روس یوکرین تنازع: انڈیا کی سفینہ جو یوکرین میں مارشل لا کی وجہ سے پھنس گئی ہیں
- سشیلہ سنگھ
- بی بی سی ہندی
‘میری واحد خواہش یہ ہے کہ میں، میرے شوہر اور ہمارا بچہ، ہم تینوں ساتھ انڈیا جائیں۔ لیکن چونکہ مارشل لا نافذ ہے اس لیے میرے شوہر تو نہیں جا سکتے، چنانچہ میں بھی اپنے شوہر کو چھوڑ کر انڈیا نہیں جاؤں گی۔’
انڈین نژاد سفینہ اخینوف فی الوقت یوکرین میں ہیں۔ سفینہ کے شوہر یوکرینی ہیں اور اُن کا 11 ماہ کا بیٹا بھی ہے۔
اُنھوں نے بی بی سی کے ساتھ ویڈیو گفتگو میں کہا کہ وہ جہاں ہیں وہاں سے نکلنا اس وقت بہت مشکل ہے کیونکہ روسی فوجی وہاں داخلی اور خارجی راستوں پر موجود ہیں۔
‘اب تک ہمارے علاقے میں حملہ نہیں ہوا ہے مگر ہم گھرے ہوئے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کب تک محفوظ رہیں گے۔’
روس کے یوکرین پر حملے کو چھ دن ہو چکے ہیں۔ ملک کے صدر ولادیمیر زیلینسکی نے اپنے ٹی وی خطاب میں کہا ہے کہ روس نے اب تک اُن کے ملک پر 56 راکٹ اور 113 کروز میزائل داغے ہیں۔
انڈیا کے شہر بنگلور سے تعلق رکھنے والی سفینہ کہتی ہیں کہ ‘ہم بہت پریشان ہیں اور کوئی مثبت چیز نہیں سوچ پا رہے۔’
سفینہ کہتی ہیں کہ ‘ہمیں پوتن یا روس پر یقین نہیں ہے۔ وہ پہلے کہہ رہے تھے کہ ہم فوجی مشقیں کر رہے ہیں مگر پھر اُنھوں نے ہم پر بلااشتعال حملہ کر دیا۔ ہم نہیں جانتے کہ آگے کیا ہو گا کیونکہ اس سے ہمیں اور روس دونوں کو ہی نقصان پہنچ رہا ہے۔’
سفینہ جنوری سے ہی انڈیا آنا چاہ رہی تھیں مگر عارضی رہائشی پرمٹ زائد المیعاد ہونے اور اپنے بچے کا پاسپورٹ نہ ہونے کے باعث وہ دستاویزات کا انتظار کرنے پر مجبور ہوئیں۔ پھر 14 فروری کو اُنھیں دستاویزات مل گئیں مگر اُنھیں اور اُن کے بیٹے کو کووڈ ہو گیا۔
کووڈ سے صحتیاب ہونے کے بعد اُنھوں نے 26 فروری کے لیے انڈیا کا ٹکٹ بک کروا لیا تھا مگر پھر 24 فروری کو حملہ شروع ہو گیا اور فضائی حدود بند کر دی گئیں۔
وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘میری والدہ اور میرے خاندان کے لوگ بہت مایوس ہوئے ہیں کیونکہ وہ میرے بچے کی پیدائش سے اب تک اس سے نہیں ملے ہیں۔ میری والدہ ہم سے صبح اور شام کے اوقات میں ویڈیو کالز پر بات کرتی ہیں۔ اُنھیں بہت دکھ ہے کہ میں انڈیا نہیں آ پاؤں گی۔ میرے بیٹے کی سالگرہ 23 مارچ کو ہے اور میری 19 مارچ کو۔ ہم پریشانی میں ہیں مگر جیسا ہے، جی رہے ہیں۔’
یہ بھی پڑھیے
سفینہ کی ہنسی میں دکھ صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘اگر میں انڈیا گئی تو میں اپنے شوہر کی وجہ سے پریشان رہوں گی۔ ہم دونوں ساتھ رہیں گے تو ٹھیک ہے۔ آپ کو کیا معلوم کہ یہاں انٹرنیٹ چلے گا یا نہیں۔ مجھے کیسے معلوم ہو گا کہ وہ زندہ ہیں یا نہیں، مجھے اس سے مزید پریشانی ہی ہو گی۔ سو میں اپنے شوہر اور اُن کے خاندان کے ساتھ ہوں۔’
وہ بتاتی ہیں کہ اُنھوں نے گولیاں چلنے کی آوازیں سنی ہیں مگر وہ کہتی ہیں کہ اُنھوں نے سائرنز بھی سنے اور فوجی کاررواں کو جاتے ہوئے دیکھا جس سے وہ خوف زدہ ہو گئی ہیں۔
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد ملک بھر میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا ہے جس کے باعث یوکرینی بارڈر گارڈ سروس نے 18 سے 60 سال کی عمر کے تمام یوکرینی مردوں کے ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ‘یوکرین کے لوگوں کا تحفظ یقینی بنانے اور لوگوں کو ضرورت کے وقت متحد کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔’
یہ عارضی پابندی تب تک نافذ رہے گی جب تک کہ مارشل لا نافذ رہے گا۔
سفینہ کا کہنا ہے کہ یوکرین کے ہر شہری کو ایک فوجی سرٹیفیکیٹ دیا گیا ہے چاہے اُنھوں نے فوج میں خدمات انجام دی ہوں یا نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنھیں کالج کے علاوہ بھی ٹریننگ فراہم کی جاتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ اگر اُن کے شوہر کو حکومت نے بلایا تو اُنھیں جانا ہی ہو گا۔
روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج
سفینہ کے مطابق شہر کے مرکزی حصوں میں رہنا اس وقت خطرناک ہے اس لیے وہاں لوگ اپنے فلیٹس میں نہیں رہ رہے۔
‘جیسے ہی ہمیں حملے کے بارے میں پتا چلا، ہم یہاں آ گئے کیونکہ یہاں بنکرز ہیں۔ ہمارا سامان پوری طرح بندھا ہوا تھا کیونکہ ہم نے انڈیا جانا تھا۔ اگر ہمیں حکومت نے وارننگ دی تو ہم فوراً یہاں سے اپنے بنکرز میں چلے جائیں گے۔’
سفینہ موٹر سائیکلوں کی شوقین ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ بائیکس کے لیے اُن کی محبت اُنھیں اپنے شوہر کے قریب لے آئی۔
درحقیقت اُن کے شوہر بھی بائیکس کے شوقین ہیں اور ایک بائیکر گروپ کے رکن ہیں اور ان دونوں کی ملاقات انسٹاگرام کے ذریعے ہوئی تھی۔
وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘میں انڈیا اور دیگر ممالک میں بائیکر گروپس جوائن کرنا چاہتی تھی تاکہ دیگر ممالک میں بائیک ٹوورز پر جا سکوں۔ میرے شوہر بھی ایسے ایک گروپ کا حصہ تھے جسے میں فالو کر رہی تھی۔ ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ نمبرز کا تبادلہ کیا اور بات چیت شروع کر دی۔ پھر مجھے میرے شوہر کے گروپ نے یوکرین کا دعوت نامہ بھیج دیا۔’
اُن کے مطابق ‘میرے شوہر کو انگلش بالکل نہیں آتی تھی۔ ہم دونوں گوگل کے ذریعے بات چیت کیا کرتے تھے۔’
جون 2019 میں سفینہ پہلی مرتبہ یوکرین گئیں اور 10 دن تک موٹرسائیکل پر مغربی یوکرین کا ٹوور کیا۔ اس دوران ان دونوں کے درمیان قربت اتنی بڑھ گئی کہ بات شادی تک پہنچ گئی۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘ہم دونوں کی سالگرہ ایک ہی دن ہوتی ہے۔ ہم دونوں گھومنے پھرنے کے شوقین تھے اور جب ہم نے پایا کہ ہماری دلچسپیاں مشترکہ ہیں تو ہمیں لگا کہ ہم ایک دوسرے کے لیے ہی بنے ہیں۔’
سفینہ واپس آئیں اور اپنے خاندان سے بات کی تو اُنھوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔
سفینہ پھر کیئو گئیں جہاں ایک مسجد میں اُن کی باقاعدہ شادی ہو گئی، جس کے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ انڈیا آئیں۔
یہاں اُن کی شادی کی تقریب منعقد ہوئی اور پھر وہ واپس کیئو گئے اور وہاں شادی رجسٹر کروائی۔ اب یہ خاندان ملک کے شمال مشرقی حصے میں رہتا ہے۔
سفینہ کہتی ہیں کہ ہر طرف خوف پھیلا ہوا ہے اور اُنھیں امید ہے کہ جب یہ سب ختم ہو گا تو وہ انڈیا جا کر اپنے والدین سے مل سکیں گی۔
Comments are closed.