بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

506 رنز کا ہدف ، بابراعظم کی سنچری، کراچی ٹیسٹ پانچویں دن میں داخل

506 رنز کا ہدف ، بابراعظم کی سنچری، کراچی ٹیسٹ پانچویں دن میں داخل

  • عبدالرشید شکور
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

بابر اعظم

،تصویر کا ذریعہPCB

کسی بھی ٹیم کو ٹیسٹ میچ جیتنے کے لیے نصف ہزار رنز کا ہدف ملے تو اس پر پریشانی کے آثار بیٹنگ کے آغاز سے ہی ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔

آسٹریلیا کے خلاف کراچی ٹیسٹ میں پاکستانی ٹیم نے 506 رنز کا ہدف ملنے کے بعد دوسری اننگز شروع کی تو ظاہر ہے کہ اس کی ممکنہ جیت کے بارے میں کوئی بھی بات نہیں کررہا تھا البتہ گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ کیا پاکستانی ٹیم اس ٹیسٹ کا چوتھا دن گزارنے میں کامیاب ہوجائے گی اور میچ پانچویں دن میں داخل ہوسکے گا ؟

اور واقعی ایسا ہو گیا۔

کپتان بابراعظم اور عبداللہ شفیق کی مزاحمت کراچی ٹیسٹ کو پانچویں دن تک لے جانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

چوتھے دن کھیل کے اختتام پر پاکستان نے 2 وکٹوں پر 192 رنز بنائے تھے۔ بابراعظم اپنی چھٹی ٹیسٹ سنچری مکمل کرتے ہوئے 102رنز پر ناٹ آؤٹ ہیں۔ ان کی197 گیندوں کی اننگز میں 12 چوکے شامل ہیں۔

عبداللہ شفیق 71 رنز پر کریز پر موجود ہیں۔ ان کی اننگز میں ایک چھکا اور چار چوکے شامل ہیں۔

اظہر علی

،تصویر کا ذریعہPCB

یہ دونوں تیسری وکٹ کی شراکت میں 171 رنز کا اضافہ کرچکے ہیں۔

بابر اعظم نے آخری ٹیسٹ سنچری فروری 2020 میں بنگلہ دیش کے خلاف راولپنڈی میں بنائی تھی جس کے بعد انہوں نے 21 اننگز میں یہ پہلی سنچری سکور کی ہے۔

یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں کوئی بھی ٹیم 418 سے زائد رنز کرکے کبھی نہیں جیتی ۔ رہی پاکستانی ٹیم کی بات تو اس نے سب سے بڑا 377 رنز کا ہدف پورا کر کے 2015 میں سری لنکا کے خلاف پالیکلے ٹیسٹ جیتا تھا۔

پاکستان کی اننگز میں کیا ہوا؟

امام الحق کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ کھیل کس قدر بے رحم ہے ۔ پنڈی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریوں کے بعد اگلے ہی ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں وہ بری طرح ناکام رہے۔ دوسری اننگز میں ایک رن پر نیتھن لائن کی گیند پر ایل بی ڈبلیو دیے جانے پر انہوں نے ریویو لیا اور اپنے ساتھ ریویو بھی ضائع کرگئے۔

اظہرعلی عام حالات میں بھی خود کو دفاعی انداز میں قید کرلیتے ہیں۔ اس اننگز میں وہ غیرمعمولی طور پر دفاع کا پیکر بنے ہوئے تھے لیکن 54 گیندوں پر6 رنز بنا کر وہ کیمرون گرین کی گیند پر حیران کن انداز میں ایل بی ڈبلیو ہوئے۔

عبداللہ

،تصویر کا ذریعہPCB

اظہرعلی سمجھ رہے تھے کہ یہ شارٹ گیند ہے۔ وہ ُجھکے اور نظریں گیند سے ہٹالیں، گیند ان کے جسم پر لگی لیکن سب سے اہم بات یہ تھی کہ گیند ان کے گلوز کو بھی چھو کر گئی تھی لیکن اظہرعلی نے عبداللہ شفیق کے ساتھ مشورے کے باوجود ریویو نہیں لیا۔

21 رنز پر دو وکٹیں گرنے کے بعد کپتان بابراعظم کے لیے حالات پہلی اننگز جیسے ہی تھے جب انہیں 45 رنز کے مجموعی اسکور پر بیٹنگ کے لیے آنا پڑا تھا۔

عبداللہ شفیق کو 20 رنز پراس وقت چانس ملا جب پیٹ کمنز کی گیند پر پہلی سلپ میں اسٹیو سمتھ نے آسان کیچ گرا دیا۔ سمتھ نے پہلی اننگز میں بھی رضوان اور نعمان علی کے کیچ ڈراپ کیے تھے۔

اس کے بعد انہوں نے اپنے کپتان کے ساتھ آسٹریلوی بولنگ اٹیک کو اعتماد سے ہینڈل کیا۔

بابراعظم کی ذمہ دارانہ اننگز چند خوبصورت سٹروکس سے سجی ہوئی تھی۔ ان کے ہر چوکے پر سٹیڈیم میں موجود تماشائیوں کا شور بڑھ جاتا۔ غیرمعمولی دباؤ میں یہ بابراعظم کی باکمال اننگز ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے۔

کیا پاکستان جیت سکتا ہے؟

پاکستانی ٹیم کو آخری دن 90 اوورز میں جیت کے لیے مزید 314 رنز درکار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 314 کا ہندسہ اس لیے بھی یاد رکھا جانے والا ہے کہ 1994 میں جب پاکستان نے آسٹریلیا ہی کو کراچی ٹیسٹ کے آخری دن ایک وکٹ سے شکست دی تھی تو تب بھی اس نے 314 رنز بنائے تھے۔

آسٹریلیا کا دوسرا ڈکلیئریشن

کراچی ٹیسٹ

،تصویر کا ذریعہPCB

،تصویر کا کیپشن

آسٹریلیا نے اپنی پہلی اننگز بھی 556 رنز 9 کھلاڑی پر ڈکلیئر کی تھی۔

آسٹریلوی ٹیم نے چوتھے دن اپنی دوسری اننگز 81 رنز ایک کھلاڑی آؤٹ پر شروع کی تو سب کے ذہن میں یہی سوال تھا کہ پیٹ کمنز کی جانب سے ڈکلیئریشن کا فیصلہ کتنی دیر بعد آئے گا؟

آسٹریلوی کپتان نے یہ فیصلہ صرف چھبیس منٹ کے کھیل کے بعد مارنس لبوشین کی وکٹ گرنے پر کرلیا۔ اس وقت آسٹریلیا کا سکور دو وکٹوں پر 97 رنز تھا۔

مارنس لبوشین 44 رنز بنا کر شاہین شاہ آفریدی کی گیند پر بولڈ ہوئے۔ پہلی اننگز کے سنچری میکر عثمان خواجہ 44 رنز بناکر ناٹ آؤٹ رہے۔

یاد رہے کہ آسٹریلیا نے اپنی پہلی اننگز بھی 556 رنز 9 کھلاڑی پر ڈکلیئر کی تھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.