بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

روسی ماں: ’میرا بچہ اپنی مرضی سے یوکرین نہیں گیا‘

روس یوکرین تنازع: روسی فوجیوں کی مائیں صدر پوتن کی تسلیوں سے مطمئن نہیں

یوکرین بھیجے جانے والے روسی فوجی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یوکرین میں مارے جانے والے ایک سارجنٹ کی آخری رسومات گزشتہ ہفتے ماسکو میں ادا کی گئیں

صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین بھیجے گئے روسی فوجیوں کی ماؤں کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ہے ’میں جانتا ہوں آپ کس قدر فکرمند ہیں۔‘

لیکن صدر پوتن کے اس بیان کے بعد کچھ فوجیوں کی ماؤں، نانیوں دادیوں، بہنوں اور گرل فرینڈز نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کے بارے میں شدید بے چین ہیں۔ لگتا ہے کہ ان نوجوانوں کو شاید معلوم ہی نہیں تھا کہ انھیں یوکرین کیا کرنے کے لیے بھیجا رہا ہے۔

تمام لوگوں کے اصل نام خفیہ رکھے گئے ہیں۔

جب مرینہ کو ایک ہفتے تک اپنے پوتے کی طرف سے کوئی خبر نہیں ملی، تو انھوں نے بار بار فون ملانا شروع کر دیا۔ اپنے آخری پیغام میں ان کے پوتے نے کہا تھا کہ وہ بیلاروس اور یوکرین کی سرحد پر پہنچ گیا ہے اور جلد ہی گھر لوٹ آئے گا۔ لیکن اس کے بعد اس کی کوئی خبر نہیں آئی ہے اور مرینہ کو بُرے بُرے خیال آ رہے ہیں۔

’میں نے اس کی فوجی یونٹ والوں کو فون کیا تو انھوں نے کہا کہ وہ تو روس سے باہر گیا ہی نہیں۔ میں نے کہا کیا آپ مذاق کر رہے ہیں؟ اس نے خود بیلاروس سے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔ کیا آپ لوگوں کو معلوم بھی ہے کہ آپ کی یونٹ کے فوجی کہاں جا رہے ہیں۔ اس پر انھوں نے فون بند کر دیا اور پھر مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔‘

یہ بھی پڑھیے

مرینہ نے بتایا کہ ان کا پوتا نکیٹا شروع میں لازمی سروس کے لیے فوج میں بھرتی ہوا تھا۔ یاد رہے کہ روس میں 18 سے 27 سال کے تمام مردوں کے لیے ایک سال کے لیے فوجی خدمات سرانجام دینا ضروری ہے۔ تاہم اگر آپ کے پاس کوئی عذر ہو، مثلاً آپ پڑھ رہے ہیں یا چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، تو آپ کو استثنیٰ مل جاتا ہے۔

لیکن مرینہ کہتی ہیں کہ جب نکیٹا نے فوج میں خدمات کا آغاز کیا تو ان دنوں مختلف فوجی یونٹوں کے نمائندے ان کے علاقے میں آئے ہوئے تھے۔ وہ ایسے نوجوانوں کی تلاش میں تھے جو ایک سال کے بعد کنٹریکٹ پر کام کریں اور پیسے کمانے لگیں۔ یاد رہے کہ روسی فوج کے جونیئر ملازمین کی اکثریت کنٹریکٹ یا ٹھیکے پر کام کرنے والے جوانوں پر مشتمل ہے۔

مرینہ کے بقول علاقے میں آئے ہوئے نمائندوں نے نکیٹا کو ’قائل کر لیا۔‘ انھوں نے نکیٹا سے کہا تم جلد ریٹائر بھی ہو سکتے ہو، اس دوران تمہیں باقاعدہ تنخواہ بھی ملتی رہے گی اور تم گاڑی چلانا بھی سیکھ لو گے۔‘

چنانچہ نکیٹا ایک انفنٹری ڈویژن میں ڈرائیور بن گئے، لیکن انھیں جو پیسے ملتے تھے اس سے کوئی اچھی زندگی نہیں گزر رہی تھی۔ روسی کرنسی کی قدر میں شدید کمی سے پہلے بھی ان کی ماہانہ تنخواہ 18 ہزار روبل (240 پاؤنڈ یا 180 ڈالر) تھی۔

اتنے پیسوں میں آپ دیہات میں ہی گزارا کر سکتے تھے۔ انھوں نے اپنی دادی کو بتایا تھا کہ انھیں اپنی وردی اور پٹرول کے پیسے بھی اسی تنخواہ سے دینے پڑتے ہیں۔ بیرکوں میں ان کی رہائش تو مفت تھی لیکن وہاں سردی اتنی شدید ہوتی تھی کہ برداشت کرنا مشکل تھا۔ وہاں نہ تو گیس یا بجلی کے ہیٹر تھے اور نہ ہی گرم پانی ملتا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نکیٹا کو مکان کا کرایہ بھی خود دینا پڑتا تھا۔

اس بات کی تصدیق کرنا مشکل ہے کہ مرینہ نے اپنے پوتے کے حالات کی جو تفصیل بتائی وہ کتنی درست ہے، لیکن جو بے شمار روسی کمپنیاں نوجوانوں کو لازمی فوجی سروس سے بچنے کے گُر بتاتی ہیں، ان کے خیال میں روس میں فوجی ملازمت کو کوئی پرکشش مستقبل نہیں سمجھا جاتا۔

فروری کے وسط میں نکیٹا نے اپنی دادی کو بتایا کہ انھیں یوکرین اور بیلاروس کی درمیانی سرحد پر ’نگرانی کے لیے‘ بھیجا جا رہا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ سنا ہے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو جلد ہی واپس گھروں کو بھیج دیا جائے گا۔

مرینہ کا کہنا تھا کہ 23 فروری کے ٹیکسٹ کے بعد انھیں نکیٹا کی طرف سے کوئی خبر نہیں ملی۔ اس پیغام میں نکیٹا نے لکھا تھا کہ وہ ایک کانسرٹ دیکھنے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 23 فروری کو روس میں عام تعطیل ہوتی ہے۔

مرینہ کو یقین ہے کہ ان کے پوتے کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ انھیں لڑنے کے لیے یوکرین بھیج دیا جائے گا۔

’اس نے کہا تھا کہ یہ تو ایک مشق ہے، اس کے بعد اور مشقیں ہوں گی اور پھر ہم گھر چلے جائیں گے۔‘ یہ وہ فقرہ ہے جو ہم نے فوجیوں کے ایسے بہت سے عزیزوں سے سنا جن سے ہم نے بات کی۔

Joint military drills held by Russia and Belarus, 10 February 2022

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

حملے سے پہلے روسی فوجیں بیلاروس میں مشقیں کر رہی تھیں

ایک اور خاتون، گلینا کا کہنا تھا کہ انھیں صرف اس وقت معلوم ہوا کہ ان کا بیٹا نکولائی یوکرین میں ہے جب نکولائی کی بہن نے فیس بک پر یوکرینی مسلح افواج کے صفحے پر شائع ہونے والی جنگی قیدیوں کی ایک تصویر میں اپنے بھائی کو پہچان لیا۔

جمعے کو امریکی محکمۂ دفاع، پینٹاگون، نے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے اشارتاً یہ کہا تھا کہ یوکرین میں لڑنے والے فوجیوں کی ایک بڑی تعداد جبری بھرتی والوں کی ہے۔ پینٹاگون کے خیال میں یہی وجہ ہے کہ یہ فوجی ناتجربہ کار دکھائی دے رہے ہیں اور انھیں معلوم نہیں کہ ان سے کیا توقع کی جا رہی ہے۔

لیکن لگتا ہے کہ یہ خیال صرف جبری بھرتی کیے جانے والے جوانوں تک محدود نہیں کہ وہ جنگ کی بجائے محض مشقوں پر جا رہے تھے۔ مثلاً مرینہ کے پوتے نکیٹا کی طرح، گلینا کے بیٹے نکولائی نے بھی فوج میں ملازمت کا آغاز لازمی سروس سے کیا تھا، لیکن اب وہ بھی کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہیں۔

گلینا کہتی ہیں کہ نکولائی سے ان کا آخری رابطہ اس سے محض ایک دن پہلے ہوا تھا جب نکولائی کی بہن نے ان کی تصویر دیکھی تھی۔ آخری کال میں انھوں نے اپنی بہن سے کہا تھا کہ ان کی یونٹ یوکرینی سرحد کے قریب تعینات ہے۔

گلینا کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں سمجھ آتی کیا کروں۔ میڈیا اس حقیقت کے بارے میں خاموش ہے کہ ہمارے جوانوں کو (یوکرین میں) پکڑ لیا گیا ہے۔ یا میڈیا کو خبر ہی نہیں۔‘

نکولائی کی گرل فرینڈ کا کہنا تھا کہ انھوں نے بہت منع کیا لیکن ’اپنے ہونے والے بچوں کی خاطر‘ نکولائی نے گزشتہ دسمبر میں کنٹریکٹ کر لیا تھا۔ نکولائی کی والدہ کے بقول ان کے بیٹے کے پاس گھر پر رہتے ہوئے مناسب آمدنی کا اس کے علاوہ کوئی موقع نہیں تھا۔

’میرا بچہ (یوکرین) اپنی مرضی سے نہیں گیا، کمانڈر اِن چیف نے اسے وہاں بھیجا تھا۔‘

’سچ پوچھیں تو مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ سب کس کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک میں کچھ لوگوں کے پاس کھانے کو بھی نہیں۔ مجھے تو اس جنگ، اس فوجی کارروائی کی کوئی سمجھ نہیں آتی۔‘

’میں اپنا بچہ واپس لانے کے لیے کس کے دروازے پر دستک دوں۔‘

ایک اور فوجی جوان کی والدہ کی باتوں میں بھی ہمیں اسی قسم کی بے بسی سنائی دی۔ ان کا بیٹا بھی کنٹریکٹ پر کام کرتا تھا اور اسے بھی ’مشقوں‘ پر بھیجا گیا تھا۔

’اگر میں جانتی کہ وہ کہاں ہے، تو میں اپنا سفری سامان اٹھا کر چل پڑتی اور جا کر ان لوگوں سے رحم کی بھیک مانگتی۔‘

ماضی میں بھی روسی فوجیوں کی مائیں اپنے خیالات کا اظہار کھل کے کرتی رہی ہیں۔ وہ سرکاری حکام سے یہ سوال کرتی رہی ہیں کہ ان کے بیٹوں کو کہاں بھیجا جا رہا ہے، ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا ہے اور مارے جانے والے فوجیوں کی تعداد کیا ہے۔

روس اور چیچنیا کی جنگوں کے خلاف ہونے والے احتجاج میں ان خواتین نے خاص طور اہم کردار ادا کیا تھا۔

Mothers of Russian soldiers, allegedly held prisoners by Chechen separatists, hold the portraits of their sons, 17 August 1995

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

چیچنیا کی جنگ میں بھیجے گئے فوجیوں کی ماؤں نے اپنے بیٹوں کی واپسی کے لیے بھرپور مہم چلائی تھی

لیکن گزشتہ ہفتے منظور کیے جانے والے ایک قانون کے بعد سے ہر کوئی ڈر گیا ہے۔ اس قانون کے مطابق اگر حکومت سمجھتی ہے کہ کوئی شخص یوکرین میں جاری فوجی کارروائی کے بارے میں ’جعلی‘ خبریں پھیلا رہا ہے تو اسے 15 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

اس کے علاوہ روس کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے ذریعے یوکرین کے خلاف بھرپور پراپیگینڈا مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔ یوکرین میں لاپتہ ہونے والے ایک جوان کی بہن کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں یوکرین میں روس کی فوجی کارروائی کا کوئی جواز ضرور ہوگا۔

’اور کچھ لوگ ہمیں یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ (جنگ کے خلاف) جلوس نکالیں۔ مجھے لگتا ہے کہ انھوں (یوکرینیوں نے) اپنا ملک تو تباہ کر لیا ہے اور وہ اب ایک دوسرے ملک کو بھی تباہ کرنا چاہتے ہیں۔‘

روسی پراپیگنڈہ کے جواب میں یوکرین نے بھی ایک بڑی مہم چلا رکھی ہے۔ روس نے جب ’یوکرین کو عسکریت پسندی اور نازی (ازم) سے پاک کرنے کے لیے خصوصی فوجی آپریشن‘ شروع کیا تھا تو اس کے محض تین دن بعد ہی یوکرین نے ’اپنے پیاروں کو تلاش کریں‘ کے نام سے ایک ہیلپ لائن کی تشہیر شروع کر دی تھی۔

چیٹ پلیٹ فارم ’ٹیلیگرام‘ پر چلائی جانے والی اس مہم میں روسی جنگی قیدیوں کی تصویریں دکھائی جا رہی ہیں اور قیدیوں کے پریشان حال خاندانوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنے اپنے عزیز وں کو پہچان لیں۔ اس پلیٹ فارم پر شائع کی جانے والی ہولناک تصویروں کے حوالے سے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

اس حوالے سے یوکرینی صدر کے ایک مشیر کا کہنا تھا کہ ’ہماری جانب سے یہ (مہم) روسی ماؤں کی بھلائی کے لیے‘ شروع کی گئی ہے۔

یوکرین کی وزارتِ داخلہ کے فیس بُک پیج پر موجود ایک اشتہار میں اس مہم کو مزید بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے۔ اس اشتہار میں روسی ماؤں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ (یوکرین) آئیں اور اپنے بیٹوں کو واپس لے جائیں۔ اس کے علاوہ روسی ماؤں کو خاص ہدایات بھی دی گئی ہیں۔

اس اشتہار میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پوتن کے فسطائی (دوستوں) کے برعکس، ہم یوکرینی لوگ ماؤں اور ان کے پکڑے جا نے والے بیٹوں کے خلاف جنگ نہیں کرتے۔‘

یوکرین کی جانب سے شائع کیے جانے والے ان کلمات کے باجود، ہم نے روسی فوجیوں کے جن عزیزوں سے بات کی وہ یا تو روسی کارروائی کے جواز کے حوالے سے کوئی رائے نہیں رکھتے ہیں یا اس کی حمایت کر رہے ہیں۔

تاہم، ایک فوجی کی منگیتر نے ہمیں اپنے فون پر جو ٹیکسٹ دکھائے،ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے منگیتر کو روس کے اس پراپیگنڈے پر کوئی یقین نہیں تھا کہ ہم یوکرینی لوگوں کو ’آزاد‘ کرانے جا رہے ہیں۔

ایک پیغام میں مذکورہ فوجی کا کہنا تھا کہ ’میں کچھ ملکوں میں گھومنے پھرنے جا رہا ہوں۔‘ شاید ان کا اشارہ بیلاروس کی طرف تھا۔ اس کے بعد انھوں نے لکھا کہ ’میں نہتے لوگوں کو بچانے جا رہا ہوں۔ ہاہا‘

جب منگیتر نے پوچھا کہ ’تم مذاق کر رہے ہو ناں‘ تو جواب آیا ’نہیں، میں جنگ پر جا رہا ہوں۔‘

آخر کار گزشتہ ہفتے روس نے ہلاک اور زخمی ہونے والے فوجیوں کی تعداد کا اعتراف کر لیا۔

روس کا کہنا تھا کہ تین مارچ تک اس کے 498 فوجی مارے جا چکے ہیں جبکہ 1597 زخمی ہوئے۔ لیکن یوکرین کا دعویٰ ہے کہ 11 ہزار سے زیادہ روسی فوجی مارے جا چکے ہیں، تاہم آزاد ذرائع سے ہم اس کی تصدیق نہیں کر سکتے۔

line

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.