بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوکرین کا وہ شہر جو روس کے قبضے میں آتے آتے بچا لیکن ہتھیار نہیں ڈالے

یوکرین، روس جنگ: یوکرین کا شہر خارخیو جو روس کے قبضے میں آتے آتے بچا لیکن ہتھیار نہیں ڈالے

Kharkiv city damaged after Russian attacks

حملے کے ابتدائی دنوں میں مشرقی یوکرین میں خارخیو نے ایک روسی دستے کو پیچھے دھکیل دیا تھا۔ اس کے بعد سے اس شہر پر رات سے روسی بمباری جاری ہے اور درجنوں عام شہری مارے گئے ہیں اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔

بی بی سی کے کوئنٹن سمرویل اور کیمرہ مین ڈیرن کونے نے یوکرینی فوج کے ساتھ یہاں ایک ہفتہ گزارا ہے۔

جنگ میں پہلی چیز جو کھو جاتی ہے وہ وقت ہے۔ محاذ پر کسی نوجوان فوجی سے پوچھیں کہ حملہ کب ہوا یا ہسپتال میں کسی بوڑھی خاتون سے پوچھیں کہ ان کے گھر پر بمباری کب ہوئی تو دونوں شاید آپ کو جواب دیتے وقت کچھ دیر سوچیں گے۔ 24 گھنٹے ہوئے یا 48۔۔۔ وہ کہیں گے اب دن یا رات ایک ہو گئے ہیں۔

یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارخیو میں وقت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ یہ روسی سرحد کے قریب ہے اور یہاں روسی بمباری رکتی نہیں ہے۔ گذشتہ دو ہفتے اب ایک نہ ختم ہونے والا دورانیہ لگتا ہے جبکہ امن کی یاد ایسے ہے جیسے کل کی بات ہو۔

برف سے ڈھکے اس شہر میں 21 سالہ لفٹیننٹ یوگن گرومادسکی پہرے پر کھڑے ہیں۔ قریب میں خندقیں کھودی گئی ہیں۔ ‘روسی بم یہاں سے 900 میٹر کی دوری سے فائر کیے جا رہے ہیں۔

یہاں بمباری گھڑی کی سوئیوں کی حرکت کی طرح ہوتی ہے۔ ہر چند لمحے بعد آواز دی جاتی ہے، ‘ان کمنگ (یعنی آ رہا ہے) یا آؤٹ گوئنگ (یعنی جا رہا ہے)۔‘

ہم یوگن سے ابھی دوپہر ہی کو ملے ہیں مگر مجھے معلوم ہے کہ گذشتہ ہفتے ان کے والد اولگ اسی شہر کا دفاع کرتے ہوئے ہلاک ہو گئے ہیں۔

یوگن اپنے خاندان کی ساتویں نسل ہیں جو فوج میں ہے۔ ان کا پلان ہے کہ ان کی آٹھویں نسل ایک آزاد یوکرین میں فوج میں جائے۔

اب تک کی لڑائی کو بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ‘تخریب کار گروہ ہماری پوزیشن دشمن کو بتا دیتے ہیں۔ ہماری ٹینکوں سے براہِ راست لڑائی ہوتی ہے۔ ہم ان پر مارٹر مارتے ہیں پھر ٹینک ہماری لوکیشن پر بمباری کرتے ہیں۔‘

Smoke billows from a damaged building in Kharkiv

سفید جھنڈے کا استعمال

ہم محاذ میں اگلی صفوں میں ایک سے دوسری پوزیشن پر جا رہے ہیں۔ اپنی بکتربند گاڑی میں، یوگن نے بطور انعام ایک روسی فوجی ٹوپی لٹکائی ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ہم ٹینک شکن میزائلوں سے جوابی فائر کرتے ہیں تو پھر ہمارے پاس روایتی چھوٹے ہتھیار ہوتے ہیں۔ وہ اترتے ہیں اور بھاگتے ہیں۔ ان کے ہمیشے بہت سارے لوگ ہوتے ہیں۔‘

اس ٹرک کے اندر میکسیکو میں ڈے آف دی ڈیڈ کی تقریبات کے ایئر فریشنر موجود ہیں۔ اس پر بنی کھوپڑیاں جھٹکوں پر ہلتی ہیں۔

اگلی سیٹ سے لفٹیننٹ یوکن کہتے ہیں کہ ‘ہم کبھی کبھی سفید جھنڈے کا استعمال کرتے ہیں۔ ہم یہ لہراتے ہیں تو وہ ہمارے قریب آ جاتے ہیں۔ ہم جب قریب پہنچتے ہیں تو ہم انھیں جنگی قیدی بنا لیتے ہیں اور پھر وہ ہمارے فوجیوں پر فائرنگ کی کوشش کرتے ہیں۔‘

یوگن کی پوزیشن پر پیر کو حملہ ہوا تھا (یا شاید اس سے پہلے یوگن کو صحیح سے یاد نہیں)۔ وہ کہتے ہیں ‘آپ فکر نہ کریں ہم تیار ہیں۔‘ ان کا اشارہ امریکی بنے ہوئے لاک ہیڈ مارٹن کمپنی کے ٹینک شکن میزائلوں کی جانب تھا۔

قریب میں برطانوی جدید طرز کے لائٹ ٹینک شکن میزائل بھی پڑے ہیں۔ ان کو بنانے والی کمپنی ساب کی ویب سائٹ پر دعویٰ ہے کہ یہ جدید ترین ٹینکوں کو تباہ کر دیتے ہیں۔

یہاں سردی سخت ہے اور لفٹیننٹ یوگن کے پیروں کے قریب دو کتے کھیل رہے ہیں۔ توگن نے پوما کمپنی کے جوگر پہنے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘یہاں آپ کو تیزی سے بھاگنا پڑ سکتا ہے۔‘

Ukrainian soldier in the snow

یوکرین اس جنگ میں تاحال دفاعی پوزیشن پر ہے۔ ان کی حکومت پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وہ تیار نہیں تھے اور ابھی انھیں اگلی صفوں پر تیزی سے جانا پڑ رہا ہے۔

عام فوج میں سویلین دفاعی فورسز کو شامل کیا جا رہا ہے۔ شہر کے ایک کونے پر میں نے بسوں میں سوار نئے فوجیوں کو پہنچتے دیکھا ہے۔

ان میں سے ایک پوچھتا ہے کہ ‘میرا باڈی آرمر کہاں ہے؟‘ ایک اور افسر چیختا ہے ‘وہ آگے ملے گا۔‘ چند لمحوں بعد وہ چلے گئے۔

کچھ لفٹننٹ یوگن کے یونٹ میں شامل ہوں گے اور ان میں ایک ڈاکٹر بھی ہے جس کا نام ہے ریپر۔ ریپر کہتے ہیں کہ ‘آپ نے گریم ریپر (موت کے فرشتے) کا نام تو سنا ہوگا نا!‘ یہی ڈاکٹر اس گاؤں کی دفاعی صف کے ذمہ دار بھی ہیں۔ یہاں بہت سے گھر روسی شیلنگ میں تباہ ہو چکے ہیں۔

میں نے ریپر سے پوچھا کہ روسی کیسے لڑ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘روسی بیوقوف جانوروں کی طرح لڑتے ہیں۔ وہ ایسے لڑتے ہیں جیسے 1941 ہے۔ وہ تیزی سے مڑ نہیں سکتے۔ بس ان کے دستے سامنے آتے ہیں۔ ان کے پاس لوگ بہت زیادہ ہیں، بہت ٹینک ہیں، بہت گاڑیاں ہیں مگر ہم اپنی زمین کے لیے لڑ رہے ہیں اور ہم اپنی فیملیوں کو بچا رہے ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ کیسے لر،ے ہیں۔ ہم شیروں کی طرح لڑ رہے ہیں اور وہ جیتیں گے نہیں۔‘

اس فیلڈ کچن کے پیچھے ایک کافی کی دکان ہے۔ آرمی باورچی نے ٹوپی پہنی ہوئی ہے۔ وہ مجھے گرم گرم بورشت کا پیلا دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ‘یہ کھٹی کریم کے ساتھ کھاؤ!‘ ساتھ میں مقامی فیکٹری کے بنے کیک اور بسکٹ پڑے ہیں۔

میں 30 سالہ بٹیلیئن کمانڈر سرگئی کے ساتھ بیٹھا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ہم دشمن دیکھتے ہیں، ہم دشمن مارے ہیں۔ کوئی بات چیت نہیں ہے۔‘ وہ مجھے سے پوچھتے ہیں کہ میں کہاں سے ہوں۔ میں نے بتایا تو وہ پوچھنے لگے کہ کیا یہ سچ ہے کہ برطانوی فوجی بطور رضاکار نہیں آئے ہیں۔ بورشت ختم کرتے ہوئے وہ پوچھتے ہیں کہ آپ لوگوں نے ہمیں کون سے طیارے دیے ہیں۔‘

Battalion commander Sergey

مگر یوکرین کے مشرق اور جنوب میں روس پیش قدمی کر رہا ہے۔ روسی فوج کو شاید توقع سے زیادہ مزاحمت مل رہی ہے مگر پھر بھی شہر پر شہر قتح ہو رہا ہے۔

صفِ اول کا جذبہ اپنی جگہ مگر یہاں ہر فوجی کو احساس ہے کہ زمینی کوششیں کافی نہیں ہوں گی اور انھیں فضائی دفاع اور نو فلائی زون کی ضرورت ہے۔

میں بکتر بند گاڑی میں گھسا۔ یہ گاڑی دو ہفتے پہلے شہر کے بینکوں سے پیسے جمع کرنے کے کام کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ اب اسے جنگ میں لگا دیا گیا ہے۔ ہم شہر میں جا رہے تھے اور ایک ایسی عمارت پر پہنچے جو سویت دور کی تھی۔

یہاں ہمارے ملاقات یوجین سے ہوئی جو کہ ایک وائکنگ شخص ہیں۔ ان کی نارنجی رنگ کی داڑھی ہے اور ان کے جسم پر بہت سارے ٹیٹو ہیں۔

Eugene is part of a reconnaissance team

36 سال یوجین کہتے ہیں کہ ‘اگر خارخیو فتح ہو گیا تو سمجھیں پورا یوکرین فتح ہو جائے گا۔‘ وہ ایک انٹیلیجنس ٹیم کا حصہ ہیں وہ کہ قریبی عمارت پر کام کر رہی ہے۔ اس عمارت کے کچھ فلیٹوں پر براہِ راست میزائل آ لگے ہیں اور قریب کھڑی گاڑی ٹکروں میں ہوئی پڑی ہیں۔

خارخیو میں روسی حملوں پر جو ایک چیز نہیں ہے وہ ہے حیرانگی۔ ‘2014 سے ہمیں معلوم ہے یہ وقت آنا ہے۔ شاید ایک سال میں آتا، دس سال میں آتا یا ایک ہزار سال میں آتا۔ یہ وقت آنا ضرور تھا۔‘

24 فروری کو یوجین کو ایک دوست کی کال آئی کہ حملہ ہونے والا ہے۔ ‘پھر مجھے راکٹوں کی آواز آنے لگی۔‘ یہاں موجود ہر کسی کی طرح اس وقت سے وہ گھر نہیں گئے ہیں۔

line

روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج

line

محاذ چھوڑ کر ہم شہر کے وسط میں آئے تو یہ ایسے تھا جیسے کسی نئی دنیا میں جا رہے ہوں۔ متواتر روسی بمباری کی وجہ سے شہر کی 15 لاکھ آبادی بھاگ چکی ہے۔ شہر کے کچھ ہی علاقے ہیں جہاں تباہی نہیں ہوئی۔ صبح صبح فارمیسیوں، بینکوں، سپر مارکیٹوں، اور پیٹرول سٹیشنوں کے باہر قطاریں نظر آتی ہیں۔ پسِ پردہ خارخیو کو چلانے کے لیے بہت بڑی لوجسٹیکل اور انسانی ہمدری کی بنیادوں پر کام ہو رہا ہے۔

کرفیو سے پہلے میں شہر کے ہسپتال نمبر 4 میں ڈاکٹر ایلکزینڈر دھوکوسکی سے ملنے گیا۔ ڈاکٹروں والے سفید کوٹ کے نیچے انھوں نے ایک ٹی شرٹ پہنی ہوئی ہے جس پر امریکی جھنڈا بنا ہوا ہے اور 2015 مائیمی بیچ لکھا ہوا ہے۔ وہ کئی ہفتوں سے گھر نہیں گئے ہیں۔

جب میں نے کہا کہ روس عام شہریوں کو نشانہ نہیں بنا رہا تو وہ ہنسنے لگے۔ پھر وہ مجھے خاموشی کے ساتھ ایک راہ داری میں لے کر گئے جہاں روسی متاثرین کی قطاریں ہیں۔ وہ راہ داری میں اس لیے ہیں کیونکہ قریب میں روسی بم آ کر گرتے ہیں اور مریض بڑی بڑی کھڑکیوں والے وارڈوں میں محفوظ نہیں ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر گھروں میں زخمی ہوئے ہیں۔

Dimitri in intensive care

گراؤنڈ فلور پر بچوں کا انتہائی نگہداشت کا یونٹ ہے۔ آٹھ سالہ دمتری ایک بستر پر لیٹے ہوئے ہیں۔ ان کے چہرے اور ہاتھوں پر خون کے نشان ہیں۔ ان کے چہرے پر جیسے سینکڑوں زخم ہیں، اور ان کی دائیں آنکھ مکمل طور پر بند نہیں ہو رہی۔ چند دن قبل ڈاکٹروں نے ان کے سر سے گولی نکالی ہے۔

توقع کی جا رہی ہے کہ وہ مکمل طور پر صحتیاب ہوں گے مگر اس وقت ان کی حالت نازک ہے، ان کے جسم سے ٹیوبز نکل کر پلاسٹک کی بوتلوں میں جا رہی ہیں۔ ان کی چادر پر گلاب کے پھول بنے ہیں جو ان کی سانسوں کے ساتھ چڑھتی گرتی ہے۔

ولادیمیر پوتن کا کہنا ہے کہ یوکرین سے غیر مسلحہ نکالنا چاہتا ہے مگر وہ ایک ’نو مینز لینڈ‘ بنا رہا ہے۔ رات کو شہر میں مکمل تاریکی ہوتی ہے۔ رات بھر روسی حملوں کی ایک متواتر گونج سنائی دیتی ہے۔

خارخیو ماضی میں یورکین کا دارالحکومت ہوتا تھا۔ اس میں پارک ہیں، گرجا گھر ہیں، عجائب گھر ہیں اور تھیٹر ہیں۔ یہاں طیاروں کی ایک فیکٹری، ٹینک اور ٹربائن بنانے والے بھی ہیں۔

مگر اب یہ سارا شہر محاذِ جنگ کی صفِ اول ہے۔

مگر یہ بات حیران کن نہیں ہونی چاہیے۔ گذشتہ دس سال میں شام کے ذریعے روسی جنگی طریقہ کار میں بہتری لائی گئی ہے یعنی گھراؤ کرو، محاصرہ کرو، اور آبادی کے دل میں دہشت ڈال دو۔

شام کی طرح یوکرین میں شہریوں کو بسوں میں بھر بھر کر ان کے شہروں سے نکالا جا رہا ہے۔ اور روسی فوج آگے سے آگے بڑھ رہی ہے۔

مگر یوکرین ابھی بھی مزاحمت کر رہا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.