یوکرین، روس تنازع: پوتن کے قریب ترین ساتھی کون ہیں اور یوکرین جنگ سے متعلق انھیں مشورے کون دے رہا ہے؟
- پال کربی
- بی بی سی نیوز
ولادیمیر پوتن بظاہر ایک تنہا شخصیت معلوم ہوتے ہیں جو اپنے ملک کو ایک انتہائی خطرناک جنگ کی جانب لے جا رہے ہیں جو ان کے ملک کی معیشت تباہ کر سکتی ہے۔
اور شاید ہی وہ کبھی اتنے تنہا نظر آئے ہوں جتنے وہ حالیہ دو مواقع پر نظر آئے جب ان کی اپنے قریبی مشیران سے ملاقات کی تصاویر میں انھیں سب سے دور بیٹھے دیکھا گیا۔
بطور کمانڈر ان چیف اس حملے کی حتمی ذمہ داری ان ہی کی ہے مگر انھوں نے ایک انتہائی وفادار ساتھیوں ہر انحصار کیا ہوا جن میں سے بیشتر نے اپنے کریئر کا آغاز ہی فوجی ملازمت سے کیا تھا۔
سوال یہ ہے کہ اپنی صدارت کے اہم ترین موڑ پر صدر پوتن کس کی سنتے ہیں اور کسے ان کی توجہ حاصل ہے؟
اگر پوتن کسی کی بات پر کان دھرتے ہیں تو وہ ان کے پرانے ساتھی سرگئی شویگو ہیں جو کہ پوتن کے یوکرین کی فوجی استعداد ختم کرنے اور روس کو مغربی عسکری خطرے سے تحفظ فراہم کرنے کی بات کرتے ہیں۔
شویگو صدر پوتن کے ساتھ شکار کھیلنے کے لیے سربیا جاتے ہیں اور ماضی میں انھیں بطور ایک ممکنہ جانشین بھی دیکھا گیا ہے۔
مگر جب آپ اس میز پر بیٹھے ان کی یہ تصویر دیکھتے ہیں، جہاں وہ فوج کے سربراہ کے ساتھ بیٹھے ہیں تو سوال یہی بنتا ہے کہ صدر ان کے آخر کتنے قریب ہیں؟
یہ تصویر روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے تین دن بعد لی گئی تھی۔ اس وقت روس کو غیر متوقع یوکرینی مزاحمت اور قدرے پست فوجی حوصلے کا سامنا تھا۔
عسکری تنازعات کی ماہر ویرا میرانووا کا کہنا ہے کہ ‘شویگو کو ابھی کیئو میں مارچ کر رہے ہونا تھا، وہ وزیر دفاع ہیں، ان کا کام تھا کہ وہ ابھی جیت گئے ہوتے۔‘
شویگو کو 2014 میں کریمیا پر قبضہ کرنے کا اعزاز دیا جاتا ہے۔ وہ ملٹری انٹیلیجنس یونٹ جی آر یو کے بھی سربراہ تھے جن پر سنہ 2018 میں برطانیہ میں دو سابق ایجنٹوں اور 2022 میں سائبیریا میں ایلکسی نوالنی کو زہر دینے کے الزامات بھی ہیں۔
ویرا میرانووا کہتی ہیں کہ کلوز اپ میں تو یہ تصویر اور بھی بری لگتی ہے۔ ‘وہ ایسے لگ رہے ہیں کہ کسی کی موت ہوئی ہے اور یہ ایک جنازہ ہے۔‘
یہ تصویر عجیب لگ رہی ہوگی تاہم روسی سیکیورٹی ماہر اور مصنف اینڈرے سوداتوو کا ماننا ہے کہ وزیرِ دفاع ابھی بھی سب سے بااثر شخص ہیں جن کی صدر پوتن سنتے ہیں۔
‘شویگو نہ صرف فوج کے ذمہ دار ہیں، وہ جزوی طور پر نظریات کو بھی کنٹرول کرتے ہیں اور روس میں نظریات زیادہ تر تاریخ کے بارے میں ہیں اور وہ بیانیہ کنٹرول کرتے ہیں۔‘
بطور چیف آف سٹاف یہ جنرل گراسیموف کا کام تھا کہ وہ یوکرین پر حملہ کریں، جلد یہ کام مکمل کریں، اور اس حوالے سے شاید ان کی پرفارمنس میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔
انھوں نے ولادیمیر پوتن کے تمام عسکری معرکوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سنہ 1999 میں انھوں نے چیچنیا کے محاذ پر فوج کی قیادت کی اور یوکرین کی منصوبہ بندی میں بھی وہ پیش پیش تھے اور گذشتہ ماہ بیلاروس میں انھوں نے فوجی مشقوں کی قیادت بھی کی تھی۔
روسی امور کے ماہر مارک گیلیوتی انھیں نہ مسکرانے والے سنجیدہ شخص کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ جنرل گراسیموف نے کریمیا میں فوجی آپریشن میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔
کچھ اطلاعات کے مطابق یوکرینی حملے کے قدرے برے آغاز اور فوجیوں میں پست حوصلے کی وجہ سے انھیں اب کسی حد تک سائڈ پر کر دیا گیا ہے۔
مگر اینڈرے سوداتوو کا خیال ہے کہ یہ صرف کچھ لوگوں کی خواہش ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘پوتن سڑکوں پر بیٹالیئن کنٹرول نہیں کر سکتا، یہ ان (جنرل گراسیموف) کا کام ہے۔
‘اور اگرچہ وزیر دفاع کو اپنا یونیفارم شاید پسند ہو مگر ان کے پاس کوئی فوجی تربیت نہیں ہے، اور انھیں پیشہ وارانہ فوجیوں پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔‘
یونیورسٹی کالج لندن میں روسی سیاسیات کے اسوسی ایٹ پروفیسر بین نوبل کا کہنا ہے کہ ‘پاتروشیو انتہائی جارحانہ سوچ رکھتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ مغربی کئی سالوں سے روس کو تباہ کرنا چاہ رہا ہے۔‘
وہ پوتن کے وفاداروں میں سے ایک ہیں جو کہ پوتن کے ساتھ سنہ 1970 کی دہائی سے سینٹ پیٹرزبرگ سے ہیں جب اس شہر کو لیننگریڈ کہا جاتا تھا۔
سکیورٹی امور کے دیگر دو ماہر سکیورٹی سروس کے چیف ایلیگزینڈر بورتنیکوف اور غیر ملکی انٹیلیجنس کے سربراہ سرگئی ناریشکن ہیں۔ صدر کے قریب ترین ساتھیوں کو ’سلویکی‘ یعنی عمل کروانے والے کہا جاتا ہے مگر تینوں سب سے زیادہ قریبی ہیں۔
اور شاید ہی کوئی ہو گا جو صدر پوتن پر نکولائی پاتروشیو جتنا اثر و رسوخ رکھتا ہو گا۔ نہ صرف وہ ان کے ساتھ سوویت دور میں پرانی کے جی بی میں کام کرتے رہے ہیں۔
روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج
بی بی سی لائیو پیج: یوکرین پر روس کا حملہ، تازہ ترین صورتحال
انھوں نے سنہ 1999 سے سنہ 2008 میں اس کے بعد کی انٹیلیجنس تنظیم ایف ایس بی میں پوتن کے بعد اس کے سربراہ کا عہد بھی سنبھالا تھا۔
حملے سے تین روز قبل روسی سکیورٹی کونسل کے ایک عجیب اجلاس میں پاتروشیو نے اپنا یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ امریکہ کا ہدف روس کو توڑنا ہے۔
یہ اجلاس ایک عجیب ہی مظاہرہ تھا جب صدر نے دربار سجایا ہوا تھا اور ان کی سکیورٹی ٹیم کا ایک ایک شخص ڈائس پر آ کر یوکرین میں روسی باغیوں کو خودمختار ریاست تسلیم کرنے کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا۔
بین نوبل کہتے ہیں کہ اس میں نکولائی پاتروشیو نے ٹیسٹ پاس کیا تھا۔ ‘وہ ہی ہیں جو جنگ کی آواز اٹھا رہے تھے اور ایسا لگتا ہے کہ پوتن نے ان کے قدرے سخت گیر موقف کو تسلیم کیا ہے۔‘
کریملن کے امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر پوتن اپنی سکیورٹی سروسز سے ملنے والی معلومات پر کسی اور بھی ذرائع سے آنے والی معلومات کے مقابلے میں زیادہ یقین کرتے ہیں اور ایلگزینڈر بوتنیکوف ان کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔
یہ بھی پرانی کے جی بی کے ساتھی ہیں اور انھوں نے نکولائی پاتروشیو کے بعد ایف ایس بی کی کمان سنبھالی تھی۔
یہ دونوں افراد صدر کے انتہائی قریب ہیں اور جیسا کہ بین نوبل کہتے ہیں ‘ایسا نہیں ہے کہ ہم مکمل اعتماد کے ساتھ کہہ سکیں کہ کون فیصلے کر رہا ہے۔‘
ایف ایس بی کا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کافی اثر و رسوخ ہے اور اس کی اپنی خصوصی فورس بھی ہے۔
اینڈرے سوداتوو کے خیال میں وہ اہم ہیں مگر ان کا کام صدر کو چیلنج کرنا نہیں ہے یا دیگر ساتھیوں کی طرح کھل کر مشورہ دینا نہیں ہے۔
لینن گریڈ کے پرانے جاسوسوں کی طرح سرگئی نارشکن صدر پوتن کے کریئر میں تقریباً تمام وقت ہی ان کے ساتھ رہے ہیں۔
تو پھر اس ڈانٹ کو کس نظر سے دیکھا جائے جو انھیں سکیورٹی کونسل کے اجلاس کے دوران پڑی جب وہ تھوڑے آف میسج چلے گئے تھے۔
جب ان سے صورتحال کے بارے میں رائے مانگی گئی تو وہ کچھ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے اور صدر نے انھیں روک کر کہا کہ ‘ہم اس بارے میں بات نہیں کر رہے۔‘
یہ ویڈیو ایڈٹ کی گئی تھی اور اس ڈانٹ کا اس میں شامل رہنے کا مطلب ہے کہ صدر نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنی برہمی کا اظہار سرِعام کرنا چاہتے تھے۔
بین نوبل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘یہ حیران کن تھا۔ وہ کافی کنٹرول میں لگ رہے تھے تو اس لیے لوگ یہ ضرور پوچھیں گے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے۔‘
تاہم اینڈرے سوداتوو کہتے ہیں کہ پوتن کو اپنے قریبی ساتھیوں کے درمیان مقابلے اور گیمز کا شوق ہے، اور اس لیے انھوں نے نارشکن کو بظاہر ایک بیوقوف دکھایا۔
سرگئی نارشکن 1990 کی دہائی میں سینٹ پیٹرزبرگ سے پوتن کے ساتھ ہیں اور پھر پوتن کے اقتدار میں آنے کے بعد وہ ان کے قریب تھے اور پارلیمنٹ کے سپیکر بھی بنے۔
وہ روسی تاریخ سے متعلق سوسائٹی کے سربراہ بھی ہیں اور سوداتوو کے مطابق انھوں نے پوتن کو حالیہ کارروائی سے متعلق نظریاتی بنیادیں فراہم کی ہیں۔
گذشتہ برس انھوں نے بی بی سی کے ماسکو نامہ نگار کو ایک انٹرویو دیا جس می انھوں نے اس بات سے انکار کیا کہ روس نے زہر پلا کر دشمنوں کو مارنے یا سائبر حملوں کی کوششیں کی ہیں یا کسی اور ملک کے انتخابات میں مداخلت کی ہے۔
گذشتہ 18 سال سے وہ روس کے سینیئر ترین سفارتکار ہیں اور روس کا موقف دنیا کو پیش کر رہے ہیں، چاہے فیصلوں میں ان کا اہم کردار اتنا اہم نہیں مانا جاتا۔
71 سالہ سرگئی لیوروف ایک اور ثبوت ہیں کہ ولادمیر پوتن اپنے ماضی کے ساتھیوں پر انحصار کرتے ہیں۔
وہ ایک چالاک شخص ہیں، گذشتہ ماہ انھوں نے برطانوی وزیرِ خارجہ کا مذاق اس لیے اڑایا کیونکہ انھیں روسی جغرافیہ نہیں معلوم تھا، اور ایک سال قبل یورپی یونین کے وزیرِ خارجہ کا بھی مذاق اڑایا۔
مگر یوکرین کے معاملے پر انھیں کافی عرصہ پہلے سائڈ لائن کر دیا گیا تھا اور ان کی ساکھ کے برعکس انھوں نے سفارتی حل پر زور دیا تھا اور صدر نے انھیں اس معاملے سے دور کر دیا ہے۔
اور انھیں اس سے بھی کوئی فرق شاید نہیں پڑا ہو گا کہ جب اقوام متحدہ میں ان کی تقریر کی باری آئی تو تقریباً ساری انسانی حقوق کی کونسل اٹھ کر چلی گئی۔
پوتن کے قریبی ساتھوں میں واحد خاتون کا چہرہ والنتینا متوینکو کا ہے۔ انھوں نے ایوان بالا سے روسی فوجوں کی بیرونی ملک محاذ پر جانے کی منظوری لینے میں اہم کردار ادا کیا۔
والنتینا متوینکو پوتن کی ایک اور ایسی ساتھی ہیں جو ان کی سینٹ پیٹرزبرگ کے دور سے وفادار ہیں جنھوں نے 2014 میں کریمیا پر قبضے میں بھی ان کا ساتھ دیا تھا۔
مگر بہت سے لوگ انھیں فیصلہ ساز نہیں مانتے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کوئی بھی مکمل یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ فیصلے کون کر رہا ہے۔
روس کی سکیورٹی کونسل کے ہر رکن کی طرح ان کا کردار ایک مصالحاتی عمل کا تاثر دیتا ہے حالانکہ اس کا قوی امکان ہے کہ روسی صدر پہلے ہی اپنے فیصلے کر چکے ہوتے ہیں۔
صدر پوتن کے سابقہ ذاتی محافظ وہ اب روس کی نیشنل گارڈ روسواردیہ کے سربراہ ہیں۔ یہ تنظیم صدر پوتن نے چھ سال قبل ہی تشکیل دی تھی اور یہ کسی رومی بادشاہ کی ذاتی فوج کا عکس لگتی ہے۔
اپنے ہی ذاتی محافظ کو اس کا سربراہ بنا کر صدر پوتن نے اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ تنظیم ان کی وفادار رہے اور وکتور زولوتوف نے اسے بڑھا کر اس میں چار لاکھ افراد شامل کر لیے ہیں۔
ویرا میرنووا کا ماننا ہے کہ روس کا اصل پلان یہ تھا کہ چند ہی روز میں یہ حملہ مکمل کر لیا جائے اور جب وہ یہ نہیں کر سکے تو روس کی نشینل گارڈ نے اس حملے کی سربراہی اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ نیشنل گارڈ کے سربراہ کی کوئی عسکری تربیت نہیں ہے اور کیونکہ ان کی فورس کے پاس کوئی ٹینک نہیں ہیں، وہ خود بھی خطرے میں ہیں۔
اس کے علاوہ پوتن کس کی سنتے ہیں؟
وزیراعظم میکائل مششتن کو معیشت سنبھالنے کا مشکل کام دیا گیا ہے اور انھیں جنگی معاملات میں کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔
ماسکو کے میئر سرگئی سوبیانن اور ریاستی آئل کمپنی کے سربراہ ایگور سیچن صدر کے قریب ہیں۔ اس کے علاوہ ارب پتی بھائی بورس اور آرکیڈی روتنبرگ صدر پوتن کے بچپن کے دوست ہیں۔ سنہ 2020 میں فوربز جریدے نے انھیں روس کی امیر ترین فیملی قرار دیا تھا۔
Comments are closed.