بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

اسرائیلی انتخابی نتائج میں حیران کن پیشرفت: اقتدار کی کنجی مسلمان رہنما کے ہاتھ میں؟

اسرائیلی انتخابی نتائج میں حیران کن پیشرفت: اقتدار کی کنجی مسلمان رہنما کے ہاتھ میں؟

منصور عباس

،تصویر کا ذریعہNot Specified

،تصویر کا کیپشن

منصور عباس 22 اپریل 1974 کو شمالی اسرائیل کے علاقے میگر میں پیدا ہوئے تھے

اسرائیل میں ہونے والے انتخابات میں 90 فیصد ووٹوں کی گنتی ہو چکی ہے اور فی الحال یہ امکان ہے کہ وزیراعظم بنیامین نتن یاہو اقتدار میں رہنے کے لیے درکار ووٹ حاصل نہیں کر سکیں گے۔

متوقع نتائج کے مطابق ان کے دائیں بازو کے اتحاد کو 59 نشستیں حاصل ہوں گی جو کہ کم از کم درکار سیٹوں سے بھی 2 نشستیں کم ہیں۔

اعداد و شمار نے ایک ایسی دلچسپ صورتحال پیدا کر دی ہے جس میں کہا جا رہا ہے کہ شاید مسلمان عربوں کی جماعت یونائیٹڈ عرب پارٹی کے رہنما منصور عباس حکومت بنانے میں ’کِنگ میکر‘ ثابت ہو سکتے ہیں۔

اسرائیل عربوں کے حقوق اور فلسطینی ریاست کے حق میں بات کرنے والے منصور عباس کی جماعت غیر حتمی نتائج کے مطابق پانچ سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو اس بات کا انحصار منصور عباس پر ہوگا کہ ایک ایسی صورتحال میں جہاں کسی کو بھی واضح اکثریت حاصل ہونے کا امکان نہیں ہیں، اپنی پانچ سیٹوں کا وزن کس کے پلڑے میں ڈالتے ہیں۔

متوقع نتائج کے مطابق نتن یاہو کے مخالفین 57 نشستوں پر کامیاب ہو سکتے ہیں اور اگر منصور عباس کی جماعت ان کے ساتھ شامل ہو جاتی ہے تو ان کو حکومت بنانے کے لیے اکثریت حاصل ہو جائے گی۔ لیکن اس بات کے امکانات کم ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کام کر سکیں گے۔

اگر کوئی بھی اتحاد بنانے میں کامیاب نہیں ہوتا تو ملک میں 2019 کے بعد سے اب تک کے عرصے میں پانچویں عام انتخابات ہو سکتے ہیں۔

اسرائیل میں ووٹنگ 23 مارچ کو ہوئی تھی اور اس لیکشن کے نتائج ہی اس بات کا تعین کریں گے کہ مستقبل میں اسرائیل کے فلسطین کے ساتھ تعلقات کیسے ہوں گے۔

غیر حتمی نتائج کے مطابق منصور عباس کی جماعت نے پارلیمانی انتخابات میں چار نشستیں جیتی ہیں اور یہ حکومتی اتحاد بنانے کے لیے اہم ثابت ہو سکتی ہیں۔ منصور عباس نے اب تک وزیراعظم نتن یاہو یا ان کے حریفوں کی حمایت کا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے۔ اگر منصور عباس نتن یاہو کے مخالفین کے ساتھ اتحاد کرتے ہیں تو انھیں 120 نشتوں والے اسرائیلی ایوان میں ایک چھوٹے فرق سے برتری حاصل ہو جائے گی اور نتن یاہو وزارت عظمیٰ کا ایک اور دور نہیں دیکھ سکیں گے۔

منصور عباس نے جنوری 2021 میں سیاسی اتحاد جوئنٹ عرب لِسٹ پارٹی سے علیحدہ ہو کر انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ منصور عباس اسرائیلی عربوں کے حقوق کے لیے نتن یاہو کی حکومت سے تعاون پر اتفاق کرتے ہیں اور اس پر جوئنٹ عرب لسٹ کے ساتھ عدم اتفاق کی وجہ سے وہ اتحاد سے علیحدہ ہوگئے تھے۔ جوئنٹ عرب لسٹ پہلے ہی موجودہ اپوزیشن کے حق میں ہے لیکن عباس کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی پر کسی امیدوار یا اتحاد کی جانب ’کوئی ذمہ داری نہیں ہے‘۔

اسرائیلی عرب ملک کی کل آبادی کا 20 فیصد ہیں۔

منصور عباس کون ہیں؟

منصور عباس 22 اپریل 1974 کو شمالی اسرائیل کے علاقے میگر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے یروشلم کی ہیبریو یونیورسٹی سے ڈینٹِسٹری کی ڈگری حاصل کی اور آج کل حائفہ یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز کر رہے ہیں۔

منصور عباس شادی شدہ ہیں اور ان کے دو بچے ہیں۔

وہ اسلامک موومنٹ اِن اسرائیل کی جنوبی شاخ کے نائب چئیرمین بھی ہیں۔ وہ انتخابات سے قبل پارلیمان کے نائب سپیکر تھے۔

یہ بھی پڑھیے

انھیں 2019 میں یونائیٹڈ عرب لسٹ کا لیڈر مقرر کیا گیا تھا پھر یہ جماعت دی جوئنٹ عرب لسٹ نامی اتحاد میں شامل ہوئی اور وہ گذشتہ انتخابات میں پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے تھے۔

عباس اس سے پہلے پارلیمان میں نتن یاہو کی حکومت کے ساتھ بعض معاملات میں تعاون کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اسرائیلی عرب شہریوں کے حق میں کام کرے گی تو وہ حکومت کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اسرائیلی عرب شہری ایک طویل عرصے سے سرکاری سطح پر امتیاز کی شکایت کرتے آئے ہیں۔

’جو ہمیں خارج کرے گا میں اسے خارج کر دوں گا‘

اسرائیلی عرب ملک کی کل آبادی کا 20 فیصد ہیں

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

اسرائیلی عرب ملک کی کل آبادی کا 20 فیصد ہیں

23 مارچ کو ہیراٹز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’ہماری کسی اتحاد یا امیداوار کی جانب کوئی ذمہ داری نہیں ہے، اور نہ ہی ہم کسی کی جیب میں ہیں، نہ دائیں اور نہ ہی بائیں بازو کی۔۔۔ میں کسی کے ساتھ اتحاد کو خارج نہیں کر رہا ہوں۔۔۔ لیکن جو ہمیں خارج کرے گا میں اسے خارج کر دوں گا۔‘

نتن یاہو کے حامی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم دائیں ہیں نہ ہی بائیں بازو، ہم عرب عوام کے نمائندے ہیں جو سنگین بحران سے گزر رہے ہیں، جرائم اور تشدد کا بحران جو عرب معاشرے میں بڑھ رہا ہے۔ کسی بھی عرب یا غیر عرب سرکاری ملازم کے لیے اپنے حلقے کے لوگوں کو فوقیت دینا بالکل صحیح ہے۔‘

اسرائیل کے بحرین اور متحدہ عرب امارت سے امن معاہدوں کے بعد اپنے ردعمل میں انھوں نے کہا تھا کہ ’حقیقی امن فلسطین پر قبضہ ختم کر کے اور فلسطینی ریاست کے قیام سے ہی آسکتا ہے۔‘

نتن یاہو کا موقف

نتن یاہو کے حامی

،تصویر کا ذریعہReuters

انتخابات سے پہلے ایک انٹرویو میں وزیراعظم نتن یاہو منصور عباس کی جماعت کی حمایت سے حکومت بنانے کے امکان کو خارج کر چکے ہیں۔

انھوں نے کہا تھا ’میں وعدہ کرتا ہوں ایسا نہیں ہوگا۔ میں ان پر انحصار کروں گا نہ ہی ان کو شامل کروں گا۔۔۔ وہ صيہونيت مخالف جماعت ہے۔‘

بحرین اور متحدہ عرب امارت کے ساتھ امن معاہدوں کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’میرے لیے یی غیر یقینی ہے کہ میں نے عرب ممالک کے ساتھ جو امن معاہدہ کیا عباس نے اس کے خلاف ووٹ دیا تھا۔‘

منصور عباس کو اس وقت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب اسرائیلی چینل 12 سے بات کرتے ہوئے انھوں نے فلسطینی قیدیوں سے ملاقات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ’شدت پسندوں‘ سے نہیں ملے تھے۔

2px presentational grey line

کیا نتن یاہو کو ایک نئے راستے پر چلنا ہوگا؟

یولینڈ نیل، مشرق وسطیٰ کی نامہ نگار

ملک کی پارلیمان میں کون بیٹھے گا اور خاص کر یہ کہ حکومت کون بنائے گا، اس حوالے سے صورتحال ڈرامائی ہوگئی ہے۔

سنہ 2019 اور اس کے بعد سے ہونے والے اب تک کے عام انتخابات میں کسی کو بھی واضح برتری نہ ملنا اس بات کا اشارہ ہے کہ اسرائیلی سیاست میں تقسیم بہت گہری ہے۔

پس پردہ چالیں چلی جا رہی ہیں اور ڈیلز ہو رہی ہیں۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نتن یاہو کو اگر ایک اور مدت کے لیے اقتدار میں آنا ہے تو انھیں اس بار وہ راستہ اپنانا ہوگا جس پر چل کر ان کا انتہائی دائیں بازو کی یہودی، قوم پرست اور عرب جماعتوں کے ساتھ اتحاد ہوگا۔ لیکن یہ کیسے ہوگا اس بارے میں فی الحال صرف قیاس آرائیاں کرنا بھی مشکل ہے۔

اسرائیلی عوام سوچ رہے ہیں کہ آیا یہ انتخابات بھی اتنے کم عرصے میں ہونے والے گذشتہ تین انتخابات کی طرح کوئی واضح نتیجہ نہیں دے سکیں گے۔ اور کیا یہ سیاسی بحران مزید طویل ہو جائے گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.