17 year old hookup hookup Cresskill New Jersey hookup Parsippany NJ dog screening hookup to laptop 2010 free hookup apps

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

پاکستانی طالبعلم کا یوکرین میں زیرزمین پناہ گاہوں سے ہنگری اور پھر پاکستان تک کا مشکل سفر

یوکرین، روس تنازع: یوکرین میں پھنسے پاکستانی طالبعلم کا پاکستان واپسی کا مشکل سفر

  • محمد کاظم
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام

یوکرین پاکستانی طلبہ

جنید حسین کے لیے یوکرین کوئی ایسا ملک نہیں تھا جہاں کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔

ان کے لیے یہ تو وہ ملک تھا جدھر ’غریب ممالک کے طلبہ کے لیے‘ سستی اور معیاری تعلیم ’کسی نعمت سے کم نہیں۔‘

جنید بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں اور یوکرین کے دارالحکومت کیئو کی میڈیکل یونیورسٹی سے وطن واپس پہنچنے والے پہلے پاکستانی طالب علم ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ جب وہ گذشتہ سال دسمبر میں یوکرین پہنچے تو انھیں فوراً یہ احساس ہوا کہ وہاں کا تعلیمی ماحول عمدہ اور لوگ نفیس ہیں۔ یہ جان کر انھیں اور ان کے اہل خانہ کو بہت خوشی ہوئی اور انھوں نے سوچا کہ وہ ڈگری مکمل کر کے ہی وطن واپس لوٹیں گے۔

لیکن جب روسی افواج یوکرین میں داخل ہوئیں تو انھیں اپنے منصوبے ترک رکتے ہوئے پاکستان لوٹنا پڑا۔

انھوں نے بتایا کہ جنگ کے باعث چھ روز انھوں نے خوف کے جس ماحول میں وقت یونیورسٹی ہاسٹل کے تہہ خانوں میں گزارا، اسے ’الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔‘

جنید کے مطابق اس ماحول میں اپنے شہریوں کو نکالنے کے لیے جس طرح دیگر ممالک کے سفارتخانوں کے اہلکار متحرک دکھائی دیے، پاکستان کا سفارتی عملہ اس طرح متحرک نہیں تھا جس کی وجہ سے چند پاکستانی طلبہ کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔

تاہم پاکستان کے وزارت خارجہ کے ترجمان اور پولینڈ میں پاکستان کے سفیر نے طلبہ کی شکایات پر ردعمل دیا ہے کہ محدود عملے کے باوجود اب تک سینکڑوں طلبہ اور شہریوں کو جنگی حالات کے دوران محفوظ طریقے سے نکالا گیا ہے۔

پاکستانی طلبا کے لیے یوکرین میں ایم بی بی ایس کی تعلیم ’نعمت‘ کیوں؟

پاکستان کے دفتر خارجہ کے مطابق یوکرین میں مقیم پاکستانی طلبہ کی تعداد قریب تین ہزار تھی جبکہ پاکستانی برادری سمیت شہریوں کی کل تعداد قریب سات ہزار تھی۔

یعنی یوکرین میں کچھ تو خاص تھا کہ پاکستانی طلبا بہتر تعلیم کے لیے اس ملک کی طرف بھی رُخ کر رہے تھے۔

انھی میں سے ایک بلوچستان کے ساحلی ضلع گوادر سے تعلق رکھنے والے جنید اس سے قبل کراچی میں پرائیویٹ میڈیکل کی مہنگی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ایم بی بی ایس کے تیسرے سال کے طالب علم تھے۔

انھوں نے بہتر تعلیم کے حصول کی خاطر بیرون ملک جانے پر غور کیا تو مالی اعتبار سے سب سے زیادہ بہتر ملک یوکرین کو پایا۔

ان کا کہنا تھا کہ یوکرین نہ صرف غریب ممالک کے طلبہ کے لیے سب سے سستا ملک ہے بلکہ ’اس میں تعلیم کی کوالٹی بھی بہت بہتر ہے۔‘ اور یہ جان کر انھیں بہت خوشی ہوئی کہ ’یورپی یونین کے ممالک میں اس کی ڈگری بھی تسلیم کی جاتی ہے۔‘

طلبہ، یوکرین

،تصویر کا ذریعہANI

ان کا کہنا تھا کہ جنگ سے پہلے ایک یوکرینی ساڑھے چھ روپے پاکستانی کرنسی کے برابر تھا۔ ’اس لحاظ سے یوکرین میں ایم بی بی ایس کرنے کے لیے ہاسٹل میں رہائش، کھانے پینے سمیت تمام تعلیمی اخراجات پر سالانہ چھ سے ساڑھے چھ لاکھ روپے کا خرچہ آ رہا تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یوکرین بلاشبہ دنیا کے غریب ممالک کے طلبہ کے لیے ’ایک نعمت ہے‘ کیونکہ ’اس کی ڈگری کی نہ صرف یورپی ممالک میں اہمیت ہے بلکہ وہاں یورپی ممالک کے مقابلے میں تعلیم انتہائی سستی ہے۔‘

ایک سوال پر جنید نے بتایا کہ چین کی طرح یوکرین میں بیرونی ممالک کے طلبا کے لیے ہوٹلوں یا دیگر جگہوں پر کام کرنے کی بھی پابندی نہیں اور نہ ہی یوکرینی زبان سیکھنے کے لیے ایک سال کی تعلیم حاصل کرنے کی پابندی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یوکرینی زبان وہاں سکھائی جاتی ہے لیکن انگریزی میں تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ یوکرینی زبان سکھانے کے لیے دن میں صرف ایک لیکچر ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

جنید نے کہا کہ جب ان کا یوکرین میں میڈیکل میں داخلہ ہو گیا تو انھوں نے بعض نقصانات کے باوجود یوکرین جانے میں تاخیر نہیں کی۔ ’وہاں مائیگریشن کی صورت میں آپ کو دو سمسٹر نئے سرے سے پڑھنے ہوتے ہیں۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ آپ کا وقت ضائع ہو گا لیکن میں نے کہا کہ اس کی پرواہ نہیں کیونکہ معیاری تعلیم کے لیے اگر کئی سال مزید لگانے پڑیں تو بھی میں تیار ہوں۔‘

ہاسٹل کے تہہ خانوں میں خوف کے سائے سے وطن واپسی تک کا سفر

جنید حسین کا داخلہ یوکرین کے دارالحکومت کیئو کی میڈیکل یونیورسٹی میں ہوا تھا۔

ان کو یوکرین گئے بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا کیونکہ وہ گذشتہ سال دسمبر میں وہاں گئے تھے اور وہاں تیسرے سال میں نئے سرے سے ان کا داخلہ ہوا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ دسمبر میں کیئو میں ایسے کوئی حالات نہیں تھے کہ وہاں فوراً جنگ چھڑ جائے گی۔

‘حتیٰ کی فروری میں جب یوکرین کے سرحدی علاقوں میں جھڑپوں کے واقعات پیش آرہے تھے تو بھی دارالحکومت کیئو اور یوکرین کے باقی حصوں میں ایسا تاثر نہیں تھا کہ پورا ملک جنگ کے خطرے سے دوچار ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہاں یہ عام تاثر تھا کہ معاملات بات چیت کے ذریعے حل ہوں گے۔ اس دوران یوکرین میں پاکستانی سفارتخانے نے یہ پیغام دیا تھا کہ پاکستانی طالبعلم اطمینان اور تسلی کے ساتھ یوکرین میں اپنی تعلیم جاری رکھیں۔

لیکن 24 فروری کی صبح صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی اور جنگ کے بادل پورے ملک پر منڈلانے لگے جس کے بعد سفارتخانے نے انھیں فوراً وطن واپسی کی ہدایت دی۔

جنید نے بتایا کہ 24 فروری کو ’ہم نے محسوس کیا کہ اب پورا یوکرین جنگ کی زد میں آ گیا ہے اور ہر طرف خوف کا ماحول تھا۔‘

’ہم نے جب دیکھا کہ بعض شہروں میں عام علاقے بمباری اور گولہ باری کی زد میں آ رہے تھے تو ہمارے پاس پہلے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے اور اس کے ساتھ یوکرین سے نکلنے کے لیے فوری انتظام کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔‘

ان کی یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں سب سے محفوظ جگہ زیر زمین بنے جم اور غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے بنائے گئے کمرے اور ہال وغیرہ تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ایک طرف یوکرینی طالب علم اپنے گھروں یا دیگر محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہو گئے تو وہاں پاکستانی سمیت دیگر غیر ملکی طلبا ’اپنے بستروں کو لے کر ہاسٹلوں کے زیرِ زمین مقامات پر منتقل ہو گئے۔‘

’ہم دن کو صرف کھانا بنانے یا ضرورت کی کسی اور چیز کے لیے ہاسٹل کے کمروں میں آتے تھے۔ لیکن اس کے بعد زیادہ تر دن رات زیر زمین مقامات پر ہوتے تھے۔‘

یوکرین پاکستانی طلبہ

جنید کہتے ہیں کہ ’خوشی اور خوف ایسی کیفیت ہوتی ہیں جنھیں بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں ہوتے ہیں۔ اس لیے وہاں 24 فروری سے یکم مارچ تک ہم غیر ملکیوں کے لیے جو خوف کا ماحول تھا، اسے الفاط میں بیان کرنا مشکل ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یکم مارچ کے لیے امید کی کرن اس وقت روشن ہوگئی جب 73 غیر ملکی طلبا کے ایک گروپ کے نکلنے کا انتظام ہو گیا جس میں اُن سمیت دو پاکستانی بھی تھے۔

رات کے اندھیرے میں ہنگری کی سرحد پر پہنچنے تک کا مشکل سفر

یکم مارچ کو روسی فوجی قافلہ کیئو کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا جبکہ دوسرے اہم شہر خارخیو میں روسی میزائل حملے جاری تھے۔

اسی روز جنید سمیت 73 غیر ملکیوں کے گروہ نے کیئو سے نکلنے کا منصوبہ بنایا جس سے ’ہماری خوشی کی انتہا نہیں رہی۔‘

line

روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج

line

جنید بتاتے ہیں کہ ‘ہماری روانگی کے لیے دو بسوں کا انتظام کیا گیا جن کے ذریعے ہم نے یوکرین کے شہر وینتسیا پہنچنا تھا اور یہ شہر بس اور ٹرین کے ذریعے دارالحکومت سے تقریباً چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔‘

ان سب نے خوشی خوشی اپنا سامان باندھ لیا اور صبح سویرے بسوں کے ذریعے نکلنے کے لیے تیار تھے کہ اچانک دونوں بسوں کے ڈرائیوروں نے یہ کہہ کر جانے سے انکار کیا کہ ’صورتحال خراب ہو گئی ہے اس لیے وہ نہیں جا سکتے ہیں۔ آپ لوگ ٹرینوں کے ذریعے جائیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بسوں کے انکار کی وجہ سے ’ہماری خوشی ایک مرتبہ پھر مایوسی میں تبدیل ہو گئی کیونکہ ٹرینوں پر بہت زیادہ رش تھا‘ جس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ یوکرینی شہری خود بڑی تعداد میں یورپی ممالک کی جانب نکل پڑے تھے۔

جنید نے بتایا کہ جب وہ وینتسیا سٹی جانے کے لیے کیئو کے ریلوے سٹیشن پہنچے تو ’وہاں انسانوں کا ایک جم غفیر تھا۔‘

’ہمارے پہنچنے کے ساتھ وہاں جو ٹرین نکلنے کے لیے تیار تھی اس پر رش اتنا زیادہ تھا کہ کچلے جانے یا کسی اور نقصان کے خدشے کے پیش نظر ہم 73 غیر ملکیوں نے فیصلہ کیا کہ دوسری ٹرین کا انتظار کیا جائے اور اسی طرح دوسری ٹرین میں ہماری روانگی ممکن ہوئی۔‘

وہ بالاخر اس شہر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں رات کو وہاں کی میڈیکل یونیورسٹی میں ان کے لیے قیام اور طعام کا انتظام کیا گیا تھا۔

رات کے قیام کے بعد وہ صبح ساڑھے گیارے بجے ہنگری کی سرحد کے لیے روانہ ہوئے اور رات کو ڈھائی بجے ہنگری کی سرحد پر پہنچے۔

انھوں نے بتایا کہ ’دیگر ممالک کے سفارتخانوں کی کوششوں کی وجہ سے ہمیں ہنگری میں داخل ہونے میں کسی بھی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور ہنگری پہنچتے ہی ہم سب نے سکھ کا سانس لیا کیونکہ ہم خوف کے ماحول سے نکل چکے تھے۔‘

’پاکستان کے علاوہ تمام ممالک کا سفارتی عملہ موجود تھا‘

جنید نے بتایا کہ ان کے گروہ میں ان سمیت دو پاکستانیوں کے علاوہ سب انڈین شہری تھے۔ ’کیئو میڈیکل یونیورسٹی میں مجموعی طور پر سات پاکستانی طالب علم تھے باقی غیر ملکیوں میں سے زیادہ تر کا تعلق نائجیریا، انڈیا اور بنگلہ دیش وغیرہ سے تھا۔‘

’جب ہم ہنگری کی سرحد پر پہنچے تو وہاں ہمارے ملک کے سوا باقی تمام ممالک کے سفارتی عملے کے لوگ اپنے طلبہ کی مدد کے لیے موجود تھے۔‘

ان کے بقول دوسرے ممالک کے سفارتکاروں کی کوششوں کی وجہ سے ہنگری کی جانب سے ان کے لیے مفت دو بسوں کے انتظام کے علاوہ کھانے کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔ ان بسوں کے ذریعے انھیں ایک ریلوے سٹیشن پہنچایا گیا جہاں ٹرین روانگی کے لیے تیار تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہم ہنگری کی سرحد سے ٹرین کے ذریعے اس کے شہر بڈاپسٹ پہنچے اور ہم نے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی پاکستان کے سفارتخانے کے عملے کو اپنی روانگی کے بارے میں بتایا تھا جس پر ہمیں بتایا گیا کہ وہاں آپ کو لینے کے لیے سفارتی عملے کے لوگ آ جائیں گے۔‘

’(مگر) جب ہم نے وہاں ریلوے سٹیشن کے گیٹ کو کراس کیا تو اس وقت تک سفارتخانے سے کوئی وہاں نہیں پہنچا تھا بلکہ ہمیں پندرہ منٹ تک سفارتی عملے کے رکن کے پہنچنے کے لیے سٹیشن کے باہر انتظار کرنا پڑا۔‘

یہ بھی پڑھیے

طلبہ، یوکرین

،تصویر کا ذریعہANI

ان کے بقول باقی ممالک کے سفارتخانے اپنے طلبہ کے لیے فری ایئر ٹکٹ کا انتظام کر رہے تھے لیکن ہمارے سفارتخانے کی جانب سے کوئی ایسا انتظام نہیں تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہنگری میں سفارتخانے کے اہلکار نے ہمیں ایک ہوٹل پہنچایا اور سفارتخانے کی جانب سے ہمیں بتایا گیا کہ صرف تین دن تک آپ لوگ ہوٹل میں فری رہ سکتے ہو اس کے بعد قیام کی صورت میں اخراجات کا انتظام خود برداشت کرنا پڑے گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم تو یوکرین سے اپنی جان بچا کر ہنگری پہنچنے میں کامیاب ہو گئے تھے اور اس خوف کے ماحول میں ہم کہاں سے پہلے اپنے لیے ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں تین دن بعد یورپ کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں قیام کا انتظام کرسکتے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ‘میری خوش قسمتی یہ تھی کہ میرا رابطہ گوادر سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سے ہوا جنھوں نے فوری طور پر میرے پاسپورٹ منگوا کر اپنی جانب سے میرے ٹکٹ کا انتظام کرایا اور اس طرح میں ہوٹل کے اضافی اخراجات سے بچ گیا اور وہاں سے ترکی کے شہر استنبول اور پھر وہاں سے کراچی پہنچا۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’میرا دوسرا پاکستانی ساتھی لاہور سے تھا۔ جس طرح میرے لیے ٹکٹ کا فوری انتظام ہوا اسی طرح ان کے لیے نہیں ہوسکا۔ ان کے خاندان کے افراد کو ٹکٹ کا انتظام کرنے میں کچھ دیر لگی اس لیے وہ میرے بعد پاکستان پہنچا۔‘

ایک سوال پر جنید حسین نے بتایا کہ جب ہنگامی صورتحال ہو تو وہاں کسی کو سو فیصد اس کے اطمینان کے مطابق سہولیات پہنچانا ناممکن سی بات ہے لیکن ’ہم نے محسوس کیا کہ ہمارے ساتھ جو دیگر غیر ملکی طلبہ تھے ان کے سفارتخانے ان کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی کے لیے بہت زیادہ متحرک تھے۔‘

طلبہ کی شکایات پر وزارت خارجہ کے حکام کا موقف کیا ہے؟

ان شکایات کے ردعمل میں بی بی سی نے اسلام آباد میں وزارت خارجہ کے ترجمان عاصم آئی احمد سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے سفارتخانوں نے اب تک سینکڑوں لوگوں کو وہاں سے محفوظ طریقے سے نکالا ہے۔‘

’جب حالات جنگ کے ہوں تو وہاں بعض لوگوں کو انفرادی طور پر کچھ شکایات ہوتی ہوں گی لیکن محدود عملے کے باوجود ہم نے وہاں سے اب تک 16 سو لوگوں کو محفوظ طریقے سے نکالا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ طالب علم کو ہنگری میں پاکستانی سفارتی عملے نے بڈاپسٹ سے گاڑی میں پِک کیا اور تین دن تک وہاں ہوٹل میں ٹہرایا جہاں سے وہ بخیریت وطن واپس پہنچے۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان کی جو شکایات ہیں ان کے بارے مزید معلومات حاصل کی جا رہی ہیں اور جو کچھ بھی حاصل ہوگا اسے شیئر کیا جائے گا۔

جبکہ پاکستان کے سفیر نوئیل کھوکھر نے اسلام آباد میں بی بی سی کی نمائندہ منیزے انور کو بتایا کہ ’ہم نے یوکرین سے اپنے شہریوں کے انخلا کا ایک جامع منصوبہ بنایا تھا۔ مشرقی سائیڈ میں خارخیو سمیت دو بڑے شہروں میں اپنے نمائندے بٹھائے تھے جو لوگوں سے رابطے کرتے اور وہاں پہنچنے پر ان کا استقبال کر کے ان کو ٹرین پر بٹھاتے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ان ٹرینوں سے ہمارے بچے اور لوگ جہاں پہنچتے تھے وہاں ہم نے اپنی بسیں رکھی تھیں جو انھیں سرحدی پوائنٹس تک لے جاتی تھیں خواہ وہ پولینڈ کا تھا یا ہنگری کا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’وہاں کی ویڈیوز بھی آپ نے دیکھی ہوں گی کہ ہمارے لوگ نہ صرف ہمارے شہریوں بلکہ دوسرے ممالک کے شہریوں کی بھی مدد کررہے ہیں۔‘

پاکستانی سفیر کا کہنا تھا ’ہم نے کیئو سے بھی 24 فروری کے بعد دو بسیں چلائیں جبکہ وہاں سے جو لوگ ٹرینوں کے ذریعے پہنچتے تھے ان کو وہاں سے آگے پہنچایا جاتا تھا۔‘

انھوں نے بتایا تھا کہ ’سومی میں ہمارے نو بچے پھنسے تھے جنھیں ہم نے نکالا اور اب وہ پولینڈ کی جانب آرہے ہیں۔۔۔ ہمارے سفارتخانوں کے لوگ مسلسل لوگوں سے رابطے میں رہے ہیں اور بسوں کے ذریعے لوگوں کو مختلف بارڈرز پوائنٹ پر پہنچاتے رہے ہیں۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگر اگر کوئی بچہ اپنی مرضی سے ان استقبالیہ پوائنٹس پر نہیں گیا اور دوسروں لوگوں کے ساتھ گیا تو یہ ان کا ذاتی انتخاب ہوگا جس کے بارے میں وہ کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں۔ تاہم ’جن جن پوائنٹس پر ہم نے بندے رکھے تھے اور اگر اس بچے نے ان میں سے کسی سے رابطہ کیا ہے اور اگر ان میں سے کسی نے ان کی مدد نہیں کی ہے تو ان کا نام بتادیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’جب حالات خراب ہو گئے تھے تو ہم نے تمام بچوں کو بتایا تھا کہ وہ اپنی رجسٹریشن کرائیں جس پر 596 طلبہ نے رابطہ کیا جن کو ہم نے واٹس ایپ گروپ میں ڈالا اور پھر ہم نے ان کو وہاں سے نکالا۔‘

نوئیل کھوکھر نے کہا کہ لوگوں کی زیادہ تر ترجیح پولینڈ تھی جس پر لوگوں کو پولینڈ منتقل کیا۔ ’ابھی آپ نے دیکھا کہ 235 لوگ پولینڈ سے پاکستان گئے حالانکہ اس فلائٹ میں 300 لوگوں کی گنجائش تھی۔‘

نے کہا کہ بعض بچوں نے شاید اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی اور اپنی مرضی سے کسی کے ساتھ چلے گئے اور بعد میں شکایتیں کیں جو کہ ایک نامناسب سی بات ہے۔

یوکرین پاکستانی طلبہ

’یوکرین سے روانگی پراور گوادر پہنچنے پر آنکھیں نم‘

انھوں نے کہا کہ یوکرین جاتے ہوئے میرے ذہن میں وہاں کے لوگوں کے بارے میں کئی قسم کے خدشات تھے اور یہ سوچ رہا تھا کہ ہم جیسے غیرملکیوں کے ساتھ معلوم نہیں ان کا سلوک کیسے ہو گا۔

انھوں نے بتایا کہ ’کسی جگہ پر تین ماہ کا قیام وہاں کے لوگوں کو جانچنے کے لیے زیادہ عرصہ نہیں ہوتا لیکن اس مختصر عرصے میں ہم نے ان کو انتہائی شفیق اور مہذب پایا۔ ان کی تہذیب اور شفقت کو دیکھ کر ہمیں محسوس ہوا کہ یہاں ہمیں اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ اور بہت کچھ سیکھنے کو موقع ملے گا لیکن وہاں پر جنگ مسلط کیے جانے کی وجہ سے ہمیں واپس آنا پڑا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ہنگامی حالات کی وجہ سے جن یوکرینیوں سے شناسائی ہوئی تھی ان سے نکلتے وقت تو ہم نہیں مل سکے لیکن جہاں تک ہم غیر ملکی دوست تھے ایک دوسرے سے جدا ہوتے وقت سب غمگین اور ایک دوسرے سے جدائی کے باعث سب کی آنکھیں نم تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایک دن کراچی میں قیام کے بعد جب پیر کو میں گوادر کے لیے نکلا تو ایک حادثے کے باعث روڈ بند ہونے کی وجہ سے مقررہ وقت پر گوادر نہیں پہنچ سکا۔ ’جب رات کو کئی گھنٹے کی تاخیر سے گھر پہنچا تو گھر والوں کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.