بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

این فرینک کے مبینہ مخبر کی نشاندہی کرنے والی کتاب سٹورز سے ہٹوا لی گئی

دوسری عالمی جنگ: این فرینک کے مبینہ مخبر کی نشاندہی کرنے والی کتاب سٹورز سے ہٹوا لی گئی

این فرینک

،تصویر کا ذریعہAnn Frank Museum

نیدرلینڈز کے ایک ناشر نے اپنی شائع کردہ وہ کتاب بک سٹورز سے واپس منگوا لی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ این فرینک کے خاندان کو مبینہ طور پر کسی نے دھوکہ دیا تھا۔

کتاب کے ناشر نے یہ فیصلہ کتاب میں کیے گئے انکشافات کی ساکھ پر تنقید اور سوالات کے بعد کیا ہے۔

واضح رہے کہ جنوری میں ایک تحقیق میں ایک ایسے شخص کی شناخت کی گئی تھی جس نے مبینہ طور پر اپنے خاندان کو بچانے کے لیے یہودی ڈائری نگار این فرینک اور اُن کے خاندان کی نازیوں کو مخبری کی تھی۔

این فرینک نے اپنے روپوشی کی زندگی کے دو برسوں کے دوران ڈائری لکھی تھی جس کے بعد وہ 15 سال کی عمر میں ایک نازی حراستی مرکز میں ہلاک ہو گئی تھیں۔

اُن کی وفات کے بعد شائع ہونے والی اُن کی ڈائری دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کی زندگی کے بارے میں سب سے مشہور آنکھوں دیکھا حال ہے۔

’دی بیٹریئل آف این فرینک: اے کولڈ کیس انویسٹیگیشن‘ نامی کتاب میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایمسٹرڈیم کی ایک یہودی شخصیت آرنلڈ وان دین برگ نے اپنے خاندان کو بچانے کے لیے این فرینک کے خاندان کا پتا نازیوں کو بتا دیا تھا۔

یہ کتاب ایک ریٹائرڈ ایف بی آئی تفتیش کار اور اُن کی ٹیم کی چھ سالہ تحقیق پر مبنی ہے۔

تاہم کینیڈین مصنف روزمیری سلیوان کی کتاب پر یہودی تنظیموں اور مؤرخین کی جانب سے اعتراض کیا گیا۔ یورپین جیوئش کانگریس نے ناشر ہارپر کولنز سے مطالبہ کیا کہ وہ انگریزی ایڈیشن کو ہٹوائیں کیونکہ اس سے این فرینک کی یادگار اور ہولوکاسٹ سے بچ جانے والوں کا احترام متاثر ہوئے ہیں۔

اس تحقیق میں کیا پایا گیا تھا؟

آرنلڈ وان دین برگ ایمسٹرڈیم کی جیوئش کونسل کے رکن تھے۔ اس کونسل کو یہودی علاقوں میں نازی پالیسیوں کا نفاذ کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ سنہ 1943 میں اس تنظیم کو ختم کر دیا گیا اور اس کے ارکان کو حراستی مراکز میں بھیج دیا گیا تھا۔

مگر ٹیم نے پایا کہ وان دین برگ کو حراستی کیمپ میں نہیں بھیجا گیا تھا بلکہ وہ ایمسٹرڈیم میں معمول کی زندگی گزار رہے تھے۔ اس کے علاوہ یہ عندیہ بھی ملا کہ جیوئش کونسل کے ایک رکن نازیوں کو خبریں فراہم کر رہے تھے۔

سابق ایف بی آئی ایجنٹ وِنس پینکوک نے نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز کے پروگرام 60 منٹس سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’جب وان دین برگ نے وہ تمام استثنیٰ کھو دی جس نے انھیں حراستی مراکز سے بچا رکھا تھا تو اُنھیں نازیوں کو کچھ بیش بہا چیز فراہم کرنی پڑی تاکہ وہ اور اُن کی اہلیہ اس دوران محفوظ رہ سکیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’کوئی ٹھوس ثبوت نہیں‘

ڈچ اخبار ڈی ووکسکرانت کے مطابق وان دین برگ سنہ 1950 میں وفات پا گئے تھے۔

کتاب پر شائع ہونے والی نئی رپورٹ میں ان انکشافات کی تردید کرتے ہوئے اسے ‘ناتجربہ کارانہ’ کہا گیا ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ ‘اس سخت الزام کے حق میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں۔’

اس کے جواب میں ڈچ پبلشنگ ہاؤس ایمبو اینتھوس نے کہا ہے کہ یہ کتاب اب مزید دستیاب نہیں رہے گی۔ پبلشر نے بک سٹورز سے کہا ہے کہ وہ یہ کتابیں واپس بھیج دیں۔

واضح رہے کہ آرنلڈ وان دین برگ کی پڑپوتی نے بھی بین الاقوامی اشاعتی ادارے ہارپر کولنز سے کہا ہے کہ وہ انگلش ایڈیشن کو منسوخ کر دے۔

بی بی سی نے ہارپر کولنز سے تبصرے کے لیے درخواست کی ہے۔

اس سے قبل اس کتاب کی تحقیقاتی ٹیم نے کہا تھا کہ وہ اپنی تحقیق پر قائم ہیں اور یہ کہ اُنھوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اُنھیں مکمل سچ مل گیا ہے۔

مرکزی محقق پیٹر وان ٹوئسک نے ڈچ خبر رساں ادارے اے این پی کو بتایا کہ ‘ہمارا مفروضہ مفروضہ ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔’

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.