whisper hookup emily willis hookup dailydot hookup app secure hookup site bbw hookups app best totally free hookup app

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

یوکرین کیسے وجود میں آیا اور روس کے ساتھ اس کا تنازع کتنا قدیم ہے؟

یوکرین روس جنگ: یوکرین کیسے وجود میں آیا اور اس کے روس کے ساتھ کیا تاریخی روابط ہیں؟

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روس اور یوکرین کے درمیان گذشتہ آٹھ برس سے جاری تنازع صرف اِن ممالک میں رہنے والوں کے لیے ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی کمیونٹی کے لیے بھی کسی درد سر سے کم نہیں ہے۔

اِن دونوں ممالک کی مشترکہ ثقافت انھیں جتنا متحد کرتی ہے اتنا ہی ایک دوسرے سے جدا بھی کرتی ہے۔

یہ تاریخ نویں صدی تک جاتی ہے جب یوکرین کا موجودہ دارالحکومت کیئو سلاوک ریاست کا مرکز تھا۔ اس ریاست کو سکانڈینیوینز کے ایک گروہ نے بنایا تھا جو خود کو ’رس‘ کہتے تھے۔

قرون وسطیٰ کی ریاست جسے تاریخ دان ’کیئون رس‘ کہتے ہیں درحقیقت یوکرین اور روس دونوں کی ابتدا تھی۔

ماسکو 12ویں صدی کے دوران معرض وجود میں آیا اور کیئو کے ولادیمیر 1 نے آرتھوڈاکس کرسچن کو بطور ریاستی مذہب قبول کیا۔ ولادیمیر 1 نے ہی رس سلطنت کی بنیاد رکھی جو آج کے بیلاروس، روس، یوکرین اور بحر بلقان پر مشتمل تھی۔

اس خطے میں بولی جانے والی مختلف زبانوں کے ادغام کے نتیجے میں آخر کار یوکرینی، بیلا روسی اور روسی زبانیں وجود میں آئیں۔

آپس میں ایک دوسرے سے جڑی اس تاریخ کی وجہ سے ہی شاید روس کے صدر ولادیمیر پوتن کا یہ دعویٰ بظاہر درست نظر آتا ہے کہ ’روس اور یوکرین کے لوگ ایک ہیں۔‘

یوکرین

،تصویر کا ذریعہAlexander Kravchenko

لیکن ماہرین کے مطابق چاہے روس اور یوکرین کی ابتدا ایک تھی لیکن گذشتہ نو صدیوں کے دوران یوکرینیوں کا تجربہ بہت مختلف رہا اور اس کی وجہ ملک کو تقسیم کرنے والی مختلف طاقتوں کی حکمرانی تھی۔

یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر اینڈریو ولسن کے مطابق ضروری ہے کہ یوکرین، اور اس کے خطے اور شناخت کو ایک مربوط یونٹ کی بجائے ایک پہیلی کے طور پر دیکھا جائے۔

پہیلی

13ویں صدی کے دوران رس فیڈریشن کو منگول سلطنت نے فتح کر لیا لیکن 14ویں صدی کے اختتام پر منگول سلطنت کے زوال پر ماسکو کی گرینڈ پرنسپلٹی اور گرینڈ ڈچ آف لیتھونیا (جو بعد میں پولینڈ میں شامل ہو گیا) نے رس لینڈ کو تقسیم کر لیا۔

کیئو اور اس کے گرد علاقے پولینڈ، لیتھونیا کامن ویلتھ کے زیر حکومت آ گئے جبکہ مغربی یوکرین میں موجود گلیسیا ایک طویل عرصے تک ہیبسبرگ سلطنت کا حصہ رہا، جس کے ثقافتی نقوش آج بھی موجود ہیں۔

روس کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے تاریخ دان جیوفری ہوسکنگ نے بی بی سی کو بتایا کہ یوکرین کے مغربی حصے کی تاریخ اس کے مشرقی حصے سے بالکل مختلف ہے۔

نقشہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس کے بہت سے رہائشی روسی آرتھوڈاکس نہیں بلکہ متحدہ چرچ یا مشرق کی کیتھولک چرچ سے تعلق رکھتے ہیں، جو اپنی مذہبی رسومات یوکرینی زبان میں ادا کرتے ہیں اور پوپ کو اپنا روحانی پیشوا کہتے ہیں۔

آج کے یوکرین کا ایک اور حصہ جس کا ماضی بہت مختلف ہے، کریمیا ہے، جس کی جڑیں یونانی اور تاتاری ہیں۔

دو ساحل

17ویں صدی کی دوران پولش، لیتھونین کامن ویلتھ اور روسی تسارڈم کے درمیان ہونے والی لڑائی دریائے دنیپر کے مشرق میں موجود علاقے کو روس کے سامراجی کنٹرول میں لے آئی۔ یہ خطہ ’لیفٹ بینک‘ یوکرین کہلاتا تھا۔

اسی صدی کے دوران ایک یوکرینی کوساک ریاست آج کے یوکرین کے مرکزی اور شمال مغربی خطے میں تھی لیکن سنہ 1764 میں روسی ملکہ کیتھرین نے اسے ختم کر دیا اور یوکرینی زمینوں کے بڑے حصے حاصل کرنے کے لیے آگے بڑھیں جو پولینڈ کے پاس تھا۔

یہ بھی پڑھیے

اس کے بعد کے برسوں میں آنے والی ایک پالیسی کی بدولت یوکرینی زبان کا استعمال اور اسے پڑھنا ممنوع قرار دیا گیا اور لوگوں کو زبردستی روسی آرتھوڈاکس مذہب اختیار کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔

اسی دوران مغربی علاقوں میں حب الوطنی نے جڑیں پکڑنا شروع کر دیں اور پولینڈ سے آسٹرین سلطنت تک بہت سے لوگوں نے روسیوں سے مختلف ہونے کے لیے خود کو یوکرینی کہنا شروع کر دیا۔

لیکن 20ویں صدی میں روسی انقلاب اور سوویت یونین کے قیام نے اس پہیلی کو از سر نو ترتیب دیا۔

یوکرین، روس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سوویت یونین میں انضمام

عالمی جنگ کے اختتام پر سوویت رہنما جوزف سٹالن نے آخر کار یوکرین پر قبضہ کر لیا۔

ماسکو نے سنہ 1950 میں کریمیا کو سوویت یونین میں جمہوریہ یوکرین میں شامل کر لیا اور سوویت حکومت نے اور زیادہ مضبوطی سے یوکرین کو روس کے اثر و رسوخ میں لے آیا اور یوکرین کو اکثر اس کی بہت بھاری قیمت چکانا پڑی۔

سٹالن کی سنہ 1930 کی زرعی اصلاحات کے نام پر لاکھوں یوکرینی قحط کا شکار ہو کر مارے گئے۔

Presentational grey line

روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج

Presentational grey line

بعد میں سٹالن نے سوویت شہریوں کی ایک بڑی تعداد، جن میں سے زیادہ تر یوکرینی زبان بھی نہیں بول سکتے تھے، کو مشرق میں بھیجا تاکہ ان کی آبادی میں اضافہ کیا جا سکے تاہم سوویت ماسکو ثقافتی طور پر کبھی یوکرین پر غلبہ حاصل نہیں کر پایا۔

تاریخ دان جیوفری ہوسکنگ وضاحت کرتے ہیں کہ معاشی، سیاسی اور فوجی فیصلے مرکز سے صادر کیے جاتے تھے لیکن ثقافت اور تعلیم کے معاملے میں یوکرین کی خود مختاری تھی۔

اگرچہ روسی غالب زبان تھی لیکن پرائمری سکول میں بہت سے بچوں نے یوکرینی زبان سیکھی، یوکرینی زبان میں بہت سی کتابیں شائع کی گئیں اور بیسویں صدی کے دوسرے حصے میں ’سوویت یونین میں یوکرینی تعلیم رکھنے والے افراد میں ایک مضبوط یوکرینی قومی تحریک شروع ہوئی۔‘

غلطیاں

سنہ 1991 میں سوویت یونین ٹوٹ گیا اور سنہ 1997 میں یوکرین اور روس کے درمیان یوکرین کی سرحدوں کی سالمیت کا ایک معاہدہ طے پایا۔

لیکن ملک کے مختلف علاقوں کی مختلف میراث نے بہت سی خامیوں کو بھی جنم دیا۔ دریائے دنیپر کے اطراف میں فرق صاف نظر آتے ہیں۔

یوکرین کی مشرقی آبادی کے ماسکو کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور یہاں رہنے والی زیادہ تر آبادی آرتھوڈاکس ہے اور روسی زبان بولتی ہے۔

یوکرین کا مغرب، جو صدیوں تک یورپی طاقتوں جیسے پولینڈ اور آسٹرو ہنگیرین سلطنت کے زیر حکومت رہا، یہاں کے رہائشی کیتھولک ہیں اور اپنی زبان بولتے ہیں۔

ہر کسی کا اپنا ایک خواب ہے، ان میں سے کچھ اپنی آبائی سرزمین کی جانب لوٹ جانا چاہتے ہیں جبکہ کچھ آزادی کے راستے پر جانا چاہتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.