بریف کیس بم، دو لاکھ ڈالر اور پیراشوٹ۔۔۔ وہ ہائی جیکر جس کی شناخت 52 سال بعد بھی ایک معمہ ہے

امریکہ

،تصویر کا ذریعہFBI

  • مصنف, زبیر اعظم
  • عہدہ, بی بی سی اردو

24 نومبر 1971 کا دن تھا جب ڈین کوپر نامی شخص نے امریکی ریاست اوریگون میں پورٹ لینڈ ایئر پورٹ پر ریاست واشنگٹن کے شہر سیاٹل جانے کا یکطرفہ ٹکٹ خریدا۔

نارتھ ویسٹ ایئر لائن کے کاوئنٹر پر کھڑے عملے کو گمان تک نہیں تھا کہ یہ شخص امریکی تاریخ کی سب سے پیچیدہ واردات کرنے والا ہے، جس کا سراغ 52 سال بعد بھی نہیں لگ سکا۔

ڈین کوپر کم گو اور 40 سال کے لگ بھگ عمر کے شخص تھے جنھوں نے سفید شرٹ اور کالی ٹائی کے ساتھ سوٹ پہن رکھا تھا۔ انھیں دیکھ کر کسی بزنس مین کا گمان ہوتا تھا۔ جہاز میں بیٹھ کر انھوں نے اپنے لیے ایک ڈرنک کا آرڈر دیا۔

اس طیارے میں کوپر کے علاوہ 36 مسافر سوار تھے۔ جہاز نے اڑان بھری تو دن کے تقریبا تین بجے ڈین کوپر نے ایئر ہوسٹس کو بلایا اور ان کے ہاتھ میں ایک نوٹ تھما دیا۔

وہ نوٹ پڑھ کر ایئر ہوسٹس کا رنگ اڑ گیا۔ نوٹ میں لکھا ہوا تھا کہ ڈین کوپر کے پاس موجود بیگ میں ایک بم ہے اور ہوسٹس کو چاہیے کہ وہ چُپ چاپ ساتھ والی نشست پر بیٹھ جائیں۔

ششدر ہوسٹس نے ایسا ہی کیا تو ڈین کوپر نے ایک بریف کیس کو ہلکا سا کھول کر اندر کی ایک جھلک دکھلائی۔ ہوسٹس کو صرف یہی نظر آیا کہ اس بریف کیس میں تاریں اور لال رنگ کی سٹکس موجود تھیں۔ یہ بم تھا یا کچھ اور، کوئی نہیں جانتا۔

جرم کی دنیا کا یہ پراسرار معمہ اب بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک سوالیہ نشان کی طرح موجود ہے جسے ایف بی آئی آج تک حل نہیں کر سکی۔

اس پیچیدہ واردات کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ڈین کوپر، جو ڈی بی کوپر کے نام سے مشہور ہوا، نے اس واردات کے دوران تن تنہا ایک مسافر ہوائی جہاز ہائی جیک کیا۔

عملے کو یرغمال بنا کر وہ دو لاکھ ڈالر کی رقم ملنے کے بعد دوران پرواز جہاز سے یوں غائب ہوئے کہ آج تک پوچھا جاتا ہے کہ ڈین کوپر کو زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟

لیکن یہ واردارت کیسے ہوئی؟

امریکہ

،تصویر کا ذریعہFBI

،تصویر کا کیپشن

ڈین کوپر کا ٹکٹ

کوپر نے ہوسٹس کو اپنے مطالبات لکھوائے جن کے مطابق دو لاکھ ڈالر اور پیرا شوٹ فراہم کیے جانے تھے۔ کوپر کی جانب سے پیسوں سے متعلق بھی کافی مخصوص مطالبہ کیا گیا۔ اس رقم میں صرف 20 ڈالر کے نوٹوں کو ہی شامل کیا جانا تھا۔ ہائی جیکر نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ اس کو جو نوٹ دیے جائیں، وہ ایک ہی سیریز کے نہ ہوں یعنی ان کا سراغ لگانا آسان نہ ہو۔

کوپر نے نوٹ میں لکھا کہ اگر اس کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ طیارے کو مسافروں اور عملے سمیت بم سے تباہ کر دے گا۔ ہوسٹس نے یہ پیغام پائلٹ تک پہنچایا تو تھوڑی ہی دیر بعد انٹرکام پر آواز گونجی کہ طیارہ ایک تکنیکی خرابی کے باعث لینڈ کرنے والا ہے۔ طیارے میں سوار مسافروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔

طیارہ نیچے اترنے سے پہلے ہی حکام کو ہائی جیکنگ کی اطلاع مل چکی تھی۔ پولیس اور ایف بی آئی اس سوچ میں پڑ گئے کہ ہائی جیکر نے پیسوں کے ساتھ پیراشوٹ کیوں مانگے ہیں۔

ہائی جیکر نے پائلٹ کو تاکید کر رکھی تھی کہ طیارے کو ایسی جگہ روکا جائے جہاں باہر روشنی کا انتظام ہو اور اندر کی روشنیاں مدھم کر دی جائیں تاکہ باہر سے کوئی اندر نہ دیکھ سکے۔ کوپر نے دھمکی دی کہ طیارے کے قریب کوئی گاڑی یا شخص آیا تو طیارہ تباہ کر دیا جائے گا۔

حکام نے ایئر لائن کے صدر کو فون کیا جس نے کہا کہ ہائی جیکر کے مطالبات مان لیے جائیں۔ بم کے خطرے کے پیش نظر حکام نے فیصلہ کیا کہ مسافروں کی جان بچانے کو اولین ترجیح بنایا جائے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہFBI

،تصویر کا کیپشن

ہائی جیکنگ کے دوران کوپر نے یہ ٹائی پہن رکھی تھی جو وہ طیارے میں ہی چھوڑ گیا۔ ایف بی آئی نے اس کی مدد سے بعد میں ڈی این اے حاصل کیا

ایئر لائن کا ایک ملازم پیسے لے کر جہاز کے قریب پہنچا اور فلائٹ اٹینڈنٹ نے جہاز کی سیڑھی نیچے کی۔ پہلے دو پیرا شوٹ پکڑائے گئے اور پھر ایک ہی بڑے بیگ میں پیسے۔ اپنے مطالبات پورے ہو جانے کے بعد کوپر نے 36 مسافروں اور ایک فلائٹ اٹینڈینٹ کو رہا کر دیا جو طیارے سے اتر گئے۔

کوپر نے جہاز میں موجود دو پائلٹ، ایک فلائٹ اٹینڈینٹ اور ایک فلائٹ انجینیئر کو رہا نہیں کیا اور حکم دیا کہ طیارے کو نیو میکسیکو سٹی کی جانب اڑا کر لے جایا جائے۔ جہاز کا سارا عملہ کاک پٹ میں ہی موجود تھا اور کوپر کاک پٹ کے باہر۔ کوپر نے پائلٹ کو ہدایت دی کہ وہ طیارے کو 150 ناٹ کی رفتار پر دس ہزار فٹ کی بلندی تک لے جائے۔

ابھی پرواز کو دوبارہ اڑے 20 ہی منٹ ہوئے تھے کہ کاک پٹ میں لال رنگ کی بتی روشن ہوئی۔ اس کا مطلب تھا کہ کسی نے طیارے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ پائلٹ نے انٹرکام پر کوپر سے مخاطب ہو کر پوچھا کہ کیا اسے کسی چیز کی ضرورت ہے تو کوپر نے غصے سے جواب دیا ’نہیں۔‘

یہ وہ آخری الفاظ تھے جو اس پراسرار ہائی جیکر نے ادا کیے۔ اس کے بعد وہ غائب ہو گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ کوپر پیراشوٹ کی مدد سے پیسوں سمیت جہاز سے چھلانگ لگا چکا تھا۔

اب یہ واضح ہوا کہ اس نے 20 ڈالر کے نوٹ ہی کیوں مانگے تھے کیوں کہ اس طرح رقم کا مجموعی وزن 21 پاونڈ بنتا۔ اگر اس سے کم ڈالر کے بل ہوتے تو وزن زیادہ ہوتا اور چھلانگ لگانا جان لیوا ثابت ہو سکتا تھا۔ اگر زیادہ بڑے بل ہوتے تو وزن تو کم ہوتا لیکن ان کا استعمال کرنا خطرے سے خالی نہ ہوتا۔ تاہم ایف بی آئی نے ہوشیاری کی تھی اور ان تمام نوٹوں پر کوڈ لیٹر ’ایل‘ موجود تھا۔

لیکن یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکام کو کوپر کی جانب سے پیراشوٹ طلب کیے جانے پر شک گزرا تھا تو انھوں نے کوئی قدم کیوں نہ اٹھایا؟

بیگ

،تصویر کا ذریعہFBI

،تصویر کا کیپشن

وہ بیگ جس میں کوپر کو پیراشوٹ فراہم کیے گئے

حقیقت یہ ہے کہ پولیس نے طیارے کا پیچھا کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ پہلے ایف 106 طیارے استعمال کرنے کا ارادہ کیا گیا لیکن یہ تیز رفتار لڑاکا طیارے اتنی کم رفتار پر نہیں اڑ سکتے تھے جس کی تاکید کوپر نے پائلٹ کو کی تھی۔

اس لیے ایئر نیشنل گارڈ سے ٹی 33 طیاروں کی درخواست کی گئی۔ تاہم جب تک یہ طیارے ہائی جیک ہونے والے مسافر طیارے تک پہنچے، کوپر چھلانگ لگا چکا تھا۔

مسافر طیارہ تو بحفاظت نیچے اتر گیا لیکن کاک پٹ سے باہر نکلنے کے بعد عملے نے دیکھا کہ کوپر کا کوئی اتہ پتہ نہ تھا۔ بس اس کی ٹائی اور ایک پیرا شوٹ ہی جہاز میں موجود تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ جس مقام پر طیارے سے باہر نکلا، اس حساب سے وہ لیک مرون نامی مقام کے آس پاس زمین پر اترا ہو گا۔

ایف بی آئی نے فوری طور پر اس علاقے میں تلاش کا آغاز کر دیا اور سینکڑوں افراد سے پوچھ گچھ کی گئی۔ آہستہ آہستہ تلاش کا دائرہ پھیلایا جاتا رہا لیکن کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوپر ہوا میں ہی کہیں غائب ہو گیا۔

پانچ ماہ بعد اسی طرز کی ایک واردات ہوئی جس میں طیارے کو ہائی جیک کرنے اور رقم ملنے کے بعد ملزم نے طیارے سے پیرا شوٹ کی مدد سے چھلانگ لگا دی۔ لیکن اس بار رچرڈ فلوئڈ نامی ملزم گرفتار کر لیا گیا۔

ایف بی آئی کا پہلا خیال یہ تھا کہ یہی وہ ملزم ہے جس کی ان کو تلاش تھی۔ لیکن جب فلائٹ اٹینڈینٹ کو اس کا چہرہ دکھایا گیا تو انھوں نے کہا کہ یہ وہ شخص نہیں۔ گمان کیا جاتا ہے کہ رچرڈ نے ڈین کوپر کی کامیاب ہائی جیکنگ سے متاثر ہو کر یہ واردات کی تھی۔

کئی سال تک ایف بی آئی ہاتھ ہی ملتی رہی اور پھر یہ کہا جانے لگا کہ شاید کوپر چھلانگ لگانے کے بعد زندہ ہی نہیں بچا۔

پھر 1980 میں ایک بچے کو ایک دریا کے پاس سے 20 ڈالر کے پھٹے پرانے نوٹ ملے جو مجموعی طور پر تقریبا 5800 ڈالر بنتے تھے۔ ایف بی آئی کو اطلاع ملی تو انھوں نے سیریئل نمبر دیکھا۔ یہ وہی نوٹ تھے جو تاوان کی مد میں کوپر کو ادا کیے گئے تھے۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہFBI

،تصویر کا کیپشن

1980 میں ایک بچے کو دریا کے پاس سے ملنے والے 20 ڈالر کے پھٹے پرانے نوٹ

یہ بھی پڑھیے

یوں اس نظریے کو مذید تقویت ملی کہ شاید کوپر چھلانگ لگانے کے بعد زندہ نہیں بچا کیوں کہ وہ رات کے وقت ایک جنگلی علاقے کے بیچ گرا تھا۔

تاہم سب کو اس نظریے سے اتفاق نہیں تھا۔ بہت سے لوگوں کا ماننا تھا کہ جو نوٹ ملے، وہ چھلانگ کے دوران کوپر سے گر گئے ہوں گے اور باقی رقم سمیت وہ بحفاظت نیچے اترا بھی اور حکام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب بھی ہوا۔

یوں اس پہیلی کے اسرار گہرے ہوتے چلے گئے اور ڈین کوپر امریکہ میں ایک مشہور شخصیت بن گیا۔ یہ الگ معاملہ تھا کہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اصل ڈین کوپر کون ہے اور زندہ بھی ہے یا نہیں۔

کئی سال بعد اگست 2011 میں ایک خاتون، مارلا کوپر نے دعوی کیا کہ ڈین کوپر دراصل اس کے انکل تھے۔ ماریا کا دعوی تھا کہ اس نے ایک گفتگو سنی تھی جس کے مطابق ایک طیارہ ہائی جیک کیا گیا۔ تاہم ماریا نے یہ بھی کہا کہ اس کے انکل جہاز سے چھلانگ لگانے کے بعد وہ رقم ہوا میں ہی کھو بیٹھے۔

امریکہ
،تصویر کا کیپشن

ڈین کوپر امریکہ کی تاریخ کے واحد ہائی جیکر ہیں جو کبھی نہیں پکڑے جا سکے

اس وقت تک ایسے بہت سے دعوے ہو چکے تھے۔ لیکن اس دعوے کی دلچسپ بات یہ تھی کہ ہائی جیک ہونے والے مسافر طیارے کے ایک فلائٹ اٹینڈینٹ نے ماریا کے انکل کی تصویر دیکھ کر کہا کہ یہ شکل ہائی جیکر سے ملتی جلتی ہے۔ تاہم حکام اس دعوے پر یقین نہ لائے اور ڈین کوپر کی فائل بند نہ ہو سکی۔

2016 میں تھک ہار کر ایف بی آئی نے اس تفتیش کے لیے مختص وسائل کو دیگر مقدمات میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ 45 سال کی تفتیش کے باوجود ایف بی آئی اس جرم کو حل نہ کر سکی۔

ایف بی آئی نے واضح کیا کہ اگرچہ وہ اس کیس کو اب اتنی زیادہ توجہ نہیں دے رہے تاہم اگر کسی کے پاس کسی قسم کی معلومات ہوں تو وہ ان سے رابطہ کر سکتا ہے۔

ڈین کوپر امریکہ کی تاریخ کے واحد ہائی جیکر ہیں جو کبھی نہیں پکڑے جا سکے۔ اور ان کی یاد میں ہر سال 24 نومبر کو اس مقام پر ایک جشن منایا جاتا ہے جہاں ایف بی آئی نے ان کی تلاش میں پہلا ہیڈ کوارٹر قائم کیا تھا۔

اریئل ٹیورن میں بزنس سوٹ پہنے، چشمہ لگائے، پیرا شوٹ تھامے لوگ آج بھی اکھٹے ہوتے ہیں اور رات گئے تک محفل جمی رہتی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ