بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

متحدہ اپوزیشن کے قائدین کے اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ

متحدہ اپوزیشن کے قائدین کا مشترکہ اجلاس پیر کو اسلام آباد میں قائد حزب اختلاف کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا، جس میں ملک کی مجموعی صورتحال اور تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے تفصیلی مشاورت ہوئی اور اہم فیصلوں کو حتمی شکل دی گئی۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس نے واضح کیا کہ تاریخی مہنگائی، غربت، بے روزگاری، معاشی تباہی کے ستائے پاکستان کے عوام کو اس ظالم، کرپٹ، نالائق اور نااہل حکومت سے نجات دلانے کے لئے متحدہ اپوزیشن نے آئین کے راستے پر چلتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرائی ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پہلے ہی کہہ چکا کہ فضل الرحمان کا ایجنڈا او آئی سی کانفرنس کے خلاف ہے۔

اس حکومت نے پاکستان کی معاشی خود مختاری کا سودا کیا، قومی مفادات کو خطرات سے دوچار کیا اور خارجہ محاذ پر پے درپے ناکامیوں سے اہم اور نازک ملکی مفادات کو مجروح کیا، قریبی اور بااعتماد دوست ممالک کو ناراض کرکے دنیا میں پاکستان کو تنہا کیا۔

اس حکومت نے غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے مسئلہ کو گہری چوٹ پہنچائی، کشمیریوں و پاکستانیوں کی امنگوں اور مفادات کی ترجمانی و دفاع میں بدترین طور پر ناکام رہی۔

مسلم لیگ(ق) کے سینئر رہنما اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے کہا ہے کہ ہماری ملاقاتوں سے جھکاؤ کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

اعلامیے کے مطابق وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی پیش کردہ تحریک عدم اعتماد قومی مفادات کی امین اور 22 کروڑ عوام کی امنگوں و خواہشات کی مظہر ہے، اس آئینی اقدام کا دستوری، قانونی، پارلیمانی اور جمہوری دائرے میں رہ کر سامنا کرنے کے بجائے نااہل وزیراعظم اور ان کی حکومت آئین شکنی اور فساد کی راہ اپنا چکی ہے۔

ارکان قومی اسمبلی کو ایوان میں آنے سے روکنے کی کھلے عام دھمکیاں دی جارہی ہیں، ڈرانے، دھمکانے اور دباﺅ میں لانے کے ہتھکنڈے کے طور پر ڈی چوک پر جلسہ کرنے کا حکومت اعلان کرچکی ہے۔

لاہور میں ن لیگی رہنما حمزہ شہباز سے ترین گروپ کے ممبران کی ملاقات کا مشترکہ اعلامیہ سامنے آگیا۔

متحدہ اپوزیشن واضح کرتی ہے کہ حکومت فساد، انتشار اور تصادم کی راہ اختیار نہ کرے، آئین کی باغی نہ بنے، آئین کے تحت ارکان قومی اسمبلی کا بنیادی فرض اور حق ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنے دستوری، جمہوری اور پارلیمانی فرائض انجام دیں، ان کی نقل و حرکت پر کوئی قدغن عائد نہیں کی جاسکتی، نہ ہی انہیں رائے دہی سے روکا جاسکتا ہے، انہیں ان ذمہ داریوں سے روکنا دستور پاکستان کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے، جس کی سزا آئین کے آرٹیکل 6 میں واضح طور پر درج ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ اتحادیوں سے متعلق کچھ بھی بتانے کی اجازت نہیں ۔

پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے پاکستان پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم کے اعلان کردہ نظام الاوقات کے مطابق 23 مارچ کو منعقد ہونے والے جلسہ عام میں شرکت کی دعوت دی، جسے پی پی پی قیادت نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیا اور اس جلسہ میں بھرپور شرکت کی یقین دہانی کرائی۔

اجلاس نے قرار دیا کہ شاہراہ دستور پر تاریخی جلسے کے ذریعے پارلیمنٹ، آئین اور جمہوریت کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کیاجائے گا، اپوزیشن کے اس جلسے کے موقع پر فسطائی، آمرانہ اور آئین و قانون کے منافی حکومتی اقدامات کے سبب کوئی ناخوشگوار صورتحال پیدا ہوئی تو اس کا ذمہ دار اکثریت کھو دینے والا وزیراعظم اور اس کی حکومت ہوگی۔

اجلاس ارکان قومی اسمبلی کو مجمع سے گزر کر جانے اور آنے کے حکومتی بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے ارکان قومی اسمبلی کو براہ راست دھمکی قرار دیتا ہے، بھرے جلسوں میں سیاسی مخالفین اور ملک کی مرکزی سیاسی جماعتوں کے قومی رہنماﺅں کو بندوق سے نشانہ بنانے کی نہ صرف نااہل وزیراعظم خود دھمکیاں دے رہا ہے بلکہ اس کے وزیر خودکش بمبار بن کر سیاسی مخالفین پر حملہ کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں، یہ رویہ ملک میں انارکی پھیلانے اور خانہ جنگی کرانے کی مذموم سازش ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے، خدانخواستہ کسی قائد، رہنما یا پارٹی رکن کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کے مجرم نااہل وزیراعظم، وفاقی وزرا اور یہ حکومت ہوگی۔

اعلامیے کے مطابق ان اعلانات سے ثابت ہوگیا ہے کہ حکومت ہار چکی ہے، 172 ارکان کی تعداد پورا نہیں کرسکتی، اس لئے ارکان قومی اسمبلی کو پولیس اور دیگر اداروں کی غیرقانونی طاقت کے ذریعے روکنا چاہتی ہے، ہم واضح کرتے ہیں کہ حکومت آرٹیکل 6 کی مجرم بن رہی ہے، آئین شکنوں کو آئین میں دی سزا بھگتنے کے لئے تیار رہنا ہوگا۔

اعلامیے کے مطابق اجلاس تنبیہ کرتا ہے کہ آئین پاکستان اسپیکر کو متعین اور واضح مدت میں اجلاس بلانے کا پابند کرتا ہے، ریکوزیشن جمع ہونے کے بعد 14 دن میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا اور کل 7 ایام کے اندر عدم اعتماد کی تحریک پر ایوان میں رائے شماری کرانا اسپیکر کا آئینی فرض ہے، جس کی خلاف ورزی اور انحراف سے اسپیکر اپنے منصب اور آئین وقانون سے غداری کے مرتکب ٹھہریں گے۔

اجلاس نے خبردار کیا کہ پارلیمانی قواعد و ضوابط کے رول 37(8) کے تحت طلب کردہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں پہلا ایجنڈا آئٹم ’عدم اعتماد کی قرارداد‘ کو پیش کرنا ہے، اسپیکر نے اگر اس سے انحراف کیا تو یہ آئین و قواعد کی صریحاً خلاف ورزی ہوگی۔

اعلامیے کے مطابق متحدہ اپوزیشن الیکشن کمشن آف پاکستان سے پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ فارن فنڈنگ کیس کا فوری فیصلہ دے، جس میں اسٹیٹ بینک کے مصدقہ ریکارڈ سے عمران خان نیازی اور ان کی جماعت مجرم ثابت ہوچکی ہے، پہلے ہی 7 سال ہوچکے ہیں، لہٰذا قانون اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے 15 مارچ کو اس مقدمے کی سماعت پر فیصلہ صادر کیا جائے۔

اعلامیے کے مطابق متحدہ اپوزیشن کے قائدین نے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ نمبرز پورے ہوچکے ہیں، آگے بڑھیں، ہم آپ کے ساتھ ہیں، اپوزیشن لیڈر کی قیادت میں عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے فیصلہ کن قدم اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد اور قائد حزب اختلاف محمد شہباز شریف، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن، سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹوزرداری، اپوزیشن جماعتوں کے قائدین ایمل ولی خان، امیر حیدر خان ہوتی، سردار اختر جان مینگل، محسن داوڑ، علامہ ساجد میر، صاحبزادہ اویس نورانی اور پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتوں کے رہنماﺅں نے وفود کے ہمراہ شرکت کی، امیر کبیر نے نیشل پارٹی جبکہ سینیٹر سردار شفیق ترین نے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کی نمائندگی کی۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.