یوکرین روس تنازع: امریکہ اور یورپ کو صدر پوتن کے امیر دوستوں کی لگژری کشتیوں کی تلاش
- ریلیٹی چیک ٹیم
- بی بی سی نیوز
روس کے صدر صدر ولادیمیر پوتن کے امیر دوستوں کی جائیدادوں پر پابندیاں عائد کیے جانے سے پہلے روس کے ارب پتی رومن ابراہمووچ کی دو پرتعیش کشتیاں ترکی کی بندرگاہ پر پہنچ چکی تھیں۔
ان دونوں کشتیوں کی کل مالیت 1000 ملین ڈالرز سے زیادہ ہے۔ رومن ابراہمووچ کی کشتیوں کی نگرانی لائیڈز لسٹ انٹیلجنس نے کی ہے۔
جہاز رانی کے ماہرین نے روسی امرا کی کشتیوں کے یورپی یونین کے پانیوں سے نکل کر محفوظ علاقوں کی طرف جانے کی معلومات بی بی سی سے شیئر کی ہیں۔
یوکرینی نوجوانوں سے بھری ہوئی ایک کشتی نے ’مائی سولارس‘ کشتی کو ترکی کی طرف سے روکنے کی کوشش کی۔ رومن ابراہمووچ سے منسوب دوسری پرتعیش کشتی ’ایکلپس‘ مارمارس پہنچ چکی ہے۔
امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے کہا ہے کہ وہ روس کے بااثر امرا کی لگژری کشتیوں کو ضبط کر لیں گے۔ اب تک وہ آٹھ ایسی کشتیوں کو ضبط کر چکے ہیں، لیکن اب بھی ایسی لگژری کشتیاں ڈھونڈی جا رہی ہیں۔ روسی امرا کی کچھ کشتیاں محفوظ علاقوں کی طرف بڑھ رہی ہیں اور کچھ مالدیپ جیسی جگہوں پر موجود ہیں جہاں انھیں ضبط نہیں کیا جا سکتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ پرتعیش کشتیاں روسی صدر کے دوستوں کی ہیں۔ ان کشتیوں کی ملکیت کو خفیہ رکھا جاتا ہے اور انھیں آف شور کمنیوں کے نام پر رجسٹر کیا جاتا ہے۔
لائیڈز لسٹ نے پرتعیش کشتیوں کی رجسٹریشن کے کاغذات کی چھان بین کی اور ان کے دوسرے ریکارڈ کا معائنہ کرنے کے بعد ان پرتعیش کشتیوں کی ممکنہ ملکیت متعین کی ہے۔
رومن ابراہمووچ
مائی سولارس
مائی سولارس جس پر سوئمنگ پول اور اس پر ہیلی پیڈ بھی ہیں، کی مالیت 600 ملین ڈالر ہے۔ اس پر عملے کے ساٹھ افراد ہیں اور اس پرتعیش کشتی پر 30 مہمانوں کی گنجائش ہے۔
مائی سولارس آٹھ مارچ کو بارسلونا سے روانہ ہوئی جہاں اس کی مرمت کا کام جاری تھا۔
جب رومن ابراہمووچ پر پابندیاں عائد کی گئیں تو یہ کشتی بارسلونا سے نکل کر مونٹی نیگرو کی بندرگاہ ٹیواٹ پہنچی۔ ٹیواٹ پرتعیش کشتیوں کی پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے جہاں ایسی کشتیوں کے لیے چھوٹی بندرگاہ مرینا موجود ہے۔
مائی سولارس پندرہ مارچ کو یونان کے مغربی ساحل سے گزر رہی تھی جب رومن ابراہمووچ پر پابندیاں عائد کی گئیں۔
پندرہ مارچ کے بعد ملنے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مائی سولارس یورپی حدود سے نکل چکی ہے اور اب وہ عالمی پانیوں میں ہے جہاں سے اسے ضبط نہیں جا سکتا ہے۔
مائی سولارس 21 مارچ کو ترکی کے سیاحتی مقام بودرم پہنچی جہاں کی بندرگاہ 140 میٹر لمبی کشتیوں کو رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
لیکن ایک چھوٹے سے جہاز نے مائی سولارس کا راستہ روکنے کی کوشش کی تھی جس پر یوکرینی نوجوان سوار تھے۔ یہ نوجوان یوکرین کی سیلنگ ٹیم کے ممبران ہیں۔
یوکرینی کوچ پاولو ڈانسٹو نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ایک مقابلے میں شرکت کے لیے وہاں موجود تھے جب انھیں اطلاع ملی کہ مائی سولارس وہاں پہنچ رہی ہے۔
یوکرینی نوجوانوں نے ابراہمووچ کی یاٹ کو روکنے کی کوشش کی تھی
کوچ ڈانسٹو جن کا خاندان اب بھی یوکرینی شہر اوڈیسا میں موجود ہے، کا کہنا ہے کہ ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ یوکرینی آزادی اور امن چاہتے ہیں۔
ترکی نے کہا ہے کہ وہ روس پر پابندیاں لگانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ روس اور ترکی کے درمیاں براہ راست پروازیں جاری ہیں۔ روسی امرا کی کشتیوں کے ایک کیپٹن نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا ہے کہ ترکی کے حکام نے انھیں بتایا ہے کہ ترکی میں انھیں خوش آمدید کہا جائے گا اور ان کا استقبال ایسے ہی کیا جائے گا جیسے دوسرے جہازوں کا کیا جاتا ہے۔
ایکلپس کا شمار بڑی کشتیوں میں ہوتا ہے۔ اس کی نو منزلیں ہیں اور اس میں تین لوگوں کو لے جانے والی چھوٹی آبدوز بھی ہے۔ اس بارے میں خیال جاتا ہے کہ اس کشتی کا میزائل سے بچاؤ کا اپنا نظام بھی ہے۔ اس کشتی میں لیزر لائٹس والا ایسا نظام بھی نصب ہے جو دور سے کشتی کی فوٹوگرافی کو ناممکن بنا دیتا ہے۔
یہ کشتی جزائر غرب الہند کے جزیرے سنٹ مارٹن میں کھڑی تھی لیکن مارچ کے اوائل میں وہاں سے روانہ ہو گئی اور بحیرۂ روم سے گزرتی ہوئی شمالی الجیریا میں پہنچی ہے۔
22 مارچ کے ریکارڈ کے مطابق ایکلپس ترکی کے میرینا مارمارس کی طرف رواں دواں ہے۔ مارمارس کی بندرگاہ پرتعیش کشتیوں کی پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے جہاں سلطنت عثمانیہ دور کا ایک قلعہ بھی موجود ہے اور اس کے قریب پانی میں چھلانگیں لگانے کی پچاس جگہیں موجود ہیں۔
آندرے کوسٹن
سی ریپسوڈی جسے روس کے سرکاری بینک وی ٹی بی کے صدر آندرے کوسٹن سے جوڑا جاتا ہے، وہ بھی پانی میں رواں دواں ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے آندرے کوسٹن پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
سی ریپسوڈی جس پر سینما اور جمنازیم کی سہولت بھی موجود ہے، 18 فروری کو ترکی کی فتحی بندرگاہ سے اومان کی طرف روانہ ہوئی جہاں سے تین مارچ کو سیشلز پہنچی ہے جہاں وہ اب بھی موجود ہے۔
اولیگ ڈیریپسکا
کچھ کشتیاں ابھی اپنی ابتدائی جگہ سے نہیں ہلی ہیں۔ ان میں ایک کلیو ہے جسے ارب پتی اولیگارک ڈیریپسکا سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ڈیریپسکا ایک روسی صنعت کار ہیں اور انھیں صدر پوتن کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ نےاس پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
کلیو کشتی کے ساتھ ایک معاون بحری جہاز بھی چلتا ہے جس پر ایک ہیلی پیڈ بھی ہے۔ کلیو اس وقت مالدیپ کے قریب ہے۔
اس کے علاوہ اور کئی کشتیاں مالدیپ کے قریب موجود ہیں جنھیں روسی امرا کی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ ان میں اوشن وکٹری ہے جو وکٹر رشنکوف سے منسوب کی جاتی ہے اور نارڈ کو ایلکسی مارڈیسوف کی ملکیت بتایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ میڈمگو کشتی جو آندرے سکوش سے منسوب کی جاتی ہے وہ دبئی میں موجود ہے۔
دبئی، سیشلز اور مالدیپ کا یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہے جس کے تحت وہ پابندیوں کا سامنا کرنے والے افراد کے اثاثے ضبط کر لیں۔
لیکن روس کے بااثر امرا کی یہ کشتیاں شاید لمبے عرصے تک محفوظ پانیوں میں نہ ٹھہر سکیں۔ ان کشتیوں کو فعال رکھنے کے لیے ان کی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر یورپی یونین نے ان کشتیوں کی دیکھ بھال کے لیے ضروری پرزہ جات پر پابندی عائد کر دی تو انھیں فعال رکھنا شاید ممکن نہ رہے۔
بوٹ بکنگ کی چیف ایگزیکٹو کیپوچینی ڈی والی کہتی ہیں تمام بڑے شپ یارڈ شمالی یورپ میں واقع ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان پرتعیش کشتیوں کے مینوفیکچرر ان افراد پر پابندیوں کی وجہ سے شاید انھیں پرزہ جات کی فروخت روک دیں۔
روس کے نو امرا جن پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں ان میں صرف ایک کی کشتی یورپی پانیوں میں موجود ہے۔ ٹانگو کشتی کو وکٹر ویکسلبرگ سے منسوب کیا جاتا ہے اور یہ سپین کے پالما ساحل پر کھڑی ہے۔ وکٹر ویکسلبرک کو امریکی اور برطانوی پابندیوں کا سامنا ہے لیکن یورپی یونین نے ان پر پابندیاں عائد نہیں کی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ولادیمیر پوتن
روسی صدر ولادیمیر پوتن سے منسوب ایک پرتعیش کشتی یوکرین پر حملے سے پہلے واپس روسی پانیوں میں پہنچ چکی تھی۔
گریسفل نامی لگژری کشتی فروری کے وسط میں جرمنی چھوڑ کر روس کی کیلننگارڈ بندرگاہ تک پہنچ گئی تھی۔ لیکن لائیڈز لسٹ کا کہنا ہے کہ صدر پوتن سے منسوب کشتی کی نقل و حرکت کی زیادہ معلومات میسر نہیں ہیں کیونکہ اس کشتی پر لگی ٹریکنگ ڈیوائسز کئی ہفتوں سے بند تھیں۔
اقوام متحدہ کے سیفٹی ضوابط کے تحت کسی انتہائی ہنگامی صورتحال میں ہی کشتی کی ٹریکنگ ڈیوائس کو بند کیا جا سکتا ہے۔
گذشتہ ماہ روسی امرا سے منسوب اور کئی کشتیوں پر لگی ٹریکنگ ڈیوائسز کو بند کیا گیا۔ امریکی حکام اٹلی کے میرینا ڈی کارا ساحل پر کھڑی شیکہرزاد نامی پرتعیش کشتی کی ملکیت کے بارے میں چھان بین کر رہے ہیں۔
روس کے اپوزیشن رہنما ایلگزینڈر نوالنی کے حامی شیکہرزاد کشتی کو صدر پوتن سے منسوب کرتے ہیں۔ اس کشتی کی مالیت 700 ملین ڈالر بتائی جاتی ہے۔
ابھی تک کتنی کشتیوں کو ضبط کیا گیا ہے؟
اس موسم میں اکثر پرتعیش کشتیوں کا رخ یورپ کی جانب ہوتا ہے۔ دسمبر اور اپریل کے درمیان وہ جزائر غرب الہند میں ہوتی ہیں اور پھر وہ بحیرۂ روم کی طرف چلی جاتی ہے۔
سیلنگ یاٹ اے کو ٹریسٹ، اٹلی میں ضبط کیا گیا ہے۔ اسے آندرے میلنیچینکو کی ملکیت بتایا جاتا ہے
روسی امراء سے منسوب کئی پرتعیش کشتیوں کو سپین، اٹلی اور فرانس میں ضبط کیا جا چکا ہے۔
- سیلنگ یاٹ اے کو ٹریسٹ نامی کشتی کو اٹلی میں ضبط کیا گیا ہے۔ اسے آندرے میلنیچینکو کی ملکیت بتایا جاتا ہے۔
- لینا کو سین ریمو نامی کشتی کو اٹلی میں ضبط کیا گیا۔ اسے گیناڈی ٹمچینکو سے منسوب کیا جاتا ہے۔
- لیڈی ایم کو امپریا نامی کشتی کو اٹلی سے قبضے میں لیا گیا۔ اس کا تعلق ایلکسی مرڈاشوف سے بتایا جاتا ہے۔
- ایمور ویرو کو لاسیوٹا نامی کشتی کو فرانس میں ضبط کیا گیا۔ اسے اگور سچن سے منسوب کیا جاتا ہے۔
- ولیریا کو بارسلونا نامی کشتی سپین سے قبضے میں لی گئی ہے۔ یہ کشتی سرگئی چیمنوف کی بتائی جاتی ہے۔
- کریسنٹ کو ٹیراگونا نامی کشتی کو بھی سپین سے قبضے میں لیا گیا۔
- لیڈی اینتازیا نامی کشتی کو پورٹ ایڈریانو، سپین سے قبضے میں لیا گیا۔ اس کا تعلق الیگزینڈر میخیف سے جوڑا جاتا ہے۔
- ایکسیوما نامی کشتی کو جبرالٹر سے قبضے میں لیا گیا ہے۔ اسے دیمتریوچ پمپانکسی کی ملکیت بتایا جاتا ہے۔
اٹلی کے حکام نے گیناڈی ٹمچینکو کی یاٹ لینا کو قضبے میں لے لیا ہے
البتہ ابھی دنیا کی سب سے پرتعیش کشتی دلبر جو روسی کاروباری شخصیت علی شیر عثمانوف کی ملکیت بتائی جاتی ہے، اسے جرمنی میں قبضے میں لینے کے حوالے سے ابہام پایا جاتا ہے۔
اس کے بارے میں ایسی خبریں شائع ہوئیں کہ اسے ہمبرگ میں قبضے میں لے لیا گیا ہے۔ البتہ حکام نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ایسا نہیں ہوا ہے اور کشتی اپنی مرمت کے سلسلے میں ہمبرگ میں موجود ہے۔
ایسی کشتیاں جن پر پابندیاں نہیں عائد کی گئی ہیں؟
لائیڈز لسٹ انٹیلیجنس کے مطابق 40 ایسی پرتعیش کشتیوں کا پتہ چلایا ہے جن کا تعلق روسی امرا سے جوڑا جاتا ہے لیکن وہ ابھی تک پابندیوں کی زد میں نہیں ہیں۔
لیکن یورپی بندرگاہوں پر ان کا پرجوش استقبال نہیں کیا جا رہا ہے۔ مس ڈی والی کے مطابق مناکو میں کچھ کنٹریکٹروں نے پابندیوں کے خوف سے روسی امرا سے جڑی ہوئی کشتیوں کی دیکھ بھال سے انکار کر دیا ہے۔ انھیں ڈر ہے کہ کہیں انھیں جو ادائیگیاں ہونی ہیں وہ پابندیوں کی زد میں نہ آ جائیں۔
ان پرتعیش کشتیوں کے ایک کپتان نے بی بی سی کو بتایا کہ ہماری کریٹ لائن بلکل کٹ چکی ہے اور ان کے اپنے آپریشن کو جاری رکھنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔
Comments are closed.