اسرائیل خطے میں موجود اپنے دو دشمنوں: لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں موجود حماس کے ساتھ بالکل مختلف انداز میں پیش آتا ہے۔ ایک طرف غزہ ہے جہاں اسرائیل قابض ہے جبکہ لبنان ایک خود مختار ریاست ہے۔ ایک وقت تک لبنان پر بھی اسرائیل کا قبضہ تھا لیکن حزب اللہ اور دوسرے گروہوں کی طرف سے مسلسل مزاحمت کے بعد اس کو وہاں سے نکلنا پڑا تھا۔اپنی فوجی قابلیت اور فضائی برتری کے باوجود اسرائیل کو لبنان میں جاری زمینی آہریشن میں کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دو ماہ گزر جانے کے بعد بھی وہ جنوبی لبنان پر کنٹرول قائم کرنے میں ناکام رہا ہے اور حزب اللہ کی اسرائیل پر راکٹ حملے کرنے کی صلاحیت بھی ختم نہیں کر پایا ہے۔حزب اللہ اب اسرائیل کی سرحد کے مزید اندر تک اسرائیلی شہروں کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہو رہا ہے جس سے نہ صرف جانی نقصان ہوا ہے بلکہ کئی بڑے شہروں میں معمولاتِ زندگی بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی فوج کو جنوبی لبنان میں کی جانے والی زمینی کارروائیوں کے دوران بھی مسلسل جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔اس کے علاوہ اسرائیل شمال میں حزب اللہ کے راکٹ حملوں کی وجہ سے بے گھر ہونے والے اپنے شہریوں کی بروقت واپسی یقینی بنانے میں بھی ناکام رہا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے جس نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو کو حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی پر مجبور کیا ہو گا۔اسرائیلی فوج حزب اللہ کے خلاف جاری جنگ میں تھکاوٹ کا شکار دکھائی دے رہی ہے جبکہ اس جنگ کے نتیجے اسرائیل میں پیدا ہونے والا سیاسی اور معاشی دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔گلوبل اینڈ ریجنل سٹریٹجیز ان دی مڈل ایسٹ سے منسلک مصنفہ ڈاکٹر لیلا نکولس کہتی ہیں کہ اسرائیل کے پاس کوئی واضح پلان نہیں کہ وہ غزہ میں کیا کرنا چاہتا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ شاید اسرائیل اس بارے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے جنوری 2025 میں امریکی صدر بننے تک انتظار کرنا چاہتا ہے۔اس کے برعکس لبنان میں جنگ بندی کے لیے ایک فریم ورک موجود ہے جس کی بنیاد پر حالیہ معاہدہ ہوا ہے۔ اس جنگ بندی معاہدے کی بنیاد اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی وہ قرارداد ہے جس کے تحت سنہ 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesفی الحال اسرائیل، حزب اللہ جنگ بندی معاہدے کی کوئی واضح تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ اس کا یہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ دونوں فریقین کو اس معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے اپنے ابتدائی اہداف پر نظر ثانی کرنی پڑی ہے۔ اسرائیل نہ تو حزب اللہ کو ختم کر پایا ہے اور نہ ہی شمالی اسرائیل کے شہریوں کی واپسی یقینی بنا پایا ہے۔دوسری جانب اس جنگ میں حزب اللہ کو بھی کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ اس کے کئی بڑے رہنما اسرائیلی حملوں میں مارے گئے ہیں جبکہ اس کی فوجی صلاحیتوں کو بھی بھاری نقصان پہنچا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی اس شرط سے پیچھے ہٹتی دکھائی دے رہی ہے کہ غزہ میں جنگ بندی تک وہ اپنے حملے نہیں روکے گی۔ڈاکٹر نکولس کہتی ہیں کہ ایران نہیں چاہے گا کہ حزب اللہ ایک ایسی طویل مدتی جنگ میں شامل ہو جو اس کی صلاحیتوں کو مزید کم کر دے۔ غزہ میں بعض افراد اس فیصلے کو حزب اللہ کی جانب سے ’محاذوں کے اتحاد‘ کی حکمت عملی کو ترک کرنے کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔ اس حکمت عملی کی تائید حزب اللہ اور حماس نے اسرائیل کے ساتھ جنگ کے آغاز پر کی تھی۔ اس کے تحت ’مزاحمت کا محور‘ کہلائی جانے والی تنظیموں کے درمیان کارروائیوں کو مربوط کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ اس میں حزب اللہ اور حماس کے علاوہ غزہ کے دیگر جنگجو گروہ، یمن میں حوثی اور عراق کے دیگر چھوٹے عسکریت پسند گروپ شامل ہیں۔لبنان میں جنگ بندی کے معاہدے اور غزہ کی صورتحال میں ایک واضح فرق یہ ہے کہ حزب اللہ نے مذاکرات کے لیے لبنانی حکومت کو مکمل اختیار دے دیا تھا جب کہ غزہ میں حماس مذاکرات کی قیادت خود کر رہی ہے اور فلسطینی اتھارٹی کو نمائندگی دینے سے انکاری ہے۔فلسطینیوں میں پائی جانے والی تقسیم اور اسرائیل کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک متحد اور سرکاری سطح پر تسلیم شدہ ریاست کی کمی بھی ایک وجہ ہے کہ غزہ میں جنگ بندی معاہدہ نہیں ہو سکا۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اسرائیل کی جانب سے حماس رہنماؤں کے قتل کے بعد حماس میں قیادت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ حماس اب جنگ بندی کے لیے مؤثر مذاکرات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ غزہ کے اندر اور باہر موجود حماس کے رہنماؤں کے درمیان رابطے میں مشکلات اس کام کو اور بھی مشکل بنا رہے ہیں۔مصنف اور سیاسی تجزیہ کار پروفیسر فتحی صباح نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسرائیل سمجھتا ہے کہ اس کی اصل جنگ غزہ میں ہے کیونکہ اس کی نظر میں لڑائی کا آغاز حماس نے کیا تھا نہ کہ حزب اللہ نے۔ ’اسرائیل کو جب لگا کہ انھوں نے غزہ میں حماس کے لڑنے کی قابلیت ختم کر دی ہے تو حزب اللہ پر حملے کرنے کا اُن کو موقع ملا ہے۔‘پروفیسر صباح کا ماننا ہے کہ اسرائیل نے حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کا فیصلہ کرتے ہوئے اس کی جنگی صلاحیتوں، جو کہ حماس کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں، کو بھی مدِنظر رکھا ہے۔’حزب اللہ کے راکٹ تل ابیب اور حیفہ جیسے شہروں تک پہنچ رہے ہیں اور اس کا اثر اسرائیل اور ان ہزاروں افراد پر پڑ رہا ہے جو ان حملوں کی وجہ سے بے گھر ہو چکے ہیں۔‘اُن کا مزید کہنا تھا کہ اسرائیل کے جنگ بندی فیصلے کے پیچھے ایک اور چیز جو کارفرما تھی وہ اُس کے اتحادی امریکہ اور فرانس کا رویہ تھا۔ اسرائیل کے اتحادی ممالک لبنان کے خلاف اسرائیلی جارحیت سے پریشان تھے۔،تصویر کا ذریعہEPA-EFE/REX/Shutterstock لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جس میں لبنان اور غزہ کی سیاسی اور عسکری صورتحال بھی شامل ہے۔حزب اللہ لبنان میں ایک وسیع سیاسی منظر نامے کا حصہ ہے۔ یہ ملک میں موجود کئی فرقہ وارانہ اور سیاسی گروہوں میں سے صرف ایک کی نمائندگی کرتی ہے اور کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تمام لبنانی شہری حزب اللہ کے اسرائیل سے متعلق نقطہ نظر سے متفق نہیں ہیں۔تاہم غزہ کی صورتحال یکسر مختلف ہے۔ وہاں حماس نہ صرف حکومت میں ہے بلکہ وہ غزہ میں ایک مرکزی عسکری قوت کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔حماس کو اپنے ہی جیسے اسرائیل مخالف مؤقف رکھنے والے چند دوسرے دھڑوں کی بھی حمایت حاصل ہے۔اسرائیلیوں کے لیے بھی لبنان کی جنگ غزہ سے مختلف ہے۔لبنان میں اسرائیلی فوجی آپریشن کا مقصد شمالی اسرائیل کے باشندوں کو درپیش کسی بھی فوجی خطرے کو ختم کرنا اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانا تھا۔اسرائیل نے غزہ میں حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم اسرائیل اب تک اپنا مقصد مکمل طور پر حاصل نہیں کر سکا ہے۔ اس کے علاوہ اب بھی 101 اسرائیلی مغوی غزہ میں قید ہیں اور یہ بات بھی جنگ بندی کے مذاکرات پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق سربراہ یاکوف امدرور نے بی بی سی کو بتایا کہ لبنان میں بہت سے لوگوں میں خوف پایا جاتا ہے کہ یہ تنازع لبنان کے دیگر حصوں تک پھیل سکتا ہے۔اسرائیل کے غزہ تنازع کو لبنان سے الگ کرنے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے امدرور کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے لیے یہ بہت اہم ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں اسرائیل کو غزہ میں حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کی کوششوں پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملے گی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اصل مسئلہ جنگ بندی معاہدہ نہیں بلکہ اس کا نفاذ ہے۔ انھوں نے سوال کیا کہ اگر حزب اللہ اس جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس صورت میں اسرائیل کا ردعمل کیا ہو گا۔ جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی فوج کے لبنان سے انخلا کے بعد ہزاروں لبنانی فوجیوں کو ملک کے جنوبی حصوں میں تعینات کیا جائے گا۔ لیکن یہ ابھی واضح نہیں اُن کی تعیناتی کیسے کی جائے گی۔لبنانی فوج کہتی آئی ہے کہ اُن کے پاس اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے درکار وسائل نہیں ہیں۔ لیکن یہاں بات صرف وسائل کی نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا لبنانی فوج حزب اللہ کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے؟ ایسی صورت میں لبنانی فوج کو اپنے ہی ملک سے تعلق رکھنے والے حزب اللہ کے جنگجوؤں کے خلاف لڑنا پڑ سکتا ہے۔ اور لبنان جیسے ملک میں جہاں فرقہ وارانہ کشیدگی ہمہ وقت موجود رہتی ہے یہ صورتحال نئے مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔اسرائیل کے ساتھ جنگ میں حزب اللہ کو بھی کافی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ سمیت کئی رہنما اسرائیلی حملوں میں مارے جا چکے ہیں جبکہ اس کے انفراسٹرکچر کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے۔حزب اللہ کافی حد تک کمزور ہو چکی ہے لیکن تنظیم اب بھی ختم نہیں ہوئی ہے۔لبنان میں حزب اللہ ایک ملیشیا سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ایک سیاسی جماعت بھی ہے جس کی پالیمان میں نمائندگی ہے۔ حزب اللہ ایک سماجی تنظیم کے طور پر بھی کام کرتی ہے جسے ملک کے اہل تشیع حلقوں کی حمایت حاصل ہے۔حزب اللہ کے مخالفین اس صورتحال کو اس کا اثرورسوخ کم کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔اس جنگ سے قبل حزب اللہ کو ریاست کے اندر ریاست کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔کئی ماہ سے حزب اللہ کے نقاد کہتے آئے ہیں کہ حزب اللہ نے ملک کو ایک ایسے جنگ میں دھکیل دیا ہے جو اس کے مفاد میں نہیں تھی۔اس معاہدے کے نتیجے میں اسرائیل کے خلاف جنگ تو ختم ہو جائے لیکن لبنان میں بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں ملک کے اندر ایک نیا تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔ body a {display:none;}کیرین ٹوربی، نمائندہ بی بی سی نیوز عربی، بیروت
عدنان البرش، نمائندہ بی بی سی نیوز عربی، غزہ
مہند توتنجی، نمائندہ بی بی سی نیوز عربی، یروشلم
حزب اللہ کا مستقبل
BBCUrdu.com بشکریہ
جمعرات 24؍ربیع الثانی 1445ھ9؍نومبر 2023ء
Comments are closed.