بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

تیس سال کی ’بربادی‘ جب یوکرین کی بندر بانٹ ہوئی

تیس سال کی ’بربادی‘ جب یوکرین کی بندر بانٹ ہوئی

  • وقار مصطفیٰ
  • صحافی و محقق، لاہور

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGENYA SAVILOV/Getty Images

،تصویر کا کیپشن

ایک مکمل خودمختارملک کے طورپر، یوکرین پولینڈ-لیتھوانیا، روس اور سوویت یونین کے ایک دوسرے کے بعد طویل تسلط سے صرف بیسیویں صدی کے اواخر ہی میں ابھرا۔

چودھویں صدی کے وسط تک، مشرقی یورپ میں واقع یوکرین کے علاقے تین بیرونی طاقتوں، منگولوں کی کپچک خانات، لیتھوانیا اور پولینڈ،کے تسلط میں تھے۔ پندرھویں صدی جب آدھی گزری تو منگول حکم رانی ٹوٹنے کے عمل میں تھی اوراس کی جانشین خانات کریمیا نے 1475 کے بعد عثمانیہ سلطانوں کی حاکمیت قبول کرلی تھی۔

یوکرین، روس اور بیلاروس سے گزرتے نیپر دریا کے دونوں کناروں پر آزاد منش اور مہم جو کوسیک (ترک لفظ قزاق سے) رہ رہے تھے۔

تاریخ نگاروں فلپ لانگ ورتھ اورسرہی پلوکی کی تحقیق ہے کہ موسمی شکار،مچھلیاں، نمک اور شہد اکٹھا کرنے کو میدانوں میں اترتے کوسیک، تاتار دراندازی سے یوکرین کی سرحدی آبادی کا دفاع کرتے، کریمیا کے علاقے میں اپنی مہم جوئی کرتے، اور یہاں تک کہ اپنے چھوٹے- بحری جہازوں میں اناطولیہ میں ترکی کے ساحلی شہروں میں چھاپے بھی مارتے۔ پولینڈ انھیں تاتاروں، ترکوں اور ماسکویوں کے ساتھ جنگوں میں ایک مفید لڑاکا قوت پاتا لیکن امن کے دنوں میں انھیں خطرہ سمجھتا۔

پولینڈ حکمرانی کے دور میں کسانوں کے حالات مسلسل خراب ہوتے جارہے تھے۔ آزاد کسان طبقہ، جو لتھوانیائی دور کے اواخرتک موجود تھا، غلام بنا لیا گیا ۔

اوریسٹ سٹنلی’ یوکرین، ایک تاریخ ‘ میں لکھتے ہیں کہ سولھویں صدی کے آخر میں خاص طور پر مشرقی یوکرین میں کسانوں کی بےامنی میں اضافہ ہوا۔ کسان یوکرینی اور آرتھوڈوکس تھے، زمیندار زیادہ تر پولش اور رومن کیتھولک تھے، اور غیر حاضر مالکان کے نمائندے یا ٹھیکے دار اکثر یہودی۔ یوں سماجی عدم اطمینان سے قومی اور مذہبی شکایات کو بڑھاوا ملا۔

پولینڈ، لتھوانیا اور ماسکووی میں غلامی سے بھاگتے کسانوں اور دیگر سماجی طبقوں سے شرفا سمیت مہم جووں کی شمولیت سے کوسیکوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ۔1591 سے انھوں نے شورشیں شروع کردیں جنہیں بڑی مشکل سے دبایا گیا۔

باہمی تحفظ کے لیے ملے یہ افراد، سولھویں صدی کے وسط تک مقتدراعلیٰ ایک جنرل اسمبلی (راڈا) اور کمانڈر ان چیف، یا ہیٹمن (اتمان) سمیت منتخب افسران (سٹارشینا) پرمشتمل جمہوری قسم کی ایک فوجی تنظیم تیار کرچکے تھے۔ سماجی عدم اطمینان، مذہبی جھگڑے، اور پولینڈ کے خلاف ان کی ناراضی سے پیدا ہونے والاتناؤ آخرکار یکجا ہوکر 1648 میں ابھر آیا۔ انھوں نے 1648 اور 1657 کے دوران میں پولش – لتھوانیائی دولت مشترکہ کے مشرقی علاقوں میں بغاوت کر دی۔

بوہدان نخمیلنتسکی

،تصویر کا ذریعہFine Art Images/Heritage Images/Getty Images

،تصویر کا کیپشن

بوہدان نخمیلنتسکی کی قیادت میں، بظاہر ایک عام بغاوت سے یوکرین تیزی سے انقلاب کی لپیٹ میں آگیا۔

بوہدان نخمیلنتسکی کی قیادت میں، بظاہر ایک عام بغاوت سے یوکرین تیزی سے انقلاب کی لپیٹ میں آگیا۔ یوکرین میں بغاوت کو روکنے کے لیے بھیجی گئی پولش فوج مئی میں دو لڑائیوں میں بکھر گئی۔ پورے یوکرین میں تشدد پھیل گیا۔ کوسیک اور کسانوں نے ان لوگوں جاگیردار، اہل کار، لاطینی اور یونییٹ پادری، اور یہودی پر اپنا غصہ نکالا جن کا تعلق ان کے خیال میں پولینڈ کے ظلم اور سماجی جبر سے تھا۔

جنوری 1649 میں بوہدان آزادی دینے والے کے طور پر فتح یاب کیئو میں داخل ہوئے۔

بوہدان نے، کیئو میں اپنی آمد کے بعد، یوکرین کو ایک آزاد ریاست تصور کرنا شروع کیا۔ فوجی کارروائیاں غیر نتیجہ خیز طور پر جاری رہیں اور تاتار(کریمیا) حمایت اہم لمحات میں ناقابل اعتبار ثابت ہوئی۔ ایسے میں بوہدان نے 1654 میں پیریاسلاو میں ماسکو کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ روسی مؤرخین نے اس کا مفہوم یوکرین کی جانب سے زار کی بالادستی قبول کرنا لیا ، جس نے بعد میں روسی حکمرانی کو قانونی حیثیت دی۔ لیکن یوکرین کی تاریخ میں اس معاہدہ کی خصوصیات موثر اتمانیت، خودمختار حکومت، اور غیر ملکی تعلقات کو چلانے کا حق تھیں۔ یہ آزادی کے مترادف تھا۔

ماسکو نے اب پولینڈ کے خلاف جنگ چھیڑ دی اور کریمیا نے رخ موڑ لیا اور یوکرین پر حملہ کرنا شروع کر دیا۔ بیلاروس میں مفتوحہ علاقے کے کنٹرول اور یوکرین کے اندرونی معاملات میں روسی مداخلت پر تنازع کے بعدبوہدان ماسکو اتحاد سے تیزی سے مایوس ہوتے گئے۔ اپنے آخری سالوں میں،وہ سویڈن اور ٹرانسلوانیا کے ساتھ بات چیت کر رہےتھے۔ 1655 میں پولینڈ پرماسکو مخالف سویڈن کے حملے، جسے سیلاب کا نام دیا گیا، کے بعد روس-پولینڈ میل جول نے فروغ پایا۔

یوں لگتا تھاکہ بوہدان ماسکو سے اتحاد ختم کرنا چاہتے ہیں مگر اس سے پہلے کہ وہ ایسا کرتے ان کی موت ہوگئی۔

مزید پڑھیے:

بوہدان کی موت کے وقت، کوسیک نیپر کے دائیں اور بائیں کنارے کے زیادہ تر رقبے(سابق صوبے کیئو، براتسلاو اور چرنیہیو) پر قابض تھے، جبکہ مغربی یوکرین کی گالیسیا اور وولہنیا کی سرزمین پولینڈ کے ہاتھ میں تھی۔ بارہ سے پندرہ لاکھ لوگ کوسیکوں کے زیر قبضہ تقریباً 250,000 مربع کلومیٹر رقبے پر رہتے تھے۔ ماسکوویوں نے اسے عام طور پر مالوروسیا (چھوٹا روس) کہا، پولینڈ والے اسے یوکرین پکارتے۔

یہ یوکرین میں 17ویں صدی کے دوسرے نصف کے دوران میں لگ بھگ تیس سال طویل انتشار کی ابتدا تھی جسے تاریخ نگارسامیلو ویلچکو نے یوکرینی زبان میں ‘روینا’ یعنی ’بربادی‘ کا نام دیا۔ اس عرصے میں یوکرین خانہ جنگی اور غیر ملکی مداخلت سے دوچار رہا۔ اس وقت کی ایک یوکرینی کہاوت، (بوہدان سے لے کر ایوان تک کوئی اتمان نہیں تھا)، اس دور کا خلاصہ کرتی ہے۔

بغاوت کے بعد، تقریباً آدھی زمین۔ جو پہلے پولش تاج کی ملکیت تھی ۔ زاپوریزیوں کی ملکیت بن گئی، جنھوں نے ٹیکسوں کے بدلے، اس زمین کا زیادہ تر حصہ خودمختار کسان دیہاتوں کو مختص کر دیا۔ ‘سپاہیوں کی زمینوں’ کے ایک حصے سے حاصل ہونے والی آمدن، اعلیٰ عہدے پر فائز افسروں کو معاوضہ دینے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ تقریباً 33 فی صدزمین ان کی اور یوکرینی رئیسوں کی ملکیت تھی اور 17فی صد آرتھوڈوکس چرچ کی جائیداد قرار پائی۔ ٹیکسوں اور محصولات سے تقریباً دس لاکھ سونے کے ٹکڑے سالانہ آمدن ہوتی تھی۔

بغاوت کے بعد دو دہائیوں میں یہودیوں کی ہلاکتوں کا کل تخمینہ کم از کم 100,000 لگایا گیا ہے۔ پال رابرٹ میگوکسی کا کہنا ہے کہ 17ویں صدی کے یہودی مورخ یوکرین کی یہودی آبادی کے جانی نقصان کے حوالے سے ہمیشہ مبالغہ آمیز اعداد و شمار فراہم کرتے ہیں۔ یوکرینی۔امریکی مورخ ہارولو پیلنسکی نے یہودیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 6,000 اور 14,000 کے درمیان لکھی ہے۔

کوسیکوں اور کسانوں کو بھی پولینڈ کی انتقامی کارروائیوں، تاتار چھاپوں، قحط، طاعون اور جنگ کی وجہ سے تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔

اوریسٹ سٹنلی ’یوکرین، ایک تاریخ ‘ میں لکھتے ہیں کہ بغاوت کے ابتدائی مراحل میں، جریما وسنیوویکی کی فوجوں نے، مغرب کی طرف پسپائی اختیار کرتے ہوئے، شہری آبادی پر خوفناک انتقامی کارروائیاں کیں، اور اپنے پیچھے جلے ہوئے قصبے اور دیہات چھوڑے۔اس کے علاوہ بوہدان کے اتحادی تاتاروں نے بھی آبادیوں پر حملے جاری رکھے۔

کوسیکوں اور روس کے زاروں کے مابین اتحاد کے بعد، تاتاروں کے چھاپے بے لگام ہو گئے۔ قحط کے ساتھ ساتھ، ان حملوں کے باعث ملک کے تمام علاقوں سے آبادی کو مہاجرت پرمجبور ہونا پڑا۔ سٹنلی کے مطابق اس سانحے کی شدت کا اندازہ اس وقت کے ایک پولش افسر کی ایک رپورٹ سے لگایا جا سکتا ہے:

’میرا اندازہ ہے کہ سڑکوں اور قلعوں میں مردہ پائے جانے والے صرف شیر خوار بچوں کی تعداد 10,000 تک پہنچ گئی۔ میں نے انھیں کھیتوں میں دفن کرنے کا حکم دیا اورصرف ایک قبر میں 270 سے زیادہ لاشیں تھیں… تمام شیر خوار بچوں کی عمر ایک سال سے بھی کم تھی کیونکہ بڑے بچوں کو قید کرلیا گیا تھا۔ زندہ بچ جانے والے کسان اپنی بدقسمتی کا رونا روتے ہوئے گروہوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔‘

بوہدان کی موت کے وقت ان کےبیٹے یوری صرف 16 سال کےتھے، اس لیے اقتدار ایوان ویہوسکی (ریجنٹ) کو دیا گیا۔

ترک اور کوسک کی لڑائی

،تصویر کا ذریعہBildagentur-online/Universal Images Group via Gett

،تصویر کا کیپشن

ترک اور کوسک کی لڑائی کی ایک تصوراتی پینٹنگ: موسمی شکار،مچھلیاں، نمک اور شہد اکٹھا کرنے کو میدانوں میں اترتے کوسیک، تاتار دراندازی سے یوکرین کی سرحدی آبادی کا دفاع کرتے، کریمیا کے علاقے میں اپنی مہم جوئی کرتے، اور یہاں تک کہ اپنے چھوٹے- بحری جہازوں میں اناطولیہ میں ترکی کے ساحلی شہروں میں چھاپے بھی مارتے۔

اپنی طاقت کے لیے امیر کوسیکوں (‘سٹارشینا’) پرانحصارکرتے ،ویہووسکی نے پولینڈ کے ساتھ میل جول کی کوشش کی۔ زیادہ جمہوری کوسیکوں مارٹن پشکر اور یاکیو باراباش کی بغاوت جون 1658 میں کچل دی گئی۔ پشکر 15,000 باغیوں کے ساتھ میدان جنگ میں مارے گئے، بعد میں باراباش کو پکڑ کر پھانسی دے دی گئی۔ اس خانہ جنگی میں تقریباً 50,000 جانیں ضائع ہوئیں۔ ستمبر 1658 میں انھوں نے پولینڈ کے ساتھ ہدیچ کے معاہدے پر دستخط کیے، جس سے یوکرین پولینڈ-لتھوانیائی دولت مشترکہ کا تیسرا رکن بن جاتا ۔ اسے پولینڈ کے امرا، کوسیک اورکسانوں نے ناپسند کیا اور روس نے اشتعال انگیز جانا۔ روس نے بڑا حملہ کیا جسے 29 جون 1659 کو کونوٹوپ کی جنگ میں شکست ہوئی۔

روسی مورخ سرگئی سولوویف نے اس کا اثریوں بیان کیا: ’مسکووی کیولری کا ابھار ایک ہی دن میں ختم ہو گیا۔ پھر کبھی کوئی مسکووی زار اتنی شاندار فوج کو میدان میں نہیں اتار سکے گا۔ زار الیکسی میخائیلووچ سوگ میں ملبوس لوگوں کے سامنے آئے اور ماسکو پر خوف و ہراس پھیل گیا۔ یہ افواہ تھی کہ زار وولگا سے آگے ایروسلاو کے لیے روانہ ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ویہووسکی سے توقع تھی کہ وہ براہ راست ماسکو کی طرف بڑھیں گے۔‘

مگر اس فتح سے فائدہ نہ اٹھایا گیا۔ معاہدہ پر عمل درآمد تو نہ ہوا مگر اس کی بڑھتی ہوئی مخالفت سے یوکرین میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوا ، کئی ماسکو نواز فوجی افسروں نےبغاوت کردی اور کئی مہینوں بعد ایوان کو اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔وہ اکتوبر 1659 میں پولینڈ چلے گئے۔

بوہدان کے 18 سالہ بیٹے یوری خمیلنیتسکی اتمان بن گئے۔ 1659 میں انھیں پیریاسلاو آرٹیکلز پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیاجن میں یہ شرط عائد کی گئی کہ روسی فوجی دستے نہ صرف کیئو بلکہ تمام بڑے شہروں میں تعینات کیے جائیں گے۔ کوسیکوں کو زار کی اجازت کے بغیر جنگیں کرنے یا غیر ملکی تعلقات سے منع کیا گیا۔ اتمان، سٹارشینا، یا کرنل کو ماسکو کی منظوری کے بغیر منتخب نہ کیا جانا تھا۔ ماسکو کے لیے یہ معاہدہ یوکرین پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی منظم کوششوں میں ایک بڑا قدم تھا۔ اس سے روسی طاقت میں نمایاں اضافہ ہوا۔

اگلے سال روس اور پولینڈ کے درمیان دوبارہ لڑائی شروع ہو گئی۔ یوری اس میں شریک نہیں ہوئے۔ پولینڈ کی متعدد فتوحات کے بعد، یوری نے یوکرین کو دولت مشترکہ کو واپس کرنے پر اتفاق کیا۔ اس موقع پر پہلے سے انتشار کی شکار سیاسی صورتحال اور بھی الجھ گئی۔ سٹنلی کے مطابق ضبط شدہ زمینیں کسی بھی تنازع میں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ جا سکتی تھیں۔

غریب اور امیر کوسیکوں کے درمیان تنازع تھا۔ ریاست کمزور تھی اور اسے ایک محافظ کی ضرورت تھی، لیکن علاقائی طاقتوں میں سے، پولینڈ والے یوکرین کی سرزمین واپس لینا چاہتے تھے، مسکووی-روسی خود مختاری کوسیکوں کے آزادی کے نظریات کے لیے موافق نہ تھی، کریمیائی خانات کی توجہ غلاموں پر حملہ کرنے پر مرکوز تھی۔ کوسیک افسروں ،جو موروثی زمیندار طبقے میں تبدیل ہو رہے تھے، اورعام اہل کاروں اور کسانوں کے درمیان تناؤ بڑھتا گیا۔

بربادی کا دور اب اپنے عروج پر تھا

دائیں کنارے پر، جہاں یوری کی فوج اور پولش قائم تھے، اتمان کا اختیار برقرار تھا۔ بائیں کنارے پر، تاہم، جہاں زار اب بھی کنٹرول میں تھے،کوسیکوں نے انھیں معزول کر دیا اور آئیاکیو سومکو کو قائم مقام اتمان منتخب کر لیا۔

یوکرین کی اس موثر تقسیم سے افسردہ ہو کر، جنوری 1663 میں یوری نے اپنی اتمانی گدی چھوڑدی اور ایک خانقاہ میں جا بسے۔

ان کے دائیں کنارے تک محدود جانشین پاولو ٹیٹیریا نے پولینڈ کے ساتھ بائیں کنارے پر حملہ کیا ۔ جب حملہ ناکام ہوا، تو دائیں کنارے پر واپس آئے تاکہ بغاوتوں کو کچل سکیں۔

پولینڈ کی فوج نے ہر موڑ پر جلاؤ، لوٹ مار اور قتل کیا۔ سٹنلی لکھتے ہیں پولینڈ کے کمانڈر سٹیفن زارنیکی نے بوہدان کی قبر کو کھولا اور اس کی باقیات کو ہواؤں میں بکھیر دیا۔ ممکنہ حریف سمجھتے ہوئے، ایوان ویہووسکی کو ٹیٹیریا کے کہنے پر گرفتار اور قتل کر دیا گیا۔ یوری خمیلنیتسکی کو راہب کی کوٹھڑی سے گھسیٹا گیا اور پولینڈ میں قید کر دیا گیا۔ عمومی قابل نفرت رویے اور پولینڈ اتحادکے نتیجے میں، دائیں کنارے کے اتمان نے کوسیکوں کی جو تھوڑی سی حمایت تھی، کھودی۔ انھوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، اور پولینڈ بھاگ گئے۔ یوکرینیوں (خاص طور پر نچلے طبقے کے) اور پولینڈ کے درمیان تعاون، عملی طور پر، ناممکن ہو گیا ۔

دریائے نیپیر

،تصویر کا ذریعہPierre Crom/Getty Images

،تصویر کا کیپشن

سن 1667میں، آندروسوو کی جنگ بندی کے تحت، یوکرین کو دریائےنیپر کے ساتھ تقسیم کر دیا گیا۔ مغربی حصہ، جسے دائیں کنارے کے نام سے جانا جاتا ہے، پہلے پولینڈ اوربعد میں جزوی طور پر عثمانی سلطنت کے زیراثر چلا گیا۔

یوکرین کی بندربانٹ اورنیپر کا دائیں کنارہ

سن 1667میں، آندروسوو کی جنگ بندی کے تحت، یوکرین کو دریائےنیپر کے ساتھ تقسیم کر دیا گیا۔ مغربی حصہ، جسے دائیں کنارے کے نام سے جانا جاتا ہے، پہلے پولینڈ اوربعد میں جزوی طور پر عثمانی سلطنت کے زیراثر چلا گیا، جب کہ روس کیئو (جو درحقیقت دریا کے مغرب میں واقع تھا)کے ساتھ مشرقی حصے پر قابض ہوگیا، جسے بایاں کنارہ کہا جاتا ہے۔ دونوں حصے ایک دوسرے کے مخالف ہو گئے۔ پڑوسی ریاستوں (پولینڈ، ماسکووی، سلطنت عثمانیہ) نے یوکرین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی ۔

تقسیم کے اس انتظام کی توثیق 1686 میں پولینڈ۔ روس ابدی امن معاہدے سے ہوئی۔

سٹنلی کے مطابق اس عرصے کے دوران یوکرین کے رہنما (ایوان بریوخویتسکی، میخائیلو خانینکو، یوری خمیلنیتسکی، ڈیمین میخائیلو، فینیشیا)بڑی حد تک موقع پرست اور کم نظر تھے جو اپنی پالیسیوں کے لیے وسیع عوامی حمایت حاصل نہیں کر سکے ۔جن اتمانوں نے یوکرین کو زوال سے نکالنے کے لیے اپنی پوری کوشش کی وہ پیٹرو ڈوروشینکو، ایوان سموئلووچ اور ایوان ویہووسکی تھے۔

یوکرین کی تقسیم پر ذمہ دار رہنماؤں نے ’ہماری غریب ماں، یوکرین‘ کی حالت پر افسوس کا اظہار کیا ۔ تخلیق نو کے سب سے بڑے وکیل دائیں کنارے کے اگلےاتمان، پیٹرو ڈوروشینکو تھے۔

دو خطرناک حریفوں، ویسل ڈروزڈینکو اور اسٹیفن اوپارا کو ہٹانے کے بعد، ڈوروشینکو 1666 میں اتمان بن گئے۔ انھوں نے زور دیا کہ ان کا مقصد دائیں اور بائیں کنارے کے یوکرین کو متحد کرنا ہے۔ آندروسوو معاہدہ زیادہ تر معاہدہ یوکرین سےمتعلق تھا لیکن کسی بھی طاقت نے یوکرینیوں سے مشورہ کرنے کی زحمت نہیں کی۔

کوسیک

،تصویر کا ذریعہ Fine Art Images/Heritage Images/Getty Images

،تصویر کا کیپشن

کوسیک کی زندگی کے بارے میں ایک پینٹنگ: یوکرین، روس اور بیلاروس سے گزرتے نیپر دریا کے دونوں کناروں پر آزاد منش اور مہم جو کوسیک (ترک لفظ قزاق سے) رہ رہے تھے۔

ڈوروشینکو کو مبینہ طور پر معاہدے کی خبر ملنے پردل کا دورہ پڑا۔ انھوں نے اپنا پولش نواز موقف ترک کر دیا۔ ڈوروشینکو نے بائیں کنارے پر کچھ عرصہ کے لیے قبضہ کر لیا اور سلطنت عثمانیہ کی مدد سے یوکرین کو متحد کرنے کی کوشش کی۔ 1672 میں بڑے پیمانے پر عثمانی مہم سے پوڈولیا ایک چوتھائی صدی کے لیے عثمانی صوبہ بن گیا۔ ڈوروشینکو کی امیدیں اور مقبولیت اس وقت ہوا ہو گئیں جب مزید عثمانی کارروائیاں ان کی حکمرانی قائم کرنے میں ناکام رہیں اور ، خاص طور پر روس کے جنگ میں شامل ہونے کے بعد ،تباہی کا باعث بنیں۔ عوام کی بڑے پیمانے پر مہاجرت سے دائیں اور بائیں کنارے یوکرین کے بڑے علاقے بے آباد ہوگئے۔

عثمانیوں کے ساتھ رابطوں کی وجہ سے ان کی حمایت تیزی سے کم ہوتی جا رہی تھی۔ یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اب ان کا برقرار رہنا مشکل ہے انھوں نے اتمانیت بائیں کنارے کے اتمان ایوان سموئلووچ کے حوالے کر دی۔ ان کے ساتھ نسبتاً نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے، زار نے اس ’آخری سچے کوسیک‘ کو ماسکوکے قریبی علاقے میں جلاوطن کر دیا۔

1677 میں، ترکوں نے اپنے قیدی یوری خمیلنیتسکی کو اتمان مقرر کیا۔ یہ تین سال پولینڈکی قید میں بھی رہ چکے تھے۔ یوری اپنے دوسرے دور میں بھی اتنے ہی نااہل ثابت ہوئے جتنے کہ وہ اپنے پہلے دور میں ہوئے تھے۔ ڈوروشینکو کی دستبرداری کے بعدیوری کے ساتھ دو بڑی عثمانی مہمات ہوئیں۔ان غیر نتیجہ خیز مہمات کے بعد، یوری نے بائیں کنارے پر حملہ کیا جو بری طرح ناکام رہا۔ آخر کار انھیں 1681 میں ترکوں نے معزول کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسی سال، ماسکو نے عثمانیوں اور کریمیائی تاتاروں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت انھوں نے یوکرین میں ایک دوسرے کی املاک کو تسلیم کیا۔ پانچ سال بعد روس نے پولینڈ کے ساتھ بھی ایسا ہی معاہدہ کیا۔ 1686 تک، پورا یوکرین ان طاقتوں میں تقسیم ہو گیا جو اسے گھیرے ہوئے تھیں۔

1681 کی جنگ بندی سے ترک فوج کی مزید براہ راست شمولیت ختم ہوگئی۔ جلد ہی یورپ میں عثمانی طاقت ختم ہو رہی تھی، اور 1699 میں پوڈولیا کا صوبہ پولینڈ کی حکمرانی میں واپس آ گیا۔

بائیں کنارہ اورکم ہوتی خودمختاری

روس سے قربت کی وجہ سے بایاں کنارہ ماسکو کے مدار میں رہا۔ افراتفری کی 1660 اور 1670 کی دہائیوں کے دوران، اس علاقے کو بار بار ہونے والے عثمانی، تاتار، پولش اور روسی حملوں کا نسبتاً کم سامنا کرنا پڑا جنھوں نے ایک بار پھلنے پھولنے والے دائیں کنارے کو متاثر کیا تھا۔ بہر حال، تباہی میں بائیں کنارے کو بھی حصہ ملا، لیکن یہ زیادہ تر غیر ملکی حملہ آوروں کے ذریعے نہیں، بلکہ اشرافیہ اور عوام کے درمیان تنازعات کے باعث تھا۔

مکمل طور پر ماسکو کی حمایت پر انحصار کرتے ہوئے، ایوان بریوخویتسکی (1663-1668) نے زار کی حکومت کو ایک کے بعددوسری رعایت دی۔انھوں نے خوشی سے نقصان دہ 1659 پیریاسلاو معاہدے کی توثیق کی اور اس کے علاوہ، یوکرین میں روسی چوکیوں کی دیکھ بھال کا خرچ اٹھانے کی پیش کش کی۔

1665 میں، ’بادشاہ کی چمکتی آنکھوں کو دیکھنے‘ کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے، وہ ماسکو کا سفر کرنے والے پہلےاتمان بن گئے۔ ان کے ساتھ 500 افرادکا وفد بھی تھا۔

کرائمیا میں زندگی کی جھلک

،تصویر کا ذریعہBildagentur-online/Universal Images Group via Gett

،تصویر کا کیپشن

کرائمیا میں زندگی کی جھلک: 19 ویں صدی کا ایک فن پارہ

انھیں مسکووی بوئیر کا درجہ دیا گیا اور ان کے لیے ایک اعلیٰ نسل کی روسی بیوی تلاش کی گئی۔ مسکوویوں کی طرف سے ان اعزازات سے خوش ہو کر، انھوں نے ایک معاہدے پر دستخط کیے جس سے یوکرین کے حقوق اور بھی محدود ہوگئے۔ انھوں نے یوکرین کے تقریباً تمام بڑے قصبوں کو روسی کنٹرول میں کر دیا۔ زار کے حکام کو یوکرین کے کسانوں اور امرا سے ٹیکس وصول کرنے کی اجازت دی۔

یوکرین کے آرتھوڈوکس چرچ کے ایک روسی کو سربراہ مقرر کرنے پر اتفاق کیا؛ اور یہ شرط عائد کی کہ زار کے نمائندے اب سے اتمان کے انتخابات میں موجود ہوں گے، جنہیں اب عہدہ کی توثیق کے لیے ماسکو میں حاضر ہونا ضروری تھا۔

انھوں نے جلد ہی یوکرینی مفادات کو نظر انداز کرنے کی بہت بھاری قیمت ادا کی۔ جیسے ہی مسکووی چھاؤنیاں یوکرین کے قصبوں میں منتقل ہوئیں، زار کے مردم شماری کرنے والوں نے لوگوں کے ذاتی معاملات میں دخل دیا، اور اکھڑ ٹیکس حکام نے حد سے زیادہ ٹیکس عائد کیا، مسکوویوں اور خاص طور انھیں یوکرین میں مدعو کرنے والے اتمان کے خلاف عدم اطمینان بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ کلیسائی اشرافیہ کے ارکان نے، جن میں سے کچھ نے پہلے ماسکو کی حمایت کی تھی، مزید مسکووی اثر و رسوخ کے خلاف کھل کر احتجاج کیا۔

وہ واقعہ جس نے نیپر کے دونوں کناروں پر یوکرینیوں کو سب سے زیادہ مشتعل کیا وہ 1667 کا معاہدہ اندروسوو تھا۔

سنہ 1667-68میں، زار اور ان کے یوکرینی حامیوں کے خلاف بغاوتوں کا ایک سلسلہ پورے بائیں کنارے میں پھیل گیا۔ اتمان نے ایک منشور جاری کیا جس میں انھوں نے ’ہمارے پیارے مادر وطن یوکرین کی بربادی‘ کی مذمت کی اور روس مخالف اتحاد بنانے کے لیےخفیہ طور پر ڈوروشینکو کے ساتھ روابط قائم کر لیے۔ لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ جب 1668 کے موسم بہار میں ڈوروشینکو کی فوجیں بائیں کنارہ کی طرف بڑھیں، بریخوویتسکی کے سابق حامیوں کے ایک ناراض ہجوم نے انھیں پکڑ لیا اور مار مار کر ہلاک کر دیا۔

پولینڈ کے دباؤ نے ڈوروشینکو کو دائیں کنارے پر واپس آنے اور چرنیہیو کے کرنل ڈیمیان منوہرشنی (1668-1672) کو بائیں کنارے پر قائم مقام اتمان مقرر کرنے پر مجبور کر دیا۔ منوہرشنی نے ماسکو سے الگ ہونے کے تمام خیالات کو ترک کر دیا اور اس کے بجائے زار کے ساتھ وفاداری کے عہد کی تجدید کی، جس پر انھیں انعام میں بائیں کنارے کے اتمان کے طور پر توثیق مل گئی۔

تاہم، دو ٹوک انداز میں، منوہہرشینی نے روسیوں کو یوکرین کی شکایات سے آگاہ کیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ ماسکو کے فوجی دستوں کو بائیں کنارے سے واپس لے لیا جائے۔ زار نے چھاؤنیوں کو پانچ بڑے شہروں تک محدود کرنے پر اتفاق کیا۔ ادھر پولینڈ والوں کے دائیں کنارے پر مسلسل جابرانہ اور انتقامی اقدامات نے صرف ان سے عوام کی نفرت میں اضافہ کیا۔

اپنے پیش رو کی طرف سے کھوئی ہوئی کچھ خود مختاری کو بحال کرنے کے علاوہ، منوہرشنی نے اپنے کرائے کے فوجیوں (کومپانیسی) کی مدد سے بائیں کنارے میں امن و امان کی بحالی میں بھی پیش رفت کی۔ ان سے ناراض سٹار شینا(کوسیک اشرافیہ) نے زار کوپیغامات کے ایک سلسلہ میں بتایا کہ منوہرشنی خفیہ طور پر ڈوروسینکو کے ساتھ رابطے میں ہیں اور عثمانی حاکمیت قبول کرنے کا منصوبہ بنا رہےہیں۔ آخر کار، 1673 میں، سٹارشینا نے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ زار نے منوہہرشینی کو گرفتار کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے اور سائبیریا جلاوطن کرنے کا حکم دے دیا۔

طاقتور اتمانوں سے خوفزدہ، سٹارشینا نے منوہہرشینی کے جانشین کے انتخاب میں تقریباً تین ماہ تک تاخیر کی اور اتمان کے استحقاق کو محدود کرنے کی تجاویز کے ساتھ زار سے رجوع کیا۔ماسکوکو اورکیا چاہیے تھا۔ یوں، جب 1672 میں ایوان سموئلووچ اتمان منتخب ہوئے، تو شرائط مسلط تھیں۔

ساموئلووچ نے، تمام یوکرین پر اپنے اختیار کو بڑھانے کی کوشش کی۔ انھوں نے بے قابو زاپوریزیوں پر اپنا کنٹرول سخت کر لیا اور 1676 میں دائیں کنارے سے عثمانیوں اور ڈوروشینکو کو نکالنے کی شدید جدوجہد میں روسی فوجوں کے ساتھ مل کر اپنی فوجوں کی قیادت کی۔ 1676 میں ڈوروشینکو نے رسمی طور پر اپنی گدی ان کے حوالے کر دی، جس کے بعد ساموئلووچ نے خود کو ’نیپر کے دونوں اطراف کا اتمان‘قرار دیا۔

تاہم، دو سال کے اندر، عثمانیوں نے سموئلووچ اور ان کے روسی اتحادیوں کو دائیں کنارے کو چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ یہ خطہ خالی کرتے ہوئے، اتمان نے دائیں کنارے کی آبادی کے بائیں کنارے کی طرف جانے کا انتظام کیا۔ یوں، کوسیکوں کا اصل وطن عملی طور پر غیر آباد ہوگیا۔

سموئلووچ کی یوکرین کے دوبارہ اتحاد کی امیدوں کو ایک اور دھچکا 1686 میں اس وقت لگا جب پولینڈ اور روس نے نام نہاد ابدی امن کے معاہدہ پر دستخط کیے۔ اس سے کیئو اور زاپوروزیا کی زمینیں مستقل طور پر زار کے تحت آگئیں۔اتمان کے ماسکو سے بارباریہ کہنے کے باوجودکہ دائیں کنارے اورمشرقی گالیسیا کی زمینیں چونکہ یوکرینیوں کی ہیں انھیں ترک نہ کیا جائے، انھیں پولینڈکے قبضے میں رہنے دیا گیا۔

سٹارشینا کے منحرف ارکان کی طرف سے خود کو اور اپنے خاندان کو غیر قانونی طور پر مالا مال کرنے اور روسی کمانڈروں کی طرف سے تاتاروں کے خلاف مہم کی ناکامی کے الزامات پر، ساموئیلووچ کو 1687 میں عہدے سے ہٹا کر سائبیریا جلاوطن کر دیا گیا۔

اتمان کے طور پر ایوان مازیپا کے انتخاب کے ساتھ، ‘بربادی’ کا مؤثر طریقے سے خاتمہ ہو گیا۔

بغاوت اور بربادی کی وجہ سے ہونے والی ہلچل اور تباہی کے باوجود، یوکرین میں ثقافتی سرگرمیاں جاری رہیں۔ جیسا کہ حلب کے مسیحی عرب پال نے، جنھوں نے یوکرین سے ماسکو جاتے ہوئے سفر کیا، 1655 میں لکھا۔دانشوروں نے ‘عام لوگوں’ کی زبان میں لکھنا برا سمجھا۔ اس کے برعکس، سیکولر مصنفین مقامی زبان استعمال کرتے ہوئے زیادہ ٹھوس موضوعات پر لکھتے۔ 17ویں صدی کے آخر میں یوکرین میں کتابوں کی کمی نہیں تھی۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے باوجود،یہاں 13 پرنٹنگ پریس تھے، جن میں سے 9 یوکرینی، 3 پولش اور 1 یہودی تھے۔ صرف 1679 میں، پریس نے ابتدائی سکولوں کے لیے مختلف نصابی کتب کی 3000 سے زیادہ نقول شائع کیں۔

زار پیٹر

،تصویر کا ذریعہUniversal History Archive/Getty Images

،تصویر کا کیپشن

زار پیٹر اول

ایوان مازیپا کےتحت اتمان ریاست اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ زار پیٹر اول کی حمایت پر انحصار کرتے ہوئے، مازیپا نے اتمانیت میں شاہی اختیارات کا استعمال کیا۔ مازیپا نے دائیں کنارے کے الحاق اور ایک متحدہ یوکرینی ریاست کی خواہش ظاہر کی، جو کہ ابتدائی طور پر زار کے تحت تھی۔ لیکن پیٹر کی مرکزیت میں کی گئی اصلاحات اور دوسری شمالی جنگ کے سلسلے میں اتمانیت پر عائد پابندیاں یوکرین کی خودمختاری کو خطرے میں ڈالتی نظر آئیں۔ 1708 میں، آزادی کے اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانے میں، مازپا نے سویڈن کےشاہ کے ساتھ ایک خفیہ اتحاد کیا، لیکن پولٹاوا کی فیصلہ کن جنگ (1709) میں ان کی اتحادی افواج کو شکست ہوئی۔ مازیپا مالداویا فرار ہو گئے جہاں فوراً بعد ان کی موت ہو گئی۔

یوکرینی خود مختاری کا خاتمہ (1763-1786): روسی سلطنت میں غیر روسی علاقے کے انضمام کی ایک کیس سٹڈی، میں لکھا ہے کہ اتمان کے دفتر کو بالآخر روسی حکومت نے 1764 میں ختم کر دیا۔

سٹنلی نے لکھا عظیم یوکرینی بغاوت نے ایک مقتدر اشرافیہ کی جگہ مقامی ماڈل پر مبنی حکومت قائم کی تھی۔مگر بوہدان کے دنوں میں ایک طاقتور، جارحانہ قوت، ان کی موت کے بعد بیس سالوں میں خانہ جنگی، غیر ملکی مداخلتوں اور تقسیم کا شکار ہو گئی۔ سیاسی خود ارادیت کایہ امید افزا موقع ضائع کر دیا گیا۔ ‘بربادی’ کے باعث ایسا تقریباً 300 سال تک دوبارہ نہیں ہونا تھا۔

ایک مکمل خودمختارملک کے طورپر، یوکرین پولینڈ-لیتھوانیا، روس اور سوویت یونین کے ایک دوسرے کے بعد طویل تسلط سے صرف بیسیویں صدی کے اواخر ہی میں ابھرا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.