ذاتی ہے: انھوں نے صدر پر الزام عائد کیا کہ وہ ریاستی ایجنٹوں کو زہر دینے کا حکم دے رہے ہیں، ایک ایسا حملہ جس نے انھیں تقریباً ہلاک ہی کر دیا تھا۔

وہ سائبیریا سے ایک پرواز کے دوران بے ہوش ہو گئے تھے اور انھیں اومسک کے ہسپتال لے جایا گیا۔ وہ کوما میں چلے گئے اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے ایک خیراتی ادارے نے روسی عہدیداروں کو راضی کیا کہ انھیں علاج کے لیے برلن لے جانے کی اجازت دی جائے۔

Alexei Navalny in Berlin with wife Yulia and son Zakhar, 2 Oct 20

،تصویر کا کیپشن

الیکسی اپنی اہلیہ اور بیٹے کے ہمراہ

آخر کار دو ستمبر کو، جرمن حکومت نے انکشاف کیا کہ فوج کے ذریعے کیے گئے ٹیسٹوں میں ’نویچوک گروپ کے کیمیائی اعصابی جنگی ایجنٹ (زہر) کا غیر واضح ثبوت‘ ملا ہے۔

نویچوک ایک کیمیائی ہتھیار ہے جس سے مارچ 2018 میں انگلینڈ کے شہر سیلیسبری میں سابق روسی جاسوس سرگی سکریپل اور ان کی بیٹی یولیا کی جان لینے کی بھی کوشش کی گئی تھی۔ ایک مقامی خاتون بعد میں نویچوک کے ساتھ رابطے میں آنے سے ہلاک ہو گئی تھی۔

روس نے نوالنی پر حملے میں کسی بھی ریاستی کردار کی تردید کی اور نویچوک کے الزام کو مسترد کیا ہے۔

لیکن پوتن نے اعتراف کیا کہ ریاست نوالنی کو نگرانی میں رکھے ہوئے ہے، اس کا جواز پیش کرتے ہوئے انھوں نے الزام لگایا کہ امریکی جاسوس نوالنی کی مدد کر رہے ہیں۔

Still from Navalny video in which he phoned one of his alleged would-be assassins

،تصویر کا ذریعہReuters

تفتیشی گروپ بیلینگکٹ نے ان ایجنٹوں کا نام لیا جن پر شبہہ ہے کہ انھوں نے نوالنی کو زہر دیا تھا۔ اور پھر ایک ڈرامائی سٹنگ آپریشن میں نوالنی نے فون پر خود کو ایک روسی سینئر اعلیٰ عہدیدار ظاہر کرتے ہوئے ان میں سے ایک کا اعتراف ریکارڈ کیا۔

اکتوبر میں یورپی یونین نے چھ اعلیٰ روسی عہدیداروں اور روسی کیمیائی ہتھیاروں کے ایک تحقیقی مرکز پر پابندیاں عائد کر دیں اور ان پر نوالنی کو زہر دینے میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔ مارچ میں یورپی یونین اور امریکہ کی جانب سے مزید پابندیاں لگائی گئیں۔

نوالنی پر اس سے پہلے بھی حملے ہو چکے ہیں، انھیں دو بار اینٹی سیپٹیک گرین ڈائی کا نشانہ بنایا گیا ہے جو آنکھوں میں کیمیائی جلن کا سبب بنا۔

روس واپسی اور جیل

جرمنی میں نویچوک زہر سے صحت یاب ہونے کے دوران نوالنی نے اصرار کیا کہ وہ جلد روس واپس جائیں گے اور وہ سیاسی جلاوطن نہیں بنیں گے۔

انھوں نے اپنی بات پر عمل کیا اور 17 جنوری کو برلن سے ماسکو روانہ ہو گئے۔

Alexei Navalny is escorted out of a police station on January 18, 2021, in Khimki, outside Moscow

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

نوالنی کو برلن سے واپس ملک پہنچنے کے کچھ دیر بعد ہی گرفتار کر لیا گیا تھا

حکام کی جانب سے ان کا استقبال کرنے کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد کو محدود کرنے کی کوشش میں ان کی پرواز کو ایک مختلف ہوائی اڈے کی طرف موڑ دیا گیا تھا پھر بھی ان کے حامیوں اور اس کے ساتھ ہی پولیس کی ایک بڑی تعداد وہاں پہنچ ہی گئی تھی۔

نوالنی کو پاسپورٹ کنٹرول سے گزرتے ہوئے حراست میں لے لیا گیا۔

جس وقت وہ زیر حراست تھے روس کے مختلف علاقوں میں حالیہ برسوں کے سب سے بڑے حکومت مخالف مظاہرے ہوئے جس میں دسیوں ہزار افراد شریک ہوئے، جن میں سے ہزاروں افراد کو حراست میں لیا گیا۔

عدالت نے ایک پرانے کیس میں پیرول کی خلاف ورزی کرنے پر نوالنی کو ڈھائی سال قید کی سزا سنائی۔ انھیں روس کی ایک سخت ترین جیل پینل کالونی نمبر دو میں بھیجا دیا گیا۔ عدالتی کارروائی کے بعد نوالنی نے خود اور ان کے حامیوں نے اسے انصاف کا مذاق قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔

نوالنی کو وہاں پہنچے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ انھوں نے انسٹاگرام پر لکھا کہ ’مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ماسکو سے 100 کلومیٹر دور ایک حقیقی حراستی کیمپ کا بندوبست کرنا ممکن ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا ’یہاں ہر طرف ویڈیو کیمرے موجود ہیں، ہر ایک کو دیکھا جاتا ہے اور تھوڑی سی خلاف ورزی پر بھی وہ اپنی رپورٹ بناتے ہیں۔‘

انھوں نے وہاں کے حالات کا موازنہ جارج اورویل کے ناول 1984 میں بیان کی گئی صورتحال سے کیا۔

نوالنی اور ان کے وکیلوں نے بتایا کہ انھیں اس بنیاد پر رات کے اوقات میں جیل کے محافظ جگائے رکھتے ہیں، انھیں نیند سے محروم کیا جاتا ہے، کہ وہ ایک خطرناک قیدی ہیں جو فرار ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

مارچ کے وسط میں، الیکسی نوالنی نے صحت کی خرابی کی شکایت کرنا شروع کر دی: ان کی کمر میں تکلیف ہوگئی تھی اور ان کا بازو اور پیر سن ہونے لگے تھے۔ انھوں نے درخواست کی کہ جیل کے باہر سے کوئی ڈاکٹر آکر انھیں دیکھے لیکن ان کی درخواست مسترد کردی گئی۔ انھوں نے احتجاج میں بھوک ہڑتال شروع کر دی۔

16 اپریل کو دنیا بھر سے درجنوں مشہور شخصیات نے صدر ولادیمیر پوتن کو لکھے ایک کھلے خط پر دستخط کیے، جس میں نوالنی کو مناسب طبی دیکھ بھال دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

اٹھارہ اپریل کو ان کی حمایتوں نے جن میں قابل ڈاکٹرز بھی شامل تھے، کہا تھا کہ ان کے خون کے نمونوں کے ٹیسٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی صحت بری طرح سے بگڑ رہی ہے اور بعدازاں اسی دن جیل حکام نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ انھیں ہپستال منتقل کر دیا گیا ہے اور’ اب ان کی صحت بہتر ہے۔‘

بی بی سی کے نامہ نگار اینڈریو مار کو انٹرویو دیتے ہوئے برطانیہ میں روس کے سفیر انڈری کیلن کا کہنا تھا کہ نوالنی اب خطرے سے باہر ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یقیناً جیل میں ان کی موت نہیں ہو گی لیکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ نوالنی کا رویہ ایک غنڈے کی طرح ہے اور وہ ہر قانون کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ نوالنی ’توجہ حاصل کرنے‘ کی کوشش کر رہے ہیں۔

انسداد بدعنوانی کی مہم

Image shows the palace on the Black Sea

،تصویر کا ذریعہYouTube/Alexei Navalny

روس کے سیاسی منظر نامے پر نوالنی کا ایک قوت کے طور پر آغاز سنہ 2008 میں ہوا تھا جب انھوں نے روس کے چند بڑے سرکاری اداروں میں مبینہ بدعنوانی اور کرپشن کے بارے میں بلاگنگ شروع کی تھی۔

ان کے حربوں میں سے ایک حربہ یہ تھا کہ وہ کسی بڑی آئل کمپنی، بینک یا وزارت کے معمولی شیئر ہولڈر بن جاتے اور سرکاری معیشت میں خامیوں پر سخت سوالات پوچھتے تھے۔

سوشل میڈیا پر وہ نوجوان طبقے سے تیز و تکرار اور سخت زبان میں مخاطب ہوتے اور صدر پوتن کی حامی اسٹیبلشمنٹ کا مذاق اڑاتے تھے۔

وہ روسی نوجوانوں سے بازاری زبان میں بات کرتے اور اسے سوشل میڈیا پر سخت اثرات کے لیے استعمال کرتے۔ ان کی انسداد بدعنوانی کی تنظیم نے بدعنوانی کے خلاف تفصیلی دعوے تیار کیے تھے۔

ان میں حال ہی میں یوٹیوب پر ’صدر پوتن کے محل‘ کی ویڈیو بھی شامل ہے۔ بحیرہ اسود کے کنارے پر ایک وسیع محل کے بارے میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ صدر پوتن کو یہ محل ان کے امیر ساتھیوں نے مبینہ طور پر تحفہ میں دیا ہے۔ اس ویڈیو میں اس کو ’تاریخ کی سب سے بڑی رشوت‘ بتایا گیا ہے۔

نوالنی کی گرفتاری کے بعد شائع ہونے والی اس ویڈیو کو دس کروڑ سے زیادہ افراد نے دیکھا ہے۔ روس نے اسے ’ایک جعلی تفتیش‘ قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔ جبکہ صدر پوتن نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’بورنگ‘ قرار دیا ہے۔

بعدازاں صدر پوتن کے ایک قریبی ساتھی اور ارب پتی کاروباری شخص، آرکدے روٹن برگ نے کہا تھا کہ یہ ان کا محل ہے۔

line

الیکسی نوالنی کے متعلق چند بنیادی باتیں

  • وہ چار جون 1976 کو ماسکو کے علاقے بویان میں پیدا ہوئے۔
  • سنہ 1998 میں ماسکو کی فرینڈشپ پیپلز یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم میں گریجوئیشن کی۔
  • سنہ 2010 میں یالے ورلڈ فیلو بن گئے
  • وہ اپنی اہلیہ اور دو بچوں کے ساتھ ماسکو میں رہتے ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی داریا امریکہ میں پڑھ رہی ہے جبکہ چھوٹے بیٹے کا نام زاخر ہے۔

line

نوالنی کو دسمبر 2011 میں 15 روز کے لیے گرفتار اور قید کیا گیا تھا اور پھر دوبارہ جولائی 2013 میں کیریو میں خرد برد کے الزام میں دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی پانچ سالہ قید کو بڑے پیمانے پر سیاسی سزا کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

ماسکو کے میئر کے انتخابات کے لیے انھیں غیر متوقع طور پر جیل سے باہر آنے کی اجازت دی گئی تھی، ان انتخابات میں وہ 27 فیصد ووٹ لے کر وہ صدر پوتن کے اتحادی سرگئی سوبیان کے مقابلے میں دوسری نمبر پر آئے تھے۔

اس کو ان کی بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے کیونکہ ان کے پاس سرکاری ٹی وی تک رسائی نہیں تھی اور ان کی مہم کا انحصار صرف انٹرنیٹ اور سنی سنائی باتوں پر تھا۔

Alexei Navalny returns from Kirov after his 5-year term was made a suspended sentence

،تصویر کا ذریعہAFP

بلآخر ان کی سزا کو روس کی سپریم کورٹ نے یورپین کورٹ برائے انسانی حقوق کے ایک فیصلے کے تحت ختم کر دیا تھا اور کہا تھا کہ انھیں پہلی سماعت میں اپنے دفاع کا مناسب موقع نہیں فراہم کیا گیا۔

پھر سنہ 2017 میں مقدمے کی دوبارہ سماعت میں انھیں دوسری بار سزا سنائی گئی اور پانچ سال کی معطل سزا دی گئی۔ انھوں نے عدالتی فیصلے کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ سب انھیں 2018 کے انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی کوشش ہے۔

نوالنی نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ روس میں انصاف کو یقینی بنانے کے لیے مغربی ریاستیں جو سب سے بہتر کام کر سکتی ہیں وہ ’کالے دھن‘ کے خلاف کارروائی کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ جو لوگ بدعنوانی یا کارکنوں کے ساتھ برے سلوک میں ملوث ہیں انھیں ان ممالک کے ویزے نہ دیے جائیں اور ان کو ان ممالک میں داخلے سے روکا جائے۔‘

نوالنی پر تنقید

الیکسی نوالنی نے سخت گیر قوم پرست اجتماعات سے بھی خطاب کیا ہے جس کی وجہ سے لبرلز میں تشویش پائی جاتی ہے۔

اپنی سزا کے بعد وہ ماضی میں دیے گئے تارکین وطن کے مخالفت میں تبصروں کے باعث تنازعے کی زد میں بھی رہے۔ اُنھوں نے ان تبصروں سے خود کو دور نہیں کیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اُن سے ’ضمیر کا قیدی‘ کی حیثیت واپس لے لی تھی کیونکہ 2007 کی چند ویڈیوز میں اُنھیں بظاہر نسلی تنازعات کو دانتوں کے سڑنے اور تارکینِ وطن کو لال بیگوں سے تشبیہ دیتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔

ایمنسٹی نے اُس کے باوجود اُن کی رہائی کے لیے مطالبہ کیا اور کہا کہ وہ صدر پوتن کے خلاف مہم چلانے کی وجہ سے انتقامی کارروائی کا نشانہ بن رہے ہیں۔

نوالنی نے جزیرہ نُما کریمیا کو روس کی ملکیت قرار دیا ہے حالانکہ روس کی جانب سے 2014 میں یوکرینی خطے پر قبضے کی بین الاقوامی طور پر مذمت کی گئی ہے۔

اپنے انتہائی منظم انسدادِ بدعنوانی نیٹ ورک کے باوجود اس حوالے سے شبہات موجود ہیں کہ آیا وہ زبردست حمایت کا دائرہ ماسکو اور چند شہروں سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.