
لاہور ہائی کورٹ نے 4 سالہ بچے کے اغواء برائے تاوان کے 3 ملزمان کو 5 سال بعد بری کردیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس صادق محمود خرم، جسٹس علی ضیا باجوہ نے 17 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔
عدالت نے 4 سالہ بچے کے اغوا برائے تاوان کیس میں جمشید، ثنا اللہ اور راشد محمود کی عمر قید کی سزائیں کالعدم قرار دے دیں۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ محض ممکنات کی بنیاد پر کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔
عدالتی فیصلے میں ملزمان کی جائیدادیں بحق سرکار ضبط کرنے کا حکم بھی کالعدم قرار دیا گیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پولیس نے مغوی 4 سالہ علی حیدر کو بطور گواہ عدالت میں پیش ہی نہیں کیا، مغوی بچے کو ٹرائل عدالت میں پیش نہ کرنا کیس میں سنجیدہ شکوک پیدا کرتا ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ بچہ چاہے کسی بھی عمر کا ہو اسے بطور گواہ عدالت میں پیش کیا جاسکتا ہے، کمسن بچے کی گواہی کو اہمیت دینے یا دینے کا اختیار عدالت کے پاس ہوتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پراسیکیوشن بلاشک و شبہ اغواء برائے تاوان کا کیس ثابت کرنے میں بری طرح ناکام ہوئی۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ کیس میں پیدا مناسب شک کسی بھی ملزم کو بری کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے، تاوان کی رقم کی ریکوری بھی لگتا ہے پولیس نے خود تیار کی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ تینوں بری افراد پر مدعی عبدالستار کے پوتے حیدر علی کے اغوا کا الزام تھا جبکہ مدعی نے اغواء کا مقدمہ نامعلوم ملزموں کیخلاف 2016 میں درج کرایا تھا۔
Comments are closed.