بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’بیٹے نے کہا میں درد برداشت نہیں کر سکتا اور پھر اس نے میرے بازوؤں میں دم توڑ دیا‘

روس یوکرین جنگ: ’پوتن نے صرف میرے بیٹے اور شوہر کو ہلاک نہیں کیا بلکہ میرے خاندان کو مار دیا‘

  • اورلا گیورن
  • بی بی سی نیوز، یوکرین

Maryna, Myhailo, and their grandson

انتباہ: مارینا کی کہانی کچھ قارئین کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتی ہے۔

’وہ میرے لیے وہ سب کچھ تھے جس کا میں تصور کر سکتی تھی، ایک مثالی مرد۔ وہ ہمارے خاندان کا مرکز تھے، ہمارا قلعہ، ہمارا دل تھے۔ انھوں نے میرے پوشیدہ خواب کو بھی تعبیر دی۔‘

یہ الفاظ ہیں مارینا کے جن کے شوہر ماہیلو چھ مارچ کو کیئو کے مضافاتی قصبے اِرپن پر روسی بمباری میں مارے گئے تھے۔ مارینا اور ماہیلو کی شادی کو 34 برس ہو چکے تھے۔

کہنے کو یہ ایک خاندان کی کہانی ہے جن کے فلیٹ پر ایک گرینیڈ یا گولہ لگا جو پورے خاندان کو تباہ کر گیا لیکن تین ہفتے پہلے یوکرین پر روسی فوج کی چڑھائی کے بعد سے بے شمار یوکرینی خاندان ہمیشہ کے لیے اُجڑ چکے ہیں۔

مارینا چاہتی ہیں کہ وہ اپنے خاندان کی کہانی سُنائیں تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ ان کے 54 سالہ شوہر اور اُن کا 32 سالہ بیٹا سرہئی کیسے اپنے گھر میں بیٹھے مارے گئے اور اس کے بعد اُن کے خاندان پر کیا قیامت گزری۔

مارینا سے میری بات ویڈیو لِنک کے ذریعے ہوئی کیونکہ اس وقت انھوں نے یوکرین کے مغربی علاقے میں اپنے رشتے داروں کے ہاں پناہ لے رکھی ہے۔ ان کی بیٹی یانا اور تین سال کا نواسہ بھی اُن کے ساتھ ہیں، جس کا نام اپنے نانا کے نام پر ماہیلو رکھا گیا ہے۔

جب ویڈیو لِنک کے ذریعے مارینا میرے کمپیوٹر کی سکرین پر نظر آئیں تو ان کی نظریں جُھکی ہوئی تھیں اور انھوں نے سیاہ کپڑے پہن رکھے تھے۔ ان کی زبان سے نکلنے والا ہر لفظ درد، غم اور غصے میں ڈوبا ہوا تھا۔

سرہئی
،تصویر کا کیپشن

32 سال کی سرہئی نے اپنی والدہ کے بازوؤں میں دم توڑ دیا

’جب کوئی بھی شخص کہیں مارا جاتا ہے تو پولیس قاتل کی تلاش میں نکل پڑتی ہے۔ مقدمہ چلتا ہے اور پھر قاتل کو سزا ہو جاتی ہے۔ یوکرین میں اب کسی اکیلے شخص کو ہلاک نہیں کیا جا رہا، بہت سے لوگوں کو مارا جا رہا ہے۔ میں چاہتی ہوں دنیا دیکھے کہ یہ سب کچھ کون کر رہا ہے تاکہ پوتن اور اس کی حکومت کو میرے پیاروں کو ہلاک کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکے۔‘

جب روسیوں نے اِرپن کے قصبے کو نشانہ بنانا شروع کیا تو مارینا، اُن کے شوہر اور بیٹا اپنا فلیٹ چھوڑ کر قریب ہی واقع اپنی بیٹی کے گھر منتقل ہو گئے تھے اور جس دن حملہ ہوا تو ہر تھوڑی دیر بعد ہونے والی بمباری سے بچنے کے لیے تمام خاندان ایک زیر زمین کار پارکنگ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گیا۔

اُس روز شام کے اوقات میں بمباری قدرے کم ہوئی تو یہ لوگ کھانے پینے کا سامان لینے اور اپنے نواسے کو نہلانے کے لیے 15ویں منزل پر واقع اپنے فلیٹ میں چلے گئے۔

’ہم نے سارا کام جلدی جلدی کر لیا۔ پھر ہمیں گھن گرج سُنائی دی۔ ماہیلو اور سرہئی نے ہم لوگوں کو ایک جانب دھکیل دیا، مجھے، میری بیٹی اور میرے نواسے کو۔ ہم کسی طرح فلیٹ سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے لیکن وہ دونوں نہیں نکل سکے۔‘

With grandson
،تصویر کا کیپشن

یہ دوسری مرتبہ ہے جب مارینا کی زندگی روسی حکومت کے سیاہ سائے نے تاریک کر دی ہے

’اس وقت مجھے سیٹی جیسی آواز سُنائی دی اور مجھے اپنی جلد پر شدید گرمی محسوس ہوئی۔ مجھے نہیں پتا چلا کہ کیا ہوا ہے لیکن مجھے اتنا پتہ تھا کہ میں ابھی تک زندہ ہوں۔ ایک گولہ فلیٹ کی خواب گاہ کی دیوار کو چیرتے ہوئے پورے فلیٹ کو تباہ کر چکا تھا۔‘

مارینا نے بتایا کہ اس وقت وہ فلیٹ سے نکل کر راہدری میں پہنچ چکی تھیں اور زور زور سے اپنے خاندان کے افراد کو پُکار رہی تھیں۔ وہاں اتنا گرد و غبار اور اندھیرا تھا کہ کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اندھیرے میں ہاتھ پاؤں مارتے ہوئے انھیں معلوم ہوا کہ ان کی بیٹی اور نواسہ زندہ ہیں۔

دونوں بہت خوفزدہ تھے تاہم انھیں کوئی زخم نہیں آئے کیونکہ دھماکے سے ایک قالین اُن پر آن گرا تھا جس کے باعث وہ دونوں زخمی ہونے سے بچ گئے۔

’میں اپنے شوہر اور بیٹے کو پکارنے لگی۔ میں سرہئی سرہئی، مِشا مِشا پکار رہی تھی۔ میرے بیٹے نے جواب دیا۔ جس طرف سے آواز آ رہی تھی، میں آہستہ آہستہ اُس طرف چل پڑی اور یوں فلیٹ تک پہنچ گئی۔ میرے شوہر فلیٹ کی دہلیز کے اندر پڑے ہوئے تھے۔ اگر وہ چند انچ آگے، فلیٹ سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو جاتے تو وہ زندہ بچ جاتے۔ کنکریٹ کی ایک پوری دیوار اُن پر آن گری تھی۔‘

یہ بھی پڑھیے

اس وقت تک سرہئی زندہ تھے۔ ’میرا بیٹا چیخ چیخ کے کہہ رہا تھا کہ ماما اندر نہ آنا۔ یہاں سے بھاگ جائیں اور یانا اور بچے کو بھی ساتھ لے جائیں۔‘ مجھے لگا کہ میرا بیٹا اپنی جگہ سے ہِل نہیں پا رہا تھا۔ میں نے کہا ’پلیز میرا انتظار کرنا، میں تمھارے لیے واپس آؤں گی۔‘

مارینا، یانا اور چھوٹا ماہیلو اندھیرے اور گرد و غبار میں راستہ ٹٹولتے ہوئے سیڑھیوں تک پہنچے اور ڈر ڈر کے ایک ایک سیڑھی اُترنے لگے۔ نیچے کار پارک میں پہنچ کر انھوں نے پڑوسیوں کی منت سماجت کی کہ کسی طرح فلیٹ میں جا کر ان کے بیٹے اور شوہر کو نکالیں۔

’وہاں موجود مرد پلک جھکپتے ہی اُوپر کو دوڑے۔ وہ واپس آئے تو بتایا کہ فلیٹ میں کوئی زندہ شخص ہے لیکن وہ لوگ کچھ نہیں کر سکتے۔ میں نے پڑوسیوں سے کہا کہ مجھے کچھ چادریں اور پٹّیاں دیں، میں خود اوپر جا کے دیکھتی ہوں۔‘

ایک خاتون ڈاکٹر میرے ساتھ اوپر گئی۔ ہمیں میرا بیٹا مل گیا، اس کا پیٹ چاک ہو چکا تھا اور اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ چکی تھیں۔ اس نے کہا ’ماں، میں درد برداشت نہیں کر سکتا۔ میں کھڑا نہیں ہو سکتا، مجھے ابھی مار دو۔‘

’میرے بیٹے نے میرے بازوؤں میں دم توڑ دیا۔ وہ کچھ نہیں مانگ رہا تھا، بس پوتن کو صلواتیں سُنا رہا تھا۔‘

سرہئی کے سارے منصوبے اُن کے ساتھ دم توڑ گئے۔ اُن کی خواہش تھی کہ وہ جلد ہی اپنا گھر بسا لیں گے لیکن ’اب میں کبھی بھی اپنے بیٹے کے بچوں کو نہیں دیکھ سکوں گی۔ پوتن نے صرف میرے بیٹے اور شوہر کو ہلاک نہیں کیا بلکہ اس نے میرے خاندان کو مار دیا۔‘

مارینا نے ولادیمیر پوتن کے ’سپیشل ملٹری آپریشن‘ کو ایک نیا نام دے رکھا ہے۔ ان کے بقول یہ ’سپیشل ملٹری آپریشن‘ نہیں بلکہ ’سپیشل شیلنگ آپریشن‘ ہے۔ مارینا کہتی ہیں کہ ’ایک فلیٹ پر بم گرانا غلطی بھی ہو سکتی ہے لیکن یوکرین بھر میں سینکڑوں گھروں پر گولے برسانا غلطی نہیں ہو سکتی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ روسیوں نے اِرپن میں فلیٹوں اور گھروں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا تھا۔

’فلیٹ کو بہتر طریقے سے نشانہ بنانے کے لیے ٹینک ایک جگہ سے دوسری جگہ کھڑا کیا گیا تھا۔‘

Irpin

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اِرپن کی زیادہ تر آبادی یہاں سے جا چکی ہے

53 سال کی مارینا ولادیمیر پوتن کے اس دعوے کو رد کرتی ہیں کہ اُن کا عزم روسی زبان بولنے والے لوگوں کو بچانا ہے۔

’پوتن کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ مجھے بچائے اور یہاں سے نکالے۔ (یوکرین میں) مجھ پر کبھی دباؤ نہیں رہا۔ میں ساری زندگی روسی بولتی رہی ہوں۔ میں ہر جگہ جا سکتی ہوں۔ میں جو زبان چاہوں بول سکتی ہوں اور (کئی دوسرے لوگوں کی طرح) میں نے یوکرینی زبان بطور احتجاج بولنا شروع کی۔ پوتن نے تو مجھے اپنے وطن (یوکرین) سے اور زیادہ محبت کرنا سکھا دیا ہے۔‘

یہ ان کی زندگی میں دوسری مرتبہ ہوا ہے جب روس کے سیاہ سائے نے مارینا اور اُن کے خاندان کی زندگی کو تاریک کر دیا ہے۔

اس سے پہلے سنہ 2014 میں جب مارینا اور ماہیلو کو دونیسک کے علاقے میں اپنے ’خوابوں کے گھر‘ میں منتقل ہوئے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ کریملن کے حمایت یافتہ باغیوں نے یوکرینی حکومت کے خلاف جنگ شروع کر دی۔ دونوں کو وہاں سے فرار ہو کر اِرپن میں سکونت اختیار کرنی پڑی لیکن پھر یہاں بھی روسی تاریخ نے خود کو دہرایا اور یہ خاندان روسی گولہ باری کا نشانہ بن گیا۔

یہ ایک عجیب مگر تلخ حقیقت ہے کہ مشرقی یوکرین سے جان بچا کر نکلنے والوں میں سے اکثر خاندانوں نے اِرپن اور اس کے قریبی قصبے بُوچا میں ایک نئی زندگی کا آغاز کیا تھا اور یہ وہی دو قصبے ہیں جو روس کی حالیہ خوفناک بمباری کا نشانہ بنے۔

مارینا کہتی ہیں کہ جوں جوں ان کا دکھ ہڈیوں میں سرایت کرتا جا رہا ہے، زندگی کا ایک ایک دن مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

’آپ صبح جاگتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ آپ کا سب سے قریبی ساتھی آپ کے پاس نہیں۔ وہ ساتھی جو ہر صبح گُڈ مارننگ کہتا تھا اور پھر آپ کو کافی کا کپ بنا کر دیتا تھا۔ اب کوئی بھی نہیں جو آپ اداس ہوں تو آ کر آک کو گلے سے لگا لے۔‘

Myhailo and grandson

ماہیلو ایک مکینیکل انجینیئر تھے اور انھیں اپنے خاندان سے بہت پیار تھا۔ ’وہ بہت سے باپوں سے مختلف باپ تھے کیونکہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ بہت وقت گزارتے تھے۔ جب ہمارا نواسہ پیدا ہوا، ماہیلو اس کے ساتھ ایسے ہی تھے۔ انھوں نے اپنے نواسے کو بہت سی چیزیں سکھائیں۔‘

مارینا کہتی ہیں کہ دونوں میاں بیوی کو بڑے بڑے خواب دیکھنے کا شوق تھا اور دونوں ہمیشہ مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے رہتے تھے۔ لیکن اب خوابوں کی جگہ اُن فکروں نے لے لی ہے کہ ہمارے خاندان کا کیا ہو گا۔‘

’میرے نواسے کو نہیں معلوم کہ اس کے نانا اور ماموں اب زندہ نہیں رہے۔ اسے شور سے ڈر لگتا ہے۔ وہ جب کوئی اونچی آواز سُنتا ہے تو پوچھتا ہے کہ کیا بُرے لوگ پھر فائرنگ کر رہے ہیں۔ مجھے اپنی بیٹی اور نواسے کو بچا کر اس جنگ سے کہیں دور بھیجنا ہے۔‘

line

روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج

line

مارینا کو کچھ دیر کے لیے ایسا لگا تھا کہ اب وہ لوگ خطرے سے دور نکل آئے ہیں۔ یہ تنیوں یوکرین اور پولینڈ کی سرحد کے قریب لیویو کے مقام تک پہنچ گئے تھے لیکن گذشتہ اتوار کی صبح یہاں بھی روس نے حملہ کر دیا اور فوجی تربیتی مرکز پر کرُوز میزائل کے حملے میں 35 افراد مارے گئے۔

شوہر اور بیٹا چھن جانے کے بعد، مارینا کی مغربی اقوام سے یہی درخواست ہے کہ یوکرین میں ’نو فلائی زون‘ کا نفاذ کیا جائے تاکہ اس ملک پر کوئی بھی فضائی حملہ نہ کر سکے۔

ماہیلو اپنے نواسے کے ساتھ
،تصویر کا کیپشن

تین سالہ ماہیلو کا نام ان کے نانا کے نام پر رکھا گیا جو اپنے نواسے پر جان چھڑکتے تھے

’میری آپ سے درخواست ہے کہ یوکرین کی فضاؤں کا تحفظ کریں۔ اُنھیں (روسیوں کو) ہم پر بمباری کرنے سے روکیں۔ یوکرین پورے یورپ کو بچا رہا ہے لیکن یہ کام ہم اکیلے نہیں کر سکتے۔‘

دس دن گزر جانے کے بعد، اِرپن پر بمباری جاری ہے اور اس شہر کے 60 ہزار باسیوں میں سے اکثر یہاں سے جان بچا کر نکل چکے ہیں۔ ابھی تک ماہیلو اور سرہئی کی تدفین نہیں ہو سکی اور ان کے بے جان جسم فلیٹ کے ملبے تلے پڑے ہوئے ہیں۔

’میرے شوہر اور میرا بیٹا ابھی تک اس کمرے میں پڑے ہوئے ہیں۔ میں خود ان کا کفن دفن نہیں کر سکی اور وہاں اس وقت نہ کوئی ڈاکٹر دستیاب ہے، نہ تجہیز و تدفین کرنے والی سروس، اور نہ ہی کوئی مُردہ خانہ کھلا ہے۔‘

’میں امید کرتی ہوں کہ ان کو دفن کرنے کا کوئی تو طریقہ ہو گا اور قبروں پر اُن کے نام لِکھ دیے جائیں۔ میں چاہتی ہوں کہ ان کی قبر پر صلیب لگائی جائے اور میں جا کر وہ قبریں دیکھنا چاہتی ہوں۔‘

ٹینک کا ایک گولہ، ایک فلیٹ اور ایک خاندان شاید وہ آئینہ ہے جس میں روسی حملے کی بربریت اور یوکرین کا درد دونوں دیکھے جا سکتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.