بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’قومی سلامتی یا اردوغان سے تعلق‘: ترک نژاد شہری نے ایئر انڈیا کے سی ای او کا عہدہ کیوں ٹھکرایا؟

محمد الکر آئجی: ایئر انڈیا کے ترک نژاد سی ای او نے ٹاٹا گروپ کی پیشکش کیوں ٹھکرائی؟

الکر آئجی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

محمد الکر آئجی انھوں نے بہت سی خسارے میں جانے والی ایئرلائنز کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد دی

ترکی کے محمد الکر آئجی نے ایئر انڈیا کے چیف ایگزیکٹیو افسر (سی ای او) کا عہدہ سنبھالنے سے انکار کر دیا ہے۔ اس عہدے کی پیشکش انھیں انڈین کمپنی ’ٹاٹا گروپ‘ نے کی تھی جس نے حال ہی میں انڈیا کی سرکاری ایئرلائن ’ایئر انڈیا‘ کو خریدا ہے۔

خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق محمد الکر نے انڈیا کے ایک ہندو قوم پرست گروہ کی جانب سے مخالفت کے بعد یہ فیصلہ کیا ہے۔

’سودیشی جاگرن منچ‘ نامی یہ ہندو قوم پرست تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے وابستہ ذیلی تنظیم ہے اور انڈیا کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی یعنی بی جے پی سے قریب بتائی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ ایئر انڈیا گذشتہ سال تک انڈین حکومت کی ملکیت تھی لیکن خسارے میں جانے کے سبب اسے رواں سال ٹاٹا گروپ کے ہاتھوں فروخت کر دیا گیا تھا۔

ہندو قوم پرست تنظیم کا کہنا ہے کہ اس نے محمد الکر آئجی کے ماضی کے سیاسی تعلقات کی وجہ سے اُن کی اس اہم عہدے پر تعیناتی کی مخالفت کی ہے۔

مسٹر آئجی نے ایک بیان میں کہا کہ انڈین میڈیا کے کچھ حصوں میں ’میری تقرری کو مختلف رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔‘

انھوں نے کہا: ’میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس طرح کی باتوں کے درمیان عہدے کو قبول کرنا قابل عمل اور باوقار فیصلہ نہیں ہو گا۔‘

انڈیا سے شائع ہونے والے اخبار ’دی ٹیلیگراف‘ نے لکھا ہے کہ عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی آئجی کا عہدے کو قبول نہ کرنا، دباؤ ڈالنے والے گروپ کی جانب سے ایک خطرناک مثال قائم کرنے کے مترادف ہے جو نجی سرمایہ کاروں کے پیشہ ور فیصلوں کو کمزور کرنے کے لیے ’قومی سلامتی‘ کے بہانوں کا استعمال کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر بھی اس پورے معاملے کی بازگشت سُنائی دے رہی ہے اور بہت سے لوگ اُن کے عہدے کو نہ قبول کرنے پر اظہار افسوس کر رہے ہیں جبکہ مخالفت کرنے والوں کے نظریات سے متفق افراد اسے اپنی ’جیت‘ قرار دے رہے ہیں۔

محمد الکر آئجی کون ہیں؟

آئجی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

’میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اس طرح کی باتوں کے درمیان عہدے کو قبول کرنا قابل عمل اور باوقار فیصلہ نہیں ہو گا‘

مسٹر الکر آئجی ترکی کے ایک مشہور تاجر ہیں۔ وہ ترکی کی بہت سی ایئر لائنز کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ انھوں نے سنہ 1994 میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کے مشیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں تھیں۔ اُس وقت اردوغان استنبول کے میئر تھے۔

اُن کے بارے میں کہا جاتا ہے انھوں نے بہت سی خسارے میں جانے والی ایئرلائنز کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد دی اور یہی وجہ تھی کہ ان کی خدمات ٹاٹا گروپ نے خسارے میں جانے والی ایئر انڈیا کے لیے حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔

کچھ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق آئجی نے مبینہ طور پر ایک بار القاعدہ کے ایک فنانسر کو سرمایہ کاری کی سہولیات فراہم کی تھیں۔

رجب طیب اردوغان کی پاکستان کے ساتھ قربت حالیہ برسوں میں بڑھی ہے اور انھوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے آئین کی خصوصی شق آرٹیکل 370 ہٹانے کی بھی شدید مخالفت کی تھی۔

مخالفت

ایئر انڈیا

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

ایئر انڈیا کو رواں سال انڈیا کی بڑی نجی کمپنی ٹاٹا گروپ کے ہاتھوں فروخت کر دیا گيا تھا

گذشتہ ہفتے ’سودیشی جاگرن منچ‘ نامی تنظیم نے کہا تھا کہ حکومت کو آئجی کی تقرری کی اجازت نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس سے ’قومی سلامتی‘ خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ سودیشی جاگرن منچ آر ایس ایس کی اقتصادی اکائی ہے۔

تنظیم کے شریک کنوینئر نے انڈین خبر رساں ایجنسی ’پی ٹی آئی‘ کو بتایا کہ ’میرے خیال میں حکومت پہلے ہی اس معاملے کو لے کر حساس ہے اور اس نے اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ حکومت اس بات کی اجازت دے گی۔‘

یاد رہے کہ کسی غیر ملکی شہری کو انڈیا میں کسی ایئر لائن کے سی ای او کے طور پر مقرر کرنے سے پہلے حکومت کی اجازت درکار ہوتی ہے۔

سرکاری ذرائع کے حوالے سے خبر رساں ادارے روئٹرز نے گذشتہ ہفتے لکھا تھا کہ انڈین حکومت آئجی اور ایئر انڈیا کے معاملات کی معمول سے زیادہ سخت تحقیقات کر رہی ہے کیونکہ سکیورٹی ایجنسیوں نے ترکی سے اُن کے تعلقات کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا تھا۔

واضح رہے کہ 14 فروری کو ٹاٹا گروپ نے آئجی کو ایئر انڈیا کا سی ای او مقرر کیا تھا جبکہ جنوری میں ٹاٹا گروپ نے حکومت سے ایئر انڈیا کو 18 ہزار کروڑ میں خریدا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

مسٹر آئجی نے کہا کہ ٹاٹا گروپ کے چیئرمین این چندر شیکھرن کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بعد انھوں نے یہ عہدہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔ ٹاٹا گروپ کے ترجمان نے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔

سودیشی جاگرن منچ نے الکر آئجی کے معاملے میں حکومت کو کوئی خط نہیں لکھا تھا اور نہ ہی آئجی کی تقرری کے بارے میں کوئی بیان جاری کیا تھا۔

سودیشی جاگرن منچ کی کنوینئر اشونی مہاجن نے دی ٹیلیگراف اخبار کو بتایا کہ ’ہم نے حکومت کو کوئی خط نہیں لکھا ہے۔ تاہم، منچ نے سکیورٹی وجوہات کی وجہ سے ان کی تقرری کی مخالفت کی تھی اور ہم چاہتے تھے کہ حکومت اس کی اجازت نہ دے۔

’ہمیں یقین تھا کہ موجودہ حکومت قومی سلامتی کے حوالے سے بہت حساس ہے، وہ اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لے گی اور تقرری کی منظوری نہیں دے گی۔‘

انفوسس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

’انفوسس پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ انڈین معیشت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ‘ملک دشمن’ عناصر کے ساتھ روابط رکھتی ہے‘

یہ پہلا موقع نہیں ہے

یہ پہلا موقع نہیں ہے جب آر ایس اے سے وابستہ تنظیموں نے اپنی طاقت دکھائی ہو۔ حکومت خاموش رہ کر یا ہلکی پھلکی مخالفت سے ماضی میں بھی اُن کی حمایت کرتی ہے۔

حال ہی میں آر ایس ایس میگزین ’پنچ جنیہ‘ میں انفوسس پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ انڈین معیشت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ’ملک دشمن‘ عناصر کے ساتھ روابط رکھتی ہے۔

اس کے بعد میگزین نے اپنی ایک کور سٹوری میں آن لائن خوردہ کمپنی ایمیزون کو ’ایسٹ انڈیا کمپنی 2.0‘ کہا تھا۔

مزید پڑھیے

دونوں معاملوں میں حکومت خاموش رہی اور بعد میں وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے اس کے متعلق ہلکا پھلکا بیان دیا۔

ماہرین کے مطابق اس طرح کے معاملات اس تصور کو تقویت بخشتے ہیں کہ آر ایس ایس حکومت کے اہم پالیسی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔

سوشل میڈیا پر بازگشت

سویڈن کی اپسلا یونیورسٹی میں پیس اینڈ کنفلیکٹ کے پروفیسر اشوک سوائیں نے لکھا کہ ’انڈیا میں دائیں بازو کی ہندو حکومت نے قومی ایئر لائن ’ایئر انڈیا‘ کو ٹاٹا کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ اس کے باوجود آر ایس ایس ترکی کے ایک مسلمان کو ایئر انڈیا کے سی ای کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔‘

ٹویٹ

،تصویر کا ذریعہTwitter

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین نے لکھا کہ ’آئجی نے ایئر انڈیا کا سی ای او بننا قبول نہیں کیا۔ یہ وہ شخص ہیں جنھوں نے ایسی ہی صورتحال سے دو چار ترکش ایئرلائنز کی کایا پلٹ دی تھی، لیکن انھیں بیہودہ سکیورٹی چیکس کے نام پر ذلیل کیا گیا ہے۔ یہی چيز انڈین کارپوریٹ اور سیاستدانوں پر استعمال کریں اور پھر نتیجہ دیکھیں۔‘

ٹویٹ

،تصویر کا ذریعہTwitter

صحافی جہانگیر علی نے لکھا کہ ’کشمیر کا بحران ترکی کے آئجی کے راہ میں بھوت بن کر اُتر آیا اور انھوں نے ایئر انڈیا کی جانب سے پیش کردہ سی ای او کے عہدے کو قبول نہیں کیا، جو کہ ٹاٹا گروپ کے لیے ایک دھچکہ ہے۔‘

بہت سے صارفین نے اس فیصلے کو انڈین سیاست دان اور بی جے پی رہنما سبرامنیم سوامی کی جیت قرار دیا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.