جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

اقبال احمد: پاکستانی دانشور جن پر ہنری کسنجر کے اغوا کی سازش کا الزام لگا

ڈاکٹر اقبال احمد: امریکہ میں پہلے مبینہ ’پاکستانی دہشت گرد‘ جن پر ہنری کسنجر کے اغوا کی سازش تیار کرنے کا الزام لگا

Eqbal Ahmad, (L) is shown as a spokesman for Father Philip Berrigan, where he told newsmen that Berrigan dismissed Ramsey Clark as his attorney in the Harrisburg 7 Trial that opened here. Berrigan had asked to make an opening statement, but was denied by the judge. When asked to defend himself for being denied, he explained that he considered himself without counsel. Left to right is Ahmad, Reverend Neil McLaughlin, and former priest Anthony Scoblick.

یہ وہ دور تھا جب تیسری دنیا کے کئی ممالک میں آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ کئی ملکوں کو ان تحریکوں کے نتیجے میں آزادی مل چکی تھی جبکہ کئی ملکوں میں آزادی کی تحریکوں کو ’اشتراکیت پسند‘ یا ’دہشت گرد شورش‘ قرار دے کر مغربی طاقتیں انھیں کچلنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھیں۔

ان حالات میں ویت نام کی امریکہ کے خلاف مزاحمت کو بہادری اور جرات کی ایک عظیم داستان کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ خود امریکہ میں شہری آزادیوں کے کئی رہنماؤں نے ویت نام میں امریکی حکومت کی فوجی جارحیت کی مخالفت کرنا شروع کر دی تھی۔

Howard Brodie. [Harrisburg Seven Trial Overall Court Scene], 1972. Color crayon on white paper. Prints and Photographs Division, Library of Congress (044.00.00)

’دی ہیریسبرگ سیون‘ کیس کی عدالت میں ایک سماعت کا ایک منظر تصویری خاکے میں

سنہ 1965 سے لے کر سنہ 1971 تک بے شمار چھوٹے بڑے جنگ مخالف مظاہرے ہوئے تھے۔ اپریل 1967 میں سان فرانسسکو، کیلیفورنیا اور نیویارک میں بیک وقت ہونے والے مظاہروں میں ایک اندازے کے مطابق ڈھائی لاکھ افراد نے شرکت کی تھی۔

اِسی برس اکتوبر میں واشنگٹن میں امریکی محکمہ دفاع، پینٹاگان، کے سامنے پچاس ہزار امریکیوں نے ایک جنگ محالف مارچ میں شرکت کی تھی۔ ویت نام کی جنگ میں ناکامیوں کی وجہ سے امریکیوں نے اس جنگ کی افادیت پر سوالات اٹھانا شروع کر دیے تھے۔

مثال کے طور پر نسل پرستی کے خلاف اور شہری حقوق کے حصول کے لیے سرگرم رہنما مارٹن لوتھر کنگ، جو ابتدا میں امریکی صدر جانسن کی حمایت سے محروم ہونے کے خدشے کے پیش نظر ویت نام کی جنگ پر خاموشی اختیار کرتے آئے تھے، بھی سنہ 1967 میں اس جنگ پر تنقید کرنے والوں میں شامل ہو چکے تھے۔

سنہ 1968 میں ڈیموکریٹ پارٹی کے شکاگو میں منعقد ہونا والا کنوینشن جنگ مخالف مظاہرین اور پولیس کے ٹکراؤ کی وجہ سے تشدد پر منتج ہوا۔ شکاگو میں مظاہرہ کرنے والے طلبا پر مقدمہ چلایا گیا جو تاریخ میں ’ٹرائل آف شکاگو سیون‘ کے نام سے مشہور ہوا کیونکہ اس مقدمے میں جج کے تعصب پر بہت زیادہ تنقید کی گئی۔ اکتوبر سنہ 1969 میں ویت نام کی جنگ پر ملک گیر مظاہرے میں لاکھوں امریکیوں نے حصہ لیا تھا۔

اپریل سنہ 1970 میں جب رچرڈ نکسن، جو سنہ 1968 کے انتخابات میں صدر منتخب ہو گئے تھے، نے اس جنگ کو ویت نام سے کمبوڈیا تک پھیلا دیا تھا۔ اُن کے اِس فیصلے کے خلاف بھی لاکھوں امریکیوں نے مظاہرے کیے تھے۔

امریکی ریاست اوہائیو کے گورنر نے کینٹ سٹیٹ یونیورسٹی کے طلبا کے مظاہروں کی وجہ سے 4 مئی، سنہ 1970 کو نیشنل گارڈز طلب کی۔ کہا جاتا ہے کہ نیشنل گارڈز کے فوجی طلبا کے مظاہرے کو دیکھ کر اس قدر بوکھلائے کہ اُن کی ’ہوائی فائرنگ‘ سے چار طلبا ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔

اغوا کا مقدمہ

Five of the seven persons indicted on charges of allegedly plotting to kidnap Henry Kissinger and blowing up the underground heating system of federal buildings in Washington, leave the Federal building here May 25 after their indictment. (L-R): Mary Scoblick, a former nun and wife of Anthony Scoblick, a former priest: Mrs. Sarah Glick: Eqbal Ahmad, Chicago: Sister Elizabeth McAlister, Tarrytown, N.Y.; Reverend Joseph Wenderoth, Baltimore, MD.

اس مقدمے میں نامزد سات میں سے پانچ ملزمان۔ (بائیں سے دائیں) میری سکابلک، سارہ گلیک، اقبال احمد، سسٹر ایلزبتھ میک الیسٹر، جوزف وینڈیروتھ

ان بہت سارے واقعات میں امریکی حکومت کی بوکھلاہٹ ظاہر ہو رہی تھی۔ سوارتھمور کالج پیس کلیکشن کی آرکائیو کے مطابق 27 نومبر 1970 کو ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جے ایڈگر ہُوور نے امریکی سینیٹ کی بجٹ کمیٹی میں ایف بی آئی میں نئے ایک ہزار ایجنٹس اور 702 کلرک بھرتی کرنے کے لیے تقریباً ڈیڑھ کروڑ ڈالرز کی نئی رقم کی منظوری کے لیے ایک بیان دیا تھا۔ یہی بیان کئی اخبارات نے رپورٹ بھی کیا تھا۔

اُس بیان میں مسٹر ہُوور نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ ’انارکسٹوں کی ایک سازش ابتدائی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ۔۔۔ ایک عسکریت پسند گروہ جو کیتھولک پادریوں، ایک راہبہ، اساتذہ، طلبا اور کچھ سابق طلبا پر مشتمل ہے۔۔۔ اگر ان کی یہ سازش کامیاب ہو جاتی ہے تو یہ جنوب مشرقی ایشیا میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کریں گے اور سیاسی کارکنوں کی تاوان کے طور پر رہائی کا مطلبہ کریں گے۔‘

اس معاملے پر تفصیلی تحقیقات کرائی گئیں۔ ’12 جنوری سنہ 1971 کو ڈاکٹر اقبال احمد، فادر فلپ بیریگان، سسٹر ایلزیبتھ میکالِسٹر، فادر نیل میکلالِن، انتھونی سکوبلِک، اور فادر جوزف وینڈروتھ پر وفاقی قوانین کے تحت ہنری کسنجر کو اغوا کرنے اور واشنگٹن ڈی سی میں وفاقی حکومت کی عمارتوں کے ہیٹنگ سسٹم کو دھماکے سے اُڑا دینے کی سازش تیار کرنے کا فوجداری مقدمہ درج کر لیا گیا۔‘

حکومت نے اس فوجداری مقدمے میں اس سازش کے دیگر شرکا کو شریک ملزمان کے طور جن افراد کے نام دیے اُن میں فادر ڈینیئل بیریگان، سسٹر بیورلی بیل، مارجوری شومان، پال میئر، سسٹر جوگز ایگن، ٹامس ڈیوڈسن اور ولیم ڈیوڈسن کے نام بھی شامل کیے گئے تھے۔

ان تمام ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ فلپ اور ڈینیئل بریگان جنگ محالف مظاہروں کے دوران ’غیر قانونی سرگرمیوں‘ کے جرم میں سزا پانے کی وجہ سے پہلے ہی سے ڈنبری جیل میں قید تھے۔ ان ملزموں میں سے پانچ کو اگلے چند ہفتوں میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔

مقدمے کا آغاز

-Harrisburg, PA- Reverend Philip Berrigan was permitted two visitors late 3/8, when his brother Daniel and co-defendant Eqbal Ahmad were admitted into Dauphin County Prison. The unusual visit was limited to a half-hour.

فلپ بریگان جیل میں قید ہیں جبکہ ان کے عقب میں اقبال احمد اور ڈینیئل نظر آ رہے ہیں

باقی ملزمان میں سے چھ پر مقدمے کا آغاز کیا گیا اور ان پر آٹھ فروری سنہ 1971 کو عدالت میں فردِ جرم عائد کی گئی۔ ہر ملزم نے ان الزامات کو مسترد کیا۔ ان ملزمان پر 30 اپریل کو دوسری فردِ جرم بھی عائد کی گئی جس میں انھی جرائم کا الزام ایک اور شخص جان فرد تھیوڈور گلِک پر بھی عائد کیا گیا اور الزامات میں وفاقی حکومت کی فائلوں کو نذرِ آتش کرنے اور آتشیں اسلحہ حاصل کرنے کی سازش کے الزام کا اضافہ کر دیا گیا۔

(ان ملزمان کو بعد میں ’دی ہیریسبرگ سیون‘ کیس کے نام سے یاد کیا گیا، کیونکہ یہ مقدمہ ہیریسبرگ، پینسِلوینیا کی ایک عدالت میں چلا تھا اور ملزمان کی تعداد سات تھی، بعض تاریخی حوالوں میں اسے ’ہیریسبرگ ایٹ‘ بھی کہا گیا ہے۔)

اُس وقت کے امریکی اٹارنی جنرل جان این میچل کے دفتر سے مذکورہ جرائم کے تحت فوجداری مقدمہ قائم کرنے کا اعلان جاری کیا گیا تھا۔ ان سب ہر جو الزامات عائد کیے گئے تھے اُس کے مطابق انھیں پانچ ہزار ڈالرز جرمانہ اور پانچ برس کی قید بامشقت سے لے کر تاحیات قید کی سزا دی جا سکتی تھی۔

اس معاملے میں اقبال احمد کا کردار کیا تھا؟

اس وقت امریکہ کے معروف اخبار نیویارک ٹائمز نے اس خبر کی تفصیلات دیتے ہوئے ایک پیرا گراف اقبال احمد کے بارے میں لکھا تھا: ’اقبال احمد شکاگو یونیورسٹی کے کیمپس میں بین الاقوامی اُمور کے انسٹیٹیوٹ میں فیلو ہیں۔ اُن کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ اس انسٹیٹیوٹ سے ایک برس سے وابستہ ہیں جہاں وہ سماجی تبدیلیوں اور بین الاقوامی تبدیلیوں کے موضوع پر ریسرچ کر رہے ہیں۔ یہ انسٹیٹیوٹ خارجہ امور کے مطالعہ کا ایک مخصوص ادارہ ہے۔‘

نیو یارک کے ایک رپورٹر بِل کوواچ اس مقدمے کی بعد کی تفصیلات رپورٹ کرتے ہوئے 30 اپریل 1971 کو لکھتے ہیں کہ ملزمان کے خطوط کے تبادلوں میں جو ہنری کسنجر کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنا تھا وہ ایک سرکاری گواہ کے بقول، مسٹر (اقبال) احمد کی تجویز تھی۔

ان مبینہ خطوط کے مطابق ان ملزموں نے منصوبہ بنایا تھا کہ وہ ’کسی ہنری کسنجر جیسے شخص کو شہریوں کی جانب سے گرفتار کریں گے کیونکہ وہ اہم شخصیت تو ہے لیکن کابینہ کا حصہ نہیں ہے اس لیے اُس کے ارد گرد زیادہ حفاظتی انتظامات نہیں ہوں گے۔‘

ہنری کسنجر ہی کیوں؟

ہنری

ہنری کسنجر

ہاورڈ یونیورسٹی کے طلبہ کے جریدے ’ہارورڈ کرمسن‘ کے 13 جنوری 1971 کے شمارے کے مطابق، حکومت کے مقدمے میں الزام عائد کیا گیا کہ 22 فروری 1971 کو واشنگٹن ڈی سی کی پانچ عمارتوں میں ڈائنامائیٹ لگا کر انھیں دھماکے سے اڑایا جانا تھا۔

کسنجر کو اگلے روز اغوا کیا جانا تھا اور اسے اُس وقت تک یرغمال بنائے رکھا جانا تھا جب تک حکومت تمام مطالبات پورا نہ کر دے۔ حکومت کے اس فوجداری مقدمے میں مطالبات کی کوئی وضاحت نہیں دی گئی تھی۔

ہارورڈ کرمسن کے مطابق چھ افراد پر عائد کیے گئے الزامات میں حکومت کی املاک کو نقصان پہنچانے اور ایک شخص کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنا تھا۔

ہنری کسنجر کی اہمیت کے بارے میں ہاورڈ کرمسن نے لکھا ہے کہ وہ صدر رچرڈ نکسن کے قومی سلامتی کے امور کے لیے معاونِ خصوصی ہیں، جو یہاں (ہاورڈ یونیورسٹی) سے ’پروفیسر آف گورنمنٹ‘ کی پوسٹ سے 31 جنوری سنہ 1970 سے غیر حاضر ہیں۔

’اس مذکورہ تاریخ تک اپنی پروفیسر کی پوسٹ پر واپس نہ آنے کے سبب وہ فیکلٹی آف آرٹس اینڈ سائنسز اور فیکلٹی آف پبلک ایڈمنسٹریشن میں اپنی تعیناتی کی مدت سے محروم ہو گئے ہیں۔ امریکی حکومت کی ویت نام کی پالیسی میں ان کے کردار نے انھیں جنگ مخالف مظاہروں کا ایک واضح ہدف بنا دیا ہے۔‘

مقدمے کا آغاز

ایف بی آئی کی جانب سے استغاثہ نے ملزمان کے خلاف ہنری کسنجر کو اغواہ کرنے اور وفاقی حکومت کی عمارتوں میں دھماکے کرنے کا مقدمہ اگلے برس یعنی سنہ 1972 میں شروع ہوا۔ اس مقدمے میں استغاثہ کا وعدہ معاف گواہ ایف بی آئی کا ایک ایجنٹ یا مخبر بوئڈ ڈگلس تھا۔

ڈگلس اُسی جیل کا قیدی تھا جہاں مبینہ سازش کے ایک ملزم فلپ بیریگان پہلے کے ایک مظاہرے اور اس میں ہنگامہ آڑائی کرنے کے جرم کی سزا کاٹ رہے تھے۔

ڈگلس ایک ایسا قیدی تھا جسے دن میں باہر جانے کی اجازت تھی اور وہ ’فرلو‘ سکیم کے تحت جیل سے باہر جا کر کام کرتا تھا۔ وہ ایک مقامی لائبریری میں بھی جاتا تھا جہاں سے، بقول اُس کے، وہ سازش میں ملوث ملزمان کے درمیان خطوط کی ’سمگلنگ‘ کیا کرتا تھا۔

ڈگلس نے گواہی دی تھی کہ وہ ملزموں کے درمیان خط و کتابت کا ذریعہ تھا اور اُس کے اِسی بیان کو استغاثہ ملزمان کے درمیان سازش تیار کرنے کے ثبوت کے طور پر استعمال کر رہی تھی۔ ڈگلس کی کئی گرل فرینڈز نے جیوری کو بتایا کہ ڈگلس نے صرف ایک مخبر کا کردار ہی ادا نہیں کیا تھا بلکہ وہ اس گروپ کے مبینہ منصوبوں کی تیاری میں اپنا اضافی کردار بھی ادا کر رہا تھا۔

استغاثہ نے کئی ایک گواہان، دستاویزات اور شواہد پیش کیے۔ جیوری کو قائل کرنے کے لیے استغاثہ نے پانچ ہفتے لیے۔

ملزموں کا صرف پانچ منٹ کا دفاع

Ramsey Clark,

رمزے کلارک

امریکہ کہ سابق اٹارنی جنرل اور انسانی حقوق کے سرگرم وکیل رمزے کلارک نے اس مقدمے میں ملزمان کے دفاع کے وکیلوں کے پینل کے سربراہ تھے۔

یہ وہی رمزے کلارک ہیں جنھوں نے سنہ 1978 میں پاکستان کے معزول وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں دفاع کرنے کی کوشش کی تھی لیکن قواعد و ضوابط کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر پائے تھے۔

رمزے کلارک نے ہیریسبرگ مقدمہ کے ملزموں کا جب دفاع کرنا شروع کیا تو اُنھوں نے روایات توڑتے ہوئے اپنے موکلان کے دفاع کے لیے کسی بھی گواہ کو عدالت میں طلب نہیں کیا یہاں تک کے ملزمان کو بھی کٹہرے میں نہیں بلایا۔

رمزے کلارک نے کہا کہ اگر اُنھوں نے ان سب کو طلب کیا تو جیوری کی کیتھولک مؤکلان کے ساتھ ہمدردی تباہ ہو جائے گی۔

استغاثہ نے اپنے کیس کو مضبوط بنانے کے لیے پانچ ہفتوں میں اپنی کارروائی مکمل کی اور ایف بی آئی کا سارا مقدمہ ڈگلس کے بیان پر کھڑا کیا جبکہ اس کے برعکس ملزمان کے وکیلوں کے پینل کے سربراہ رمزے کلارک نے اپنے موکلان یعنی مقدمے کے ملزمان کا دفاع صرف پانچ منٹوں میں مکمل کر لیا۔

اُن کے اِن پانچ منٹوں میں چند سیکنڈز کے ایک مختصر سے بیان نے اس مقدمے کی کایا پلٹ دی۔

جب جج نے رمزے کلارک کو اپنا موکلان کے دفاع کے لیے گواہ پیش کرنے کے لیے کہا تو رمزے کلارک نے کہا ’یور آنر، ملزمان ہمیشہ امن چاہیں گے۔ وہ اپنے بے گناہ ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ دفاع میں صرف اتنا ہی کہنا ہے۔‘

اس کے بعد جیوری کو فیصلہ دینے کے لیے کمرہِ عدالت سے رخصت کر دیا گیا۔

فیصلہ دینے کے لیے اس جیوری نے پچاس گھنٹے غور و خوض کے بعد واپس عدالت میں آ کر اپنا فیصلہ سنایا کہ وہ صرف ایک ہی بات کو جرم سمجھتے ہیں اور وہ یہ کہ جیل میں خطوط کی سمگلنگ غیر قانونی فعل تھا۔

(تاہم بعد میں رمزے کلارک نے اعتراض کیا تھا کہ جیل میں غیر قانونی مواد کو لانے یا لے جانے کے قانون سے مراد اسلحہ یا منشیات کی سمگلنگ تھی، نہ کہ خطوط کا تبادلہ۔ تاہم جج نے رمزے کلارک کی بات ماننے سے انکار کر دیا۔ لیکن وہ بعد میں اپیل میں اس سزا کو بھی ختم کرانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔)

نیویارک ٹائمز کی رپورٹر بیٹی میڈسجر اپنی تین اپریل 1972 کو شائع ہونے والی رپورٹ میں لکھتی ہیں کہ جج نے جیوری کو اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کے لیے کہا لیکن جیوری ایک گھنٹے تک نظرِ ثانی کرنے کے بعد بھی اُسی فیصلے پر قائم رہی۔

جج چاہتا تھا کہ جیوری پھر غور کرے اس پر رمزے کلارک نے جج کو روکا۔ اور باقی ماندہ الزامات پر جیوری کے ارکان کے درمیان ناقابلِ مصالحت اختلاف کی وجہ سے باقی ملزمان کو بری کر دیا گیا۔

اقبال احمد اور میڈیا

Eqbal Ahmad, (L) is shown as a spokesman for Father Philip Berrigan, where he told newsmen that Berrigan dismissed Ramsey Clark as his attorney in the Harrisburg 7 Trial that opened here. Berrigan had asked to make an opening statement, but was denied by the judge. When asked to defend himself for being denied, he explained that he considered himself without counsel. Left to right is Ahmad, Reverend Neil McLaughlin, and former priest Anthony Scoblick.

اقبال احمد

مشیگن سٹیٹ یونیورسٹی کے ’جرنل فار دی سٹڈی آف ریڈیکل ازم‘ کے سنہ 2010 کے چوتھے شمارے میں طنزیہ طور پر ایک مصنف جسٹن جیکسن لکھتے ہیں کہ ’ہنری کسنجر کو اغوا کرنے کی سازش کینیکٹی کٹ کے ایک فارم ہاؤس میں 17 اگست کو مرغ کے سالن اور چاولوں کو کھاتے ہوئے اور روزے کی ٹھنڈی وائن پیتے ہوئے اُس وقت بنائی جب یونیورسٹی کے دو پروفیسر، ان کی بیگمات، دو کیتھولک راہبائیں، ایک نازی جرمنی کے حراستی کیمپ سے آزاد ہونے والا یہودی مہاجر، اور ایک سینٹ بینیڈکٹ کا راہب محوِ گفتگو تھے۔‘

’شاید یہ حیرانی کی بات نہ ہو کہ ان میں سے ایک پروفیسر، اقبال احمد، ایک پاکستانی تارکِ وطن اور انقلابی جنگوں کے طالبِعلم نے ایک اوریجنل تجویز دی: نکسن حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کو ’شہری گرفتار کریں‘ جس کا تاوان امریکہ کی شمالی ویت نام میں بمباری کے خاتمے سے کم نہ ہو۔ احمد نے کسنجر کا نام ہدف کے طور پر تجویز کیا جو اُس وقت صدر رچرڈ نکسن کے قومی سلامتی کے مشیر طور پر کام کر رہا تھا۔‘

’اس سازش کے مقدمے کے بننے کے بعد جو سنسنی پھیلی اور ملزموں کو جس طرح بدنام کیا گیا، اُس کے نتیجے میں ہیرِیسبرگ کیس کا مقدمہ چلنا جنگ مخالف ریڈیکلز کو کچلنے کا ایسا تاریخی واقعہ تھا جو شاید ڈیموکریٹک پارٹی کے شکاگو کے سنہ 1968 کے کنوینشن کے موقعے پر ہنگاموں میں ملوث نوجوانوں پر چلنے والے مقدمے سے ہی شاید کم اہم ہو۔‘

جسٹن جیسکن مزید لکھتے ہیں کہ ’(اقبال) احمد کے کردار نے اس سارے کھیل کو عوامی نظر میں ایک سازش کا رنگ دیا۔ اپنے کیتھولک کامریڈوں کے ہمراہ احمد اور اُس کی پاکستانی نژاد امریکی سکالر کی شناخت جسے تیسری دنیا کی ایک انقلابی جنگ اور شورشوں کے ماہر کے طور پر پیش کیا گیا ہو، اُس نے اُسے میڈیا میں ایک منفرد حیثیت عطا کر دی تھی۔‘

(امریکی مصنف جسٹن جیکسن کا اشارہ اس جانب تھا کہ اقبال احمد سنہ 1960 سے لے کر سنہ 1963 تک الجزائر کی فرانس کے خلاف آزادی کی جنگ میں عملی طور پر شامل رہے تھے اِس لیے ہیریسبرگ مقدمے میں انھیں ملزم نامزد کر کے ایف بی آئی یہ تاثر دینا چاہتی تھی کہ ایک پاکستانی جو ایک عرب ملک کی انقلابی تحریک میں شامل تھا، اس لیے یہ اس سازش میں ’ریڈیکل‘ عناصر بھی موجود تھے۔ اُن دنوں امریکی میڈیا انتہا پسند یا دہشت گرد کو ’ریڈیکل‘ بھی کہتا تھا۔)

اقبال احمد مزحمتی تحریک کے ہیرو

Vietnam Veterans Against the War

ویت نام میں جنگ کے خلاف مظاہرے کرنے والے جن پر مقدمہ چلایا گیا (تصویری خاکہ)

اقبال احمد محقق، استاد، مصنف، انٹرنیشنل پولیٹیکل ایکٹیوسٹ کے طور پر سنہ ساٹھ کی دہائی سے مغربی دنیا میں ایک معروف شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔

الجزائر کی حکومت نے آزادی کے بعد اقبال احمد کو اپنے ملک میں اعلیٰ عہدے کی پیشکش کی تھی لیکن انھوں یہ کہہ کر انکار کیا تھا کہ وہ ایک آزاد سکالر کی طرح دیگر محروم طبقوں کی خدمت کا کام جاری رکھنا چاہتے ہیں۔

برطانیہ میں مقیم پروفیسر امین مغل کہتے ہیں کہ اُس زمانے میں تیسری دنیا میں آزادی کی تحریکوں کے لیے سامراج (امپریل ازم) کے خلاف مزاحمت ایک بڑا کام تھا۔ دنیا کی اس مزاحمت میں ایکٹیویسٹ اور دانشور کے طور پر اقبال احمد ایک بڑا نام تھا جس طرح آج کے مقبولِ عام امریکی دانشور نوم چومسکی ہیں۔

خود نوم چومسکی نے اقبال احمد کے بارے میں کہا ہے کہ ’شاید وہ بہت زیادہ ذہین اور ایشیا اور افریقہ کا سب سے زیادہ اوریجنل سامراج مخالف (اینٹی امپیریلسٹ) تجزیہ کار تھے۔۔۔۔ اُن میں دنیا کے پسے ہوئے لوگوں کے لیے فہم و فراست اور کردار کی مضبوطی دونوں ہی بدرجہِ اُتم موجود تھیں۔‘

اُن کی سوانح عمری ’اقبال احمد: کریٹیکل آؤٹ سائیڈر اینڈ وِٹنیس اِن اے ٹربیولینٹ ایج‘ لکھنے والے ان کے دوست پروفیسر سٹورٹ سچار کی نظر میں اقبال احمد ’ایک زبردست پروفیسر تھے اور عالمی سطح پر بائیں بازو کے ایک کمال کے تجزیہ کار تھے جو اُن بین الاقوامی رجحانات کی نشاندہی کر دیتے تھے جن کے بارے میں دوسروں کو علم بھی نہیں ہوتا تھا۔‘

اقبال احمد کے حالاتِ زندگی

نوم

نوم چومسکی: ‘شاید وہ (اقبال احمد) بہت زیادہ ذہین اور ایشیا اور افریقہ کے سب سے زیادہ اوریجنل سامراج مخالف تجزیہ کار تھے‘

اقبال احمد انڈیا کی ریاست بہار میں سنہ 1932 میں پیدا ہوئے تھے۔ جب ان کی عمر چار برس کی تھی تو اُن کے والد کو زمینوں کے ایک تنازع کی وجہ سے سوتے ہوئے قتل کر دیا گیا تھا۔

اقبال اُس وقت اپنے باپ کے پہلو میں سو رہے تھے اور اس خونریز واقعے نے اُن کو ہمیشہ ایک صدمے کی کیفیت میں رکھا۔

سنہ 1948 میں اُن کا خاندان انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آ گیا۔ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ لاہور آ گئے۔ انھوں نے ایف سی کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور اُس کے بعد روٹری سکالرشپ ملنے کے بعد وہ کیلیفورنیا میں مزید تعلم حاصل کرنے کے لیے امریکہ آ گئے۔

سنہ 1958 میں انھوں نے پرنسٹن یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور سنہ 1965 میں انھوں نے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ سنہ ساٹھ کی دہائی میں انھوں نے امریکی درسگاہ کورنیل یونیورسٹی میں پڑھایا، پھر وہ یونیورسٹی آف شکاگو کی ایڈلائی سٹیونسن انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز میں فیلو بن گئے اور بعد میں وہ واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار پالیسی سٹڈیز سے وابستہ ہو گئے۔

ایمسٹرڈم میں ٹرنس نیشنل انسٹیٹیوٹ کے وہ پہلے سربراہ بنے۔ سنہ 1969 میں انھوں نے جیولی ڈائمنڈ سے شادی کر لی۔ ان دونوں کی ایک بیٹی زہرا پیدا ہوئی جو اس وقت امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی میں انگریزی ادب کی ایک پروفیسر ہیں۔

اقبال احمد کئی اداروں میں پڑھانے کے بعد امریکی ریاست میسوچیوسٹ میں ہیمپشائر کالج میں سیاسیات اور مشرق وسطیٰ کے امور کے پروفیسر بن گئے اور سنہ 1997 میں اپنی ریٹائرمنٹ تک وہیں رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ پاکستان آگئے اور اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے انھوں نے کوشش کی کہ وہ اسلام آباد میں ’خلدونیہ یونیورسٹی‘ بنائیں۔

(ہیمپشائر کالج نے اُن سے متعلقہ کئی اہم معلومات اور دستاویزات پر مشتمل ایک آرکائیو تیار کر رکھی ہے۔)

اقبال احمد سنہ 1999 میں کینسر کی وجہ سے اسلام آباد میں وفات پا گئے۔ اُن کی خلدونیہ یونیورسٹی کے لیے اُس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں ایک بڑا قطعہِ اراضی حکومت کی جانب سے پیش کیا تھا۔ تاہم اقبال احمد کا خواب اب بھی ایک خواب ہے۔

ایڈورڈ سعید کا خراجِ تحسین

ایک پُرجوش مصنف کی حیثیت سے اقبال احمد نے مغرب اور ان کی سابق نوآدیوں کے آزادی کے دور کے تعلقات کے بارے میں کافی کچھ لکھا۔ دنیا بھر کے عوام کی بہتری اور اُن کی بھلائی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اسی لیے وہ جنگوں کے اور تشدد کے بہت مخالف تھے چاہے یہ تشدد ریاستی ہو، نظریاتی ہو یا بنیاد پرستوں کی وجہ سے ہو۔

معروف فلسطینی مستشرق ایڈورڈ سعید نے اپنی ایک کتاب ’کلچر اینڈ امپریریل ازم‘ کو اقبال احمد کے نام کیا تھا۔

ان کے وفات کے بعد ان کے بارے میں لکھا کہ ’ان کی زندگی ایک رزمیہ نظم کی طرح کی تھی، جس میں کمالت موجود تھے، سرحدی مہمات، آزادی کی تحریکوں، پسے ہوئے طبقات کی تحریکوں، وہ طبقے جنھیں مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہو چاہے وہ امریکہ یا یوروپ کے شہروں میں رہتے ہوں یا ہجرت پر مجبور تارکین وطن ہوں، یا اُن محصور شہروں کے ہوں جن کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا ہو یا بوسینیا، چیچنیا، جنوبی لبنان، عراق، ایران اور برصغیر انڈیا سے تعلق رکھتے ہوں، ان سب کے لیے ان کے دل میں ایک گہری تڑپ موجزن تھی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.