اسرائیل کا محمد الضیف کی ہلاکت کا دعویٰ: ’نو زندگیوں والے جنگجو‘ کے نام سے مشہور حماس کے عسکری چیف کون ہیں؟
اکتوبر میں اسرائیل پر ہونے والے حملوں کے بعد اسرائیلی فوج نے غزہ میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کیا جس میں اب تک حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق، کم از کم 39,480 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔جمعرات کو ایک بیان میں، اسرائیلی فوج نے کہا کہ ’خفیہ معلومات کے جائزے کے بعد، اس بات کی تصدیق کی جا سکتی ہے کہ محمد الضیف 13 جولائی کے حملے میں مارے گئے۔‘غزہ میں وزارتِ صحت کے حکام نے اس وقت کہا تھا کہ فضائی حملے میں 90 سے زیادہ لوگ مارے گئے لیکن حماس نے اس بات کی تردید کی کہ مرنے والوں میں الضیف بھی شامل تھے۔اسرائیل کے وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کہا ہے کہ محمد الضیف کی موت حماس کے خاتمے کے سلسلے میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ کارروائی اس حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ حماس بکھر رہی ہے اور حماس کے دہشت گرد یا تو ہتھیار ڈال سکتے ہیں یا انہیں ختم کر دیا جائے گا۔‘
محمد الضیف کون ہیں؟
اسرائیل کو سب سے زیادہ مطلوب افراد میں سے شامل محمد الضیف کے بارے میں محمد الضیف غزہ کی پٹی کے علاقہ خان یونس کے ایک مہاجر کیمپ میں سنہ 1965 میں اس وقت پیدا ہوئے تھے جب یہ علاقہ مصر کے زیر تسلط تھا۔پیدائش کے وقت والدین نے ان کا نام محمد ضائب ابراہیم المصری رکھا لیکن جوانی میں اسرائیل کے مسلسل فضائی حملوں سے بچنے کے لیے خانہ بدوشی کی زندگی اپنانے کی وجہ سے ان کا نام الضیف پڑا جس کا مطلب عربی زبان میں مہمان ہے۔اپنے خاندان کی غربت کے باوجود، محمد الضیف کے والد نے اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی۔ الضیف نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے سائنس میں ڈگری حاصل کی، جہاں انھوں نے فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کی تعلیم حاصل کی۔یونیورسٹی کی تفریحی کمیٹی کی سربراہی فنونِ لطیفہ میں الضیف کی دلچسپی کی غماز تپی اور وہ سٹیج پر مزاحیہ تھیٹر پرفارمنس کا بھی حصہ رہے۔ یہیں الضیف کو ابو خالد کی عرفیت بھی ملی۔ انھیں یہ نام دورانِ تعلیم ایک ڈرامے میں اداکاری کے بعد ملا۔،تصویر کا ذریعہReuters
حماس میں شمولیت
یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران، الضیف ’اسلامی فکر‘ سے متاثر ہوئے اور اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کی۔ اس وقت وہ تنظیم کے نمایاں کارکنوں میں سے ایک تھے۔ 1987 میں حماس کی تحریک شروع ہوئی تو ’پہلے فلسطینی انتفاضہ‘ کے بعد الضیف نے حماس کی صفوں میں شامل ہونے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔1989 میں انھیں اسرائیلی حکام نے گرفتار کر لیا اور وہ حماس کے لیے کام کرنے کے الزام میں 16 ماہ جیل میں رہے۔ اسی قید کے دوران الضیف نے زکریا الشوربجی اور صلاح شہادہ کے ساتھ ’قابض فوجیوں کو پکڑنے‘ کے مقصد کے ساتھ ایک تحریک قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا، یہ تنظیم عزالدین القسام بریگیڈ تھی۔الضیف کی جیل سے رہائی کے بعد، عزالدین القسام بریگیڈ ایک فوجی تنظیم کے طور پر ابھرنے لگی۔ الضیف اس کے بانیوں میں سے ایک اور اس کے صفِ اول کے رہنما تھے۔بعد ازاں، الضیف غزہ کی پٹی میں القسام کے متعدد رہنماؤں کے ساتھ غربِ اردن کے علاقے میں چلے گئے اور کچھ عرصے تک وہیں رہے، جہاں انھوں نے القسام بریگیڈز کی ایک شاخ کے قیام کی نگرانی کی اور 1993 میں عماد عقل کے قتل کے بعد اس کے رہنما بن گئے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، سنہ 2000 میں، ’دوسرے انتفاضہ‘ کے آغاز کے ساتھ ہی، فلسطینی اتھارٹی نے محمد الضیف کو گرفتار کر لیا، لیکن وہ فرار ہونے میں کامیاب رہے یا انھیں رہا کر دیا گیا۔2002 میں ایک اسرائیلی چھاپے میں اپنے پیشرو صلاح شہادہ کے قتل کے بعد الضیف عزالدین القسام بریگیڈز کے کمانڈر انچیف بن گئے۔2015 میں الضیف کو ’عالمی دہشت گردوں‘ کی امریکی بلیک لسٹ میں شامل کیا گیا جبکہ دسمبر 2023 میں یورپی یونین کی دہشت گردوں کی فہرست میں بھی شامل کر لیا گیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
’سرنگ کی تعمیر کا انجینئر اور بم بنانے والا‘
الضیف کی ایک بہت طویل فوجی تاریخ ہے، جو 1980 کی دہائی میں شروع ہوئی تھی۔ تقریباً 30 سال تک، انھوں نے اسرائیل کے خلاف کئی فوجی کارروائیوں میں حصہ لیا، جس میں فوجیوں کے اغوا اور میزائل حملوں سے شروع ہو کر، فوجی کارروائیوں سے گزرتے ہوئے، سات اکتوبر 2023 کو ہونے والے حملے تک بات پہنچی جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی منصوبہ بندی الضیف نے غزہ کی پٹی میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ یحییٰ السنور کے ساتھ مل کر کی۔حماس کے سب سے نمایاں ہتھیار: قسام راکٹ اور غزہ کے نیچے کھودی گئی سرنگوں کے نیٹ ورک کو ڈیزائن کرنے کا سہرا بھی محمد الضیف کے سر ہی جاتا ہے۔ یہ سرنگیں وہ ہیں جہاں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ الضیف اپنا زیادہ تر وقت اسرائیلی فوج کی نظروں سے اوجھل رہنے اور حماس کی کارروائیوں کی نگرانی میں صرف کرتے ہیں۔زیادہ تعداد میں میزائل داغنے کی حکمت عملی کو فروغ دینے والے الضیف نے یحییٰ عیاش سے بم اور راکٹ سے چلنے والے دستی بم بنانے سیکھے۔ یحییٰ کو ’انجینیئر‘ کہا جاتا تھا اور وہ عزالدین القسام کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ انھیں 1996 میں اسرائیل نے قتل کر دیا تھا۔روئٹرز کے مطابق، عزم اور احتیاط الضیف کی بنیادی خصوصیات ہیں اور خبر رساں ادارے نے الضیف کے ماتحت کے طور پر کام کرنے والے حماس کے ایک کارکن کے حوالے سے بتایا تھا کہ ’ وہ فولادی اعصاب کا مالک ہے۔ جب وہ کسی جگہ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کرتا ہے جو حرکت سے مکمل طور پر پرہیز کرتا ہے۔ اسے اس امر میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ اردگرد کیا ہو رہا ہے۔اس مقصد کے لیے وہ ان لوگوں کو استعمال کرتا ہے جن پر وہ بھروسہ کرتا ہے۔‘
’قتل کی سات ناکام کوششیں‘
فلسطینی حلقوں میں، الضیف کو ’ماسٹر مائنڈ‘ کہا جاتا ہے، جب کہ اسرائیلیوں میں انھیں ’مردِ موت‘ یا ’نو زندگیوں والا لڑاکا‘ کہا جاتا ہے۔انھیں یہ خطاب اسرائیلیوں کی جانب سے انھیں 2001 سے 2021 کے درمیان قتل کرنے کی سات ناکام کوششوں کے بعد ملا ہے۔اسرائیل کئی دہائیوں سے محمد الضیف کا تعاقب کر رہا ہے اور اسے درجنوں اسرائیلیوں کے قتل کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ان کے خلاف سب سے سنگین الزامات میں سات اکتوبر کے حملوں کی منصوبہ بندی کے علاوہ یحییٰ عیاش کے قتل کے بعد انتقامی کارروائیوں کے ایک سلسلے کی نگرانی اور منصوبہ بندی ہے، جس کے نتیجے میں 1996 کے آغاز میں تقریباً 50 اسرائیلی مارے گئے تھے۔ اس کے علاوہ ان پر 1990 کی دہائی کے وسط میں تین اسرائیلی فوجیوں کی گرفتاری اور قتل کی منصوبہ بندی کے الزامات بھی ہیں۔اسرائیل نے الضیف کو سنہ 2001، 2002، 2003، 2006، 2014 اور پھر 2021 میں دو مرتبہ نشانہ بنانے کی ناکام کوششیں کیں۔2002 میں ہونے والے حملے میں الضیف معجزانہ طور پر بچے لیکن ان کی ایک آنکھ ضائع ہوئی۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ قاتلانہ حملوں میں الضیف اپنا ایک پاؤں اور ایک ہاتھ بھی کھو چکے ہیں اور انھیں بولنے میں بھی دشواری ہوتی ہے۔سنہ 2014 میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر شروع کی گئی جنگ کے دوران، جو 50 دن سے زائد جاری رہی، اسرائیلی فوج الضیف کو قتل کرنے میں ناکام رہی، تاہم اس نے ان کی اہلیہ، سات ماہ کے بیٹے اور تین سالہ بیٹی کو ہلاک کر دیا تھا۔الضیف کے لیے نظروں سے اوجھل رہنا زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ان کی تین تصویریں ہیں، ایک بہت پرانی، دوسری میں وہ نقاب پوش ہیں اور تیسری ان کے سائے کی تصویر، اور غزہ کی پٹی میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اگر انھیں دیکھیں تو پہچان پائیں گے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.