یوکرین، روس تنازع: ارب پتی روسی ’اولیگارک‘ کون ہیں اور صدر پوتن کا ان سے کیا تعلق ہے؟
صدر پوتن کی تصویر جو بورس اور ارکادی سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ مغربی میڈیا میں انھیں ’پوتن کے دوست‘ کہا جاتا ہے
روس کے یوکرین پر حملے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عالمی بحران نے روسی ’اولیگارک‘ یعنی سیاسی اثرورسوخ رکھنے والے امرا اور کاروباری شخصیات کو ایک بار پھر خبروں کا موضوع بنا دیا ہے۔
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد مغربی ممالک نے روسی بینکوں اور ملک ایسے اہم افراد پر پابندیاں لگا دی ہیں جنھیں مغربی ذرائع ابلاغ میں پوتن کے ’قریبی ساتھی‘ کہا جاتا ہے۔
یہاں ہم اس بات کا جائزہ لیں گے کہ ’اولیگارک‘ ہوتا کیا ہے، یہ اصطلاح آئی کہاں سے اور ایسی کئی روسی شخصیات پر مغرب پابندیاں کیوں لگا رہا ہے۔
اولیگارک
روس کے مشہور اولیگارکز میں سے ایک چیلسی فٹبال کلب کے مالک رومن ایبرامووچ بھی ہیں
اس لفظ کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن موجودہ دور میں اس کا ایک مخصوص معنی سامنے آیا ہے۔
روایتی طور پر ایک اولیگارک کسی ’اولیگارکی‘ کا رُکن یا حامی ہوتا ہے۔ اولیگارکی ایسے سیاسی نظام کو کہا جاتا ہے جہاں چند افراد کا گروہ کسی ملک پر راج کرتا ہے۔
لیکن اب عام طور پر اس سے مراد وہ انتہائی امیر روسی شخصیات لی جاتی ہیں جو 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اُبھر کر سامنے آئیں۔
اولیگارک کا لفظ دو یونانی الفاظ ’اولیگوئی‘ اور ’آرخین‘ سے مل کر بنا ہے۔ اولیگوئی کا مطلب ہے ’چند‘ جبکہ آرخرین کا مطلب ’حکومت کرنا‘ ہے۔
اولیگارک کا تعلق حکمران طبقے سے ہو سکتا ہے جو اپنے رتبے، برادری، زبان اور اقتصادی برتری کے سبب باقی معاشرے سے علیحدہ اور برتر سمجھے جاتے ہیں۔
اس طرح کی دولت مند شخصیات اپنے ہی مفادات کے لیے حکومت میں آتی ہیں۔
آج کے دور کے اولیگارک کون ہیں؟
موجودہ دور میں اولیگارک وہ انتہائی دولت مند افراد ہیں جو حکومت کے ساتھ مل کر کاروبار کرتے ہیں اور پیسہ کماتے ہیں۔
برطانیہ میں شاید سب سے مشہور اولیگارک چیلسی فٹبال کلب کے مالک اور روسی تاجر رومن ایبرامووچ ہیں جو 14.3 ارب ڈالر کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ یہ دولت انھوں نے سویت یونین کے زوال کے وقت ملنے والے سرکاری اثاثوں کو فروخت کر کے کمائی ہے۔
ایک اولیگارک روسی خفیہ ایجنسی ’کے جی بی‘ کے سابق افسر اور بینکر الیگزینڈر لیبدیف بھی ہیں، جن کے بیٹے ایوگنی ’لندن ایونِنگ سٹینڈرڈ‘ اخبار کے مالک ہیں۔ ایوگنی اب برطانوی شہری ہیں اور ہاؤس آف لارڈز کے رُکن ہیں۔
یوکرین کے سابق صدر لیوند نے نجکاری اور اقتصادی اصلاحات کی نگرانی کی تھی
یوکرین کے دارالحکومت کیئو میں مقیم آزاد تنظیم یوکرین انسٹیٹیوٹ فار فیوچر نے یوکرین کی سیاست، معاشرے، صنعت اور ملک کی ترقی پر منفی اثرات کے لیے اولیگارکس کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
اپنی رپورٹ میں تنظیم کا کہنا تھا 1990 کی دہائی میں سویت یونین کے زوال کے بعد اور صدر لیوند کچما کی صدارت میں اولیگارک خوب پھلے پھولے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اولیگارکس نے زیادہ تر اثاثے غیر شفاف نجکاری اور افسران کے ساتھ سازباز کر کے حاصل کیے تھے اور اس وقت کے بعد سے اپنے اثاثوں اور کاروبار کو بچانے کے لیے سیاسی نظام پر ان کا کنٹرول جاری ہے۔
اولیگارگس نے دولت کیسے کمائی؟
اس تنظیم کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر وکٹر ایندریو سف نے سنہ 2019 میں ایک تقریب میں کہا تھا کہ ’اولیگارک ایسے لوگوں کا طبقہ ہے جو ایک خاص طریقے سے کاروبار کرتا ہے، ان کا رہن سہن اور اثرورسوخ بھی الگ ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
واشنگٹن کے ولسن سینٹر میں ایک تقریب میں وکٹر ایندریو سف نے کہا ’وہ درحقیقت تاجر نہیں بلکہ دولت مند لوگ ہیں اور جس طرح وہ دولت مند بنے وہ بھی بلکل مختلف طریقہ ہے، انھوں نے خود کاروبار کھڑے نہیں کیے بلکہ ریاست کے کاروبار پر قبضہ کر لیا تھا۔‘
روسی اولیگارکس کی تعداد زیادہ کیوں ہے؟
اکثر لوگ روسی اولیگارکس کی بات کیوں کرتے ہیں؟ اس کی ایک وجہ وہ واقعات ہیں بنے جو 1991 میں سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد رونما ہوئے۔
سنہ 1991 میں کرسمس کے روز سابق سویت یونین کے صدر میخائل گورباچیف نے استعفی دے دیا تھا اور اقتدار بورس یلسن کے حوالے کر دیا تھا، جو نئے روس کے صدر بنے۔
میخائل گورباچیف بورس یلسن کے ساتھ جنہوں نے کرسمس کے دن استعفی دیدیا تھا
کمیونزم (اشتراکی نظام) کے تحت کوئی نجی ملکیت نہیں ہوا کرتی تھی جبکہ کیپٹلِسٹ (سرمایہ دارانہ نظام) روس نے بڑے پیمانے پر صنعتوں، توانائی اور معاشی شعبوں میں بڑے پیمانے پر نجکاری کی۔
جس کے نتیجے میں 1990 کی دہائی میں کئی لوگ نجکاری کے دور میں بے پناہ دولت مند بن گئے۔
اس وقت اگر کوئی صحیح وقت پر صحیح جگہ اور صحیح تعلقات والا انسان تھا تو وہ بڑی بڑی روسی صنعتیں حاصل کر سکتا تھا جو تیل، گیس اور معدنیات جیسے خام مال سے مالا مال تھیں اور دنیا بھر میں اس مال کی زبردست مانگ تھی۔
ان لوگوں نے افسران کو رشوت دے کر خود کو ان صنعتوں کا ڈائریکٹر بنوا لیا۔
ان افراد کے پاس تیل کے کنویں، سٹیل کی فیکٹریاں اور انجینیئیرِنگ کمپنیاں آ گئیں اور انھیں منافع پر بہت ہی کم ٹیکس دینا پڑتا تھا۔
انھوں نے یلسن کی حمایت کی اور سنہ 1996 کے الیکشن میں فنڈز دیے۔
پیوتن کے اولیگارکس
جب پوتن برسراقتدار آئے تو روسی اولیگارکس کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں آ گئی۔ یعنی جو کوئی ان کے سیاسی نظریے کا حامی تھا وہ زیادہ ترقی کر رہا تھا۔
کچھ پرانے اولیگارکس جنھوں نے پوتن کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا، جیسا کہ بینکر بورس بریزو وسکی، انھیں ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور کر دیا گیا۔
میخائل خودوروسکی جنھیں روس کا امیر ترین انسان سمجھا جاتا تھا اب لندن میں رہتے ہیں۔
سنہ 2019 میں جب اولیگارکس کے بارے میں پوچھا گیا تو پوتن نے ’فنانشل ٹائمز‘ اخبار سے کہا تھا ’اب ہمارے یہاں اولیگارکس نہیں ہیں۔‘
پوتن ارب پتی ارکادے روتن برگ کے ساتھ جوڈو ٹریننگ میں
بورس روتن برگ جو بچپن میں پوتن کے ساتھ ایک ہی جوڈو کلب میں ہوا کرتے تھے، اُن کے بارے میں برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ایسے روسی تاجر ہیں جن کے پوتن کے ساتھ نزدیکی تعلقات ہیں۔
فوربز کے مطابق روتن برگ 1.2 ارب ڈالرز کے اثاثوں کے مالک ہیں۔
پوتن کی جانب سے مشرقی یوکرین میں دو علیحدگی پسند خطوں کو تسلیم کیے جانے کے بعد روتن برگ اور ان کے بھائی آرکادے برطانوی پابندیوں کے زد میں آ گئے تھے۔
یوکرین پر روسی حملے کے بعد برطانیہ کے ساتھ ساتھ یوکرین، امریکہ، یورپی یونین، آسٹریلیا اور جاپان نے روسی اولیگارکس کے خلاف پابندیاں عائد کر دی تھیں اور ان پابندیوں میں مزید سختی کا امکان ہے۔
Comments are closed.