بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوکرین دنیا کی تیسری بڑی جوہری طاقت سے موجودہ حالت تک کیسے پہنچا؟

یوکرین، روس تنازع: یوکرین دنیا کی تیسری بڑی جوہری طاقت سے موجودہ حالت تک کیسے پہنچا؟

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

روسی فوج یوکرین میں پیش قدمی کرتے ہوئے

شاید آپ کو یہ بات عجیب لگے لیکن سرد جنگ کے دوران، کرۂ ارض پر امریکہ اور روس کے بعد تیسری بڑی ایٹمی طاقت برطانیہ، فرانس یا چین نہیں بلکہ یوکرین تھا۔

سنہ 1991 میں سویت یونین (یو ایس ایس آر) کے خاتمے کے ساتھ، نو آزاد ملک (یوکرین) کو وراثت میں تقریباً تین ہزار جوہری ہتھیار ملے تھے جو ماسکو نے اِس کی سرزمین پر چھوڑے تھے۔

مگر تین دہائیوں بعد یوکرین اب جوہری ہتھیاروں سے پاک ہو گیا ہے۔

گذشتہ ماہ 24 فروری کو یوکرین پر روس کے حملے کے بعد یوکرین ایک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ولادیمیر پیوتن کی جانب سے نیٹو میں شامل ملکوں کی طرف سے کسی بھی ممکنہ مداخلت پر اپنی جوہری فورسز کو چوکس رہنے کے حکم کے بعد جوہری جنگ کے خطرے پر ایک مرتبہ پھر بحث شروع ہو گئی۔

لیکن گذشتہ دہائیوں میں یوکرین کے ساتھ ایسا کیا ہوا ہے کہ وہ دنیا کی ایک بڑی ایٹمی طاقت سے ایک ایسا ملک بن گیا ہے جس پر اس کے ہمسایہ ملک نے حملہ کرنے کا خطرہ مول لیا۔

یہ سوال ذہن میں پیدا ہونے کے علاوہ اور بھی کئی اہم سوالات جواب طلب ہیں۔

کیا جوہری ہتھیاورں کی یوکرین میں موجودگی موجودہ جنگ کو روک سکتی تھی؟ کیا موجودہ جنگ میں جوہری تصادم کا خطرہ ہے؟

اور کیا یہ بات درست ہے کہ یوکرین جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا جیسا کہ روس نے الزام عائد کیا ہے؟

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

خارخیو کے قریب فوجی ہوائی اڈہ گذشتہ ہفتے روس کی طرف سے کیے گئے حملوں کے پہلے اہداف میں سے ایک تھا

بڈاپیسٹ میں معاہدہ

سنہ 1991 میں یوکرین نے ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اپنی سلامتی اور تسلیم کیے جانے کی یقین دہانی کے بعد اپنی سرزمین کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے پر رضامند ہوا تھا۔

سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ’بڈاپیسٹ‘ کی یاداشت کے تحت امریکہ، برطانیہ، یوکرین اور روس نے تمام نکات پر متفقہ طور پر دستخط کیے تھے۔

ہنگری کے دارالحکومت میں سنہ 1994 میں دستخط کی گئی اس دستاویز میں، یوکرین نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے پر دستخط کرنے اور ملک میں رہ جانے والے جوہری ہتھیاروں کو ماسکو کے حوالے کرنے کا یقین دلایا تھا۔

یونیورسٹی اور ساؤ پالو میں ایشیائی امور کے مطالعاتی شعبے سے منسلک ویسنتی فیراور جونیئر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یو ایس ایس آر کے خاتمے کے ساتھ، سویت جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے کا کچھ حصہ مشرقی یورپی ممالک میں رہ گیا تھا اور مغرب میں تشویش پائی جاتی تھی کہ ان ہتھیاروں کے غلط ہاتھوں میں چلے جانے سے یورپ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔‘

یوکرین کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے بدلے میں روس، امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے یوکرین کی آزادی، خودمختاری اور جغرافیائی سرحدوں کا احترام کرنے اور اس کے خلاف کسی قسم کی جارحیت سے باز رہنے کا یقین دلایا تھا۔

خارخیو یونیورسٹی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس وقت یوکرین کی حکومت کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا۔ ملک نے 1991 میں آزادی حاصل کی اور سویت دور کے بعد وہ بین الاقوامی سطح پر شناخت کی تلاش کے لیے کوشاں تھا۔

سنہ 1996 تک یوکرین نے اپنی ملک میں موجود سویت دور کے تمام جوہری ہتھیار روس کے حوالے کر چکا تھا۔

اس ہی یادداشت پر بیلاروس اور قازقستان نے بھی دستخط کیے تھے اور ان کے لیے بھی وہی شرائط رکھی گئی تھیں جو یوکرین کی حکومت نے تسلیم کی تھیں۔

’ہتھیاروں اور سکیورٹی کے بغیر‘

یوکرین کا الزام ہے کہ روس نے پہلی بار سنہ 2014 میں اس معاہدے کی خلاف ورزی کی، جب اس نے ملک کے مشرق میں واقع کریمیا پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا، جہاں سیواسٹوپول میں روسی بحری اڈہ اور بحیرہ اسود کا بحری بیڑہ موجود ہے۔

یوکرین کی حکومت کے مطابق روس نے اس یاداشت کی اسی سال خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک کے مشرقی علاقوں ڈونیتسک اور لوہانسک صوبوں میں علیحدگی پسندوں کی سرپرستی کرتے ہوئے انھیں بغاوت کرنے پر مجبور کیا۔

اس خطے میں جاری تنازعات کے باعث پہلے ہی 14,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

چونکہ 2022 کے اوائل ہی میں یوکرین کی سرزمین پر روسی حملے کا خطرہ بڑھ گیا تھا، یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک بار پھر بڈاپیسٹ یاداشت پر عملدرآمد کرنے کی درخواست کی ہے۔

لیکن مشاورت کا وقت نہیں تھا۔

روسی حملے کا آغاز 24 فروری کو ہوا، ملک کے طول و ارض میں فوجی تنصیبات اور دفاعی اڈوں کو نشانہ بنایا جانے لگا اور مختلف سمتوں سے روسی فوجی پیش قدمی کرنے لگے۔

یادداشت پر یوکرین کے صدر کی آخری تقریر کے بعد، روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے اپنے اقدامات کو درست ثابت کرنے کے لیے زیلنسکی ہی کے الفاظ کا سہارا لیا۔

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یوکرین کے رضاکاروں نے روسی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے حکام سے ہتھیار حاصل کیے ہیں

روسی صدر نے ایک تقریر میں اشارہ کیا کہ یوکرین امریکہ کی مدد سے جوہری ہتھیار تیار کرنے کے ارادے کے بعد معاہدے سے نکل رہا ہے۔

ان کے مطابق، یوکرین جارحانہ عزائم رکھتا ہے اور اس وجہ سے روسی شہریوں کے لیے خطرہ بڑھ گیا تھا۔

یونیورسٹی آف واٹر لو (کینیڈا) میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر اور نیوکلیئر سیفٹی کے ماہر الیگزینڈر لانوزکا نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’پوتن کے بیانات سراسر غلط ہیں۔ یوکرین کو جوہری ہتھیاروں سے مسلح کرنے یا اسے جوہری قوت بنتے ہوئے دیکھنے میں امریکہ کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔‘

یہ بھی پڑھیے

زیلنسکی نے 19 فروری کو ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’یوکرین کو دنیا کے تیسرے سب سے بڑے جوہری ہتھیاروں کو چھوڑنے کے بعد سکیورٹی کی ضمانتیں ملی تھیں، ہمارے پاس اب یہ ہتھیار نہیں ہیں، لیکن ہمارے پاس سکیورٹی بھی نہیں ہے۔‘

’سنہ 2014 کے بعد سے یوکرین نے بڈاپسٹ یاداشت پر دستخط کرنے والے ممالک کے ساتھ مشاورت کرنے کی تین بار کوشش کی، لیکن کامیابی نہیں ملی۔ آج، یوکرین چوتھی بار ایسا کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ وہ یہ آخری بار کرے گا۔‘

فیصلہ ’رومانوی اور قبل از وقت‘

بڈاپیسٹ یاداشت کی منظوری سے پہلے ہی، یوکرین کی سیاسی اشرافیہ کے ارکان اور بین الاقوامی سیاست کے ماہرین نے اس امکان کے بارے میں بات کی تھی کہ اس معاہدے کی کچھ دستخط کنندگان کی طرف سے خلاف ورزی ہوئی ہے۔

یوکرین کی پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہونے والے سابق فوجی کمانڈر وولوڈیمیر تولوبکو نے سنہ 1992 میں مقننہ کے ایک اجلاس میں دلیل دی تھی کہ یوکرین کو سلامتی کے وعدے کے بدلے میں مکمل طور پر جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا خیال ’رومانوی اور قبل از وقت‘ تھا۔

ان کے بقول، ملک کو کم از کم کچھ سویت وار ہیڈز رکھنے چاہییں تھے، جو ’کسی بھی جارحیت کو روکنے کے لیے کام آ سکتے۔‘

تازہ ترین روسی حملے کے ساتھ، یہ بحث دوبارہ شروع ہو گئی ہے، حکومتی عہدیداروں اور سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یوکرین کے پاس جوہری ہتھیار ہوتے تو روس کی جانب سے ہونے والی دراندازی کو یوکرین روک سکتا تھا۔

فیرارو جونیئر وضاحت کرتے ہیں کہ درحقیقت کچھ قوموں میں یہ عقیدہ ہے کہ جوہری ہتھیار غیر ملکی حملوں کو روکنے میں کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔

بین الاقوامی تعلقات کے ضمن میں ’نیوکلیئر ڈیٹرنس یا جوہری امن‘ کا ایک تصور پایا جاتا ہے اور جس پر بہت سے لوگ یقین کرتے ہیں۔

ان کے مطابق جو ممالک جوہری ہتھیار رکھتے ہیں اُن کے لیے کم خطرات ہوتے ہیں اس لیے نہیں کہ وہ واقعی جوہری ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کو ایک گارنٹی کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور حملے کی دھمکی کی صورت میں استعمال میں لا سکتے ہیں۔

’ان خیالات کے حامی اکثر اپنے دلائل کو ثابت کرنے کے لیے سرد جنگ کی مثال استعمال کرتے ہیں، کیونکہ اس وقت امریکہ اور روس کے درمیان کبھی بھی براہ راست تنازع نہیں ہوا تھا اور وہ دھمکیوں سے باز نہیں آئے تھے۔‘

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس سب کے باوجود ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کا مطلب صرف امن کی گارنٹی اور امن کا احساس ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت معنی رکھتا ہے۔

فیرارو جونیئر کہتے ہیں کہ ’جوہری طاقتوں کے درمیان تنازعات ہمیشہ زیادہ خطرناک اور کشیدہ ہوتے ہیں، جیسا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان برسوں سے جاری تصادم کا معاملہ ہے۔‘

سیاسی اور مالی اخراجات

الیگزینڈر لانوزکا کے لیے یوکرین کی اشرافیہ کی طرف سے پیش کیے جانے والے دلائل کوئی معنی نہیں رکھتے کیونکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کیئو کا کبھی بھی اپنی سرزمین پر نصب ہتھیاروں پر کنٹرول نہیں تھا۔

محقق کا کہنا ہے کہ ’یوکرین میں یہ ہتھیار موجود ضرور تھے لیکن ان کا عملی کنٹرول یوکرین کے پاس نہیں تھا۔‘

یوکرین کے پاس ان کو چلانے کے لیے رسائی کوڈ اور دیگر اہم تفصیلات نہیں تھیں۔

یونیورسٹی آف لیسٹر (برطانیہ) میں بین الاقوامی سیاست کے پروفیسر اینڈریو فوٹر بھی بتاتے ہیں کہ یوکرین میں ہتھیار رکھنے کا مطلب مستقبل کے خطرات تھے۔

اگرچہ اب یوکرین میں جوہری توانائی کی صنعت ہے، لیکن اسے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں تبدیل کرنے سے اہم سیاسی اور مالی اخراجات اٹھانا پڑیں گے۔

کیا ایٹمی تصادم کا خطرہ ہے؟

اگرچہ یوکرین کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کر دیا گیا ہے، لیکن روسی افواج کے یوکرین پر حملے نے یورپ میں جوہری تصادم کے خدشات کو دوبارہ زندہ کر دیا ہے۔

پیوتن نے اپنی تقاریر میں واضح کیا ہے کہ اگر نیٹو کا کوئی رکن، جو کہ امریکہ اور بڑی یورپی طاقتوں کی قیادت میں فوجی اتحاد ہے، محاذ آرائی میں مداخلت کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ جارحانہ انداز میں جواب دیں گے۔

Presentational grey line

روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج

Presentational grey line

اس کے علاوہ، انھوں نے روس کی نیوکلیئر فورسز کو ’خصوصی الرٹ‘ پر رکھا ہے۔

فوجی حکام کے ساتھ بات چیت میں، روسی صدر نے کہا کہ عالمی طاقتوں نے روس کے خلاف ’جارحانہ اقدامات‘ کیے ہیں اور ’ناجائز پابندیاں‘ لگائی ہیں۔

تاہم، الرٹ سٹیٹس پر سوئچ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کو استعمال کرنے کا کوئی حقیقی ارادہ ہے۔

روسی صدر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جوہری پالیسی اور سکیورٹی ماہرین کے مطابق اس وقت گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے کہا ہے کہ ان کا یوکرین میں کوئی فوجی نہیں ہے اور نہ ہی انھیں بھیجنے کا کوئی منصوبہ ہے۔

اُن کے لیے پوتن کا ’خصوصی الرٹ‘ کے بارے میں اعلان ’خطرناک‘ اور ’غیر ذمہ دارانہ‘ ہے۔

اسی طرح کے مؤقف کا اظہار امریکی حکومت اور یورپی یونین نے بھی کیا۔

اب تک، ایسا لگتا ہے، فوجی اتحاد صرف اپنے رکن ممالک میں سے کسی کے خلاف روسی دھمکی کی صورت میں فوجی مداخلت پر غور کرے گا۔

نیٹو کے آرٹیکل 5 کے تحت تنظیم کسی بھی رکن ملک کا دفاع کرنے کی پابند ہے جس پر حملہ کیا جاتا ہے۔

پوتن نے کہا ہے کہ تنازع میں کسی بھی بیرونی مداخلت، یا روس کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کا سخت جواب دیا جائے گا۔

لانوزکا کہتی کہ بین السطور میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی جا رہی ہے۔

لیکن اس تنازع کو یوکرین تک محدود رکھنے میں تمام فریقین کا مشترکہ مفاد ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر اس مقام پر جوہری ہتھیار استعمال کیے جائیں تو انھیں بہت حیرت ہو گی۔‘

فیرارو جونیئر کے مطابق، دیگر سابق سویت جمہوریہ جو اب نیٹو کا حصہ ہیں، جیسا کہ ایسٹونیا، لٹویا اور لتھوانیا پر روسی حملے کی صورت میں بھی، دونوں فریق خطرات کو کم کرنے کو ترجیح دے سکتے ہیں۔

جس طرح مغرب اور نیٹو یوکرین میں براہ راست تصادم سے گریز کرتے ہیں، اسی طرح روس بھی مشرقی یورپ کے باقی حصوں میں تصادم سے گریز کرے گا۔

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

یوکرین کی فوجیں روس کے خلاف جنگ کے اگلے مورچوں پر ہیں

فوٹر کے مطابق اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ ماسکو یوکرین کے خلاف اپنے جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

’مجھے کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ماسکو یوکرین کے خلاف جوہری ہتھیاروں کا استعمال کرے گا۔ نہ صرف اس لیے کہ اس کی سرحد کے قریب کوئی بھی تابکار مواد پھیل سکتا ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ وہ شاید ملک اور یوکرین کی آبادی کو تباہ نہیں کرنا چاہتے، جیسا کہ لگتا ہے کہ ان کا منصوبہ اس علاقے کو روس میں شامل کرنا ہے۔‘

سٹریٹجک ہتھیاروں اور روسی سکیورٹی اور دفاعی پالیسی میں ماہر محقق اور ساؤتھ امریکن انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اینڈ سٹریٹجی کی ڈائریکٹر لارلیسین پیکولی نے اپنے ٹوئٹر پروفائل پر لکھا ہے کہ پوتن کی جانب سے الرٹ بڑھانے کا بنیادی مقصد یوکرین کو خوفزدہ کرنا اور اسے مجبور کرنا ہے جو مذاکرات کی میز پر پہلے سے موجود ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.