بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

پاک آسٹریلیا ٹیسٹ سیریز، سست وکٹیں کیوں بنیں؟

پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان راولپنڈی ٹیسٹ کے 5 دن میں صرف 14 وکٹیں گریں، سلو وکٹ بنانے پر کافی لے دے ہوئی ہے۔

نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں دوسرے ٹیسٹ کے پہلے دن بھی بولرز سست وکٹ پر گیند بازی کرکے تھک گئے اور پورے دن میں رن آؤٹ سمیت صرف 3 وکٹیں ہی گر سکیں۔

آسٹریلوی اوپنر عثمان خواجہ نے کراچی ٹیسٹ میں پاکستان کے خلاف سنچری پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

آسٹریلیا نے مقررہ 90 اوورز میں3 وکٹ پر 251 رنز بنائے، عثمان خواجہ 127 رنز بناکر کریز پر موجود ہیں۔

پنڈی ٹیسٹ ڈرا ہوا تو سلو وکٹ بنانے پر ہر طرف سے تنقید ہوئی، آئی سی سی نے معیار سے کم ہونے پر اسے ایک ڈی میرٹ پوائنٹ دے دیا۔

امید کی جارہی تھی کہ کراچی کی وکٹ تھوڑی تیز ہوگی اور میچ کو ’کرکٹ لورز‘ بھی انجوائے کرسکیں گے، لیکن ہوا اس کے برعکس ہی ہے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے وکٹ کیپر بیٹر محمد رضوان نے کہا ہے کہ کوشش ہے کہ آسٹریلیا کو کل جلد آوٹ کرکےبڑا اسکور سیٹ کریں ۔

پورے دن صرف 251 رنز بنے، رن آؤٹ سمیت آسٹریلیا کی3 وکٹیں گریں، ماہرین کرکٹ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ یہ ہار کا خوف ہے یا جیت کا یقین نہیں کہ ایسی وکٹیں تیار کی جارہی ہیں۔

وزیراعظم اور قومی ٹیم کے سابق کپتان عمران خان ہمیشہ سے جارحانہ کرکٹ کے ساتھ تیز وکٹوں کے حق میں رہے ہیں۔

چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) رمیز راجا نے بھی اعتراف کیا کہ راولپنڈی ٹیسٹ کی سلو وکٹ پر شائقین کرکٹ کی تنقید جائز ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹاس کسی کے اختیار میں نہیں ہوتی، کراچی ٹیسٹ نتیجہ خیز ثابت ہوگا۔

پھر ایسا کیوں ہوا؟ پاکستانی بولرز نے ٹیسٹ کے پہلے ہی دن نیگیٹیو بولنگ کیوں شروع کردی؟

پاکستان کے پاس بہترین فاسٹ بولنگ اٹیک ہے، بہترین اسپنرز ہیں تو پھر یہ کس بات کا خوف ہے؟

پاکستان میں 24 سال بعد ہونے والی تاریخی ٹیسٹ سیریز کا مزہ آخر کیوں خراب کیا جارہا ہے؟

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.