خالصتان تحریک: جب ایئر انڈیا کا طیارہ 329 مسافروں سمیت فضا میں تباہ کر دیا گیا
- ریحان فضل
- بی بی سی ہندی، دہلی
آج سے لگ بھگ 51 برس قبل یعنی 12 اکتوبر 1971 کو ڈاکٹر جگجیت سنگھ چوہان نے نیویارک ٹائمز میں ایک اشتہار شائع کروایا جس میں انھوں نے اپنے آپ کو نام نہاد خالصتان کا پہلا صدر قرار دیا۔
اس وقت بہت کم لوگوں نے اس اعلان پر توجہ دی تھی لیکن سنہ 1980 کی دہائی تک خالصتان کی بین الاقوامی تحریک زور پکڑنے لگی تھی۔
انڈیا کی ریاست پنجاب کی پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 1981 سے 1993 تک خالصتان تحریک کے حوالے سے ہونے والے 12 سالہ طویل پرتشدد واقعات میں 21,469 افراد اپنی جانوں سے گئے اور انڈیا کی سب سے خوشحال ریاست پنجاب کی معیشت تباہ حال ہوئی۔
23 جون 1985 کو خالصتانی علیحدگی پسندوں نے کینیڈا کے شہر مونٹریال سے ممبئی جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز پر ایک ٹائم بم رکھا جس کے باعث یہ طیارہ آئرلینڈ کی فضائی حدود میں دورانِ پرواز پھٹ گیا جس کے باعث اس پر سوار تمام 329 افراد ہلاک ہو گئے۔
یہ سنہ 2001 میں امریکہ میں ہونے والے نائن الیون حملوں سے پہلے تاریخ کا سب سے بڑا دہشت گرد حملہ سمجھا جاتا تھا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل سنہ 1984 میں انڈیا میں خالصتان تحریک زور پکڑ چکی تھی جس کے باعث سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر انڈین فوج نے جون میں حملہ بھی کیا۔ اس حملے کے ردعمل میں اسی سال اکتوبر میں انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے دو سکھ باڈی گارڈز نے قتل کر دیا تھا۔
خالصتانی رہنما جگجیت سنگھ چوہان
دو لوگ جنھوں نے چیک ان کیا لیکن جہاز میں سوار نہیں ہوئے
کینیڈا کے برٹش کولمبیا میں تلویندر پرمار کے پیلے رنگ کی پگڑی پہنے ایک ساتھی نے بزنس کلاس کے دو ہوائی ٹکٹ خریدنے کے لیے لگ بھگ تین ہزار ڈالر خرچ کیے۔ وہ وینکوور سے اڑنے والے دو طیاروں میں بارود سے بھرے دو سوٹ کیس رکھنے میں بھی کامیاب رہے جن پر ٹائمرز لگے ہوئے تھے۔
ان طیاروں نے مختلف روٹس اپناتے ہوئے بنکاک اور ممبئی پہنچنا تھا۔
کسی نے نہیں دیکھا کہ دو مسافر، ایم سنگھ اور ایل سنگھ، جنھوں نے ان پروازوں کے لیے چیک اِن کیا، وہ جہاز میں سوار ہی نہیں ہوئے۔ چیک ان کرنے کے بعد وہ ایئرپورٹ سے غائب ہو گئے تھے۔
حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’بلڈ فار بلڈ: ففٹی ایئرز آف دی گلوبل خالصتان پروجیکٹ‘ لکھنے والے کینیڈین صحافی ٹیری میلسکی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایم سنگھ کے پیچھے لائن میں کھڑے مسافر کو آج بھی یاد ہے کس طرح ایم سنگھ بہت محتاط تھے۔ وہ اپنے سوٹ کیس کو انگلی سے دھکیل رہے تھے اور جیسے جیسے مسافروں کی لائن آگے بڑھتی، وہ اپنا سوٹ کیس ہاتھ کی بجائے پیر سے آگے بڑھاتے رہے۔
ایئرپورٹ کے باہر دھماکے کے بعد کا منظر جس میں دو افراد ہلاک ہوئے
55 منٹ کے وقفے سے دو طیارے تباہ ہو گئے
ایم سنگھ کی جانب سے برتی جانے والی اتنی احتیاط کی وجہ کیا تھی، یہ کچھ دیر ہی میں معلوم ہونے والا تھا۔
پہلا بم اس وقت پھٹا جب جاپان کے ناریتا ہوائی اڈے پر جہاز سے سامان اُتار کر ایئر انڈیا کے ہوائی جہاز میں لوڈ کیا جا رہا تھا۔ اس دھماکے میں سامان رکھنے والے ایئرپورٹ عملے کے دو افراد ہلاک ہوئے، جبکہ چار لوگ زخمی ہوئے۔
مگر یہ بم وقت سے پہلے کیوں پھٹ گیا؟ اس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ بم رکھنے والوں نے وقت غلط سیٹ کیا یا پھر سوٹ کیس اُتارتے وقت اس کو غلط طریقے سے دھکیلا گیا جس سے اس کے اندر موجود بم قبل از وقت ہی پھٹ گیا۔
ٹھیک پچپن منٹ بعد دوسرا دھماکہ ہوا لیکن اس بار وقت اور مقام دونوں ہی دہشت گردوں کے چنے ہوئے تھے۔
ایئر انڈیا کی فلائٹ نمبر 182 اس وقت آئرلینڈ کی فضا میں داخل ہو چکی تھی جب زوردار دھماکے سے طیارے میں سوار 329 لوگ ہلاک ہو گئے۔
شینن ہوائی اڈے کے ٹریفک کنٹرول کے ٹرانسکرپٹس کے مطابق: صبح 7 بج کر 14 منٹ پر ہلکی سی چیخ سنائی دی اور ایسا معلوم ہوا جیسے ہوا کا ایک جھونکا پائلٹ کے مائیکروفون سے ٹکرایا ہو۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ ٹریفک کنٹرول کے کنٹرولر نے مسلسل تین منٹ تک طیارے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
اسی وقت، اس نے پیچھے سے آنے والے ٹی ڈبلیو اے کے طیارے کے پائلٹ سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا وہ اپنے ارد گرد کچھ دیکھ سکتا ہے۔ پائلٹ نے جواب دیا کہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکتے۔
یہ بھی پڑھیے
ایئر ٹریفک کنٹرولر نے اس کے پیچھے آنے والے کینیڈین پیسفک ایئر کے طیارے سے بھی رابطہ کیا لیکن کوئی مثبت جواب نہیں ملا۔
اب طیارے سے رابطہ منقطع ہوئے اب چھ منٹ گزر چکے تھے۔
کنٹرولر نے ٹی ڈبلیو اے کے طیارے سے علاقے کا چکر لگانے کی درخواست کی۔ کینیڈین پیسفک ایئر کے طیارے کا پائلٹ بھی نیچے دیکھ رہا تھا۔ اس نے کنٹرولر سے پوچھا، کیا آپ ایئر انڈیا کے طیارے کو ریڈار پر دیکھ سکتے ہیں؟
جواب ملا، نہیں۔ وہ سکرین سے غائب ہے۔
،تصویر کا ذریعہTHE CORK EXAMINER
131 لاشیں ہی نکالی جا سکیں
اب 20 منٹ گزر چکے تھے۔ ٹی ڈبلیو اے کی فلائٹ میں ایندھن ختم ہو رہا تھا۔ پائلٹ نے واپس لندن جانے کی اجازت مانگی۔
ادھر ایک برطانوی کارگو طیارے نے ایک جہاز کا ملبہ دیکھا تو انکشاف ہوا کہ ایئر انڈیا کا طیارہ گر چکا تھا۔
طیارہ 31 ہزار فٹ کی بلندی سے بحر اوقیانوس میں گرا تھا۔ اتنی بلندی سے گرنے کے بعد تمام تر تلاش کے باوجود صرف 131 لاشیں ہی نکالی جا سکیں۔
حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں 268 کینیڈین بھی شامل تھے جن میں سے زیادہ تر انڈین نژاد تھے جب کہ 27 برطانوی اور 24 انڈین شہری بھی تھے۔
18 سال بعد، مس ڈی نے وینکوور میں جاری مقدمے کی سماعت میں مرنے والوں کے لواحقین کے سامنے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ اس نے ببر خالصہ فنڈ اکٹھا کرنے والے رپو دمن سنگھ ملک کو یہ کہتے ہوئے سُنا کہ ‘اگر طیارہ ناریتا ہوائی اڈے پر وقت پر اُترتا، تو پھر کہیں زیادہ نقصان ہوتا، زیادہ اموات ہوتیں اور لوگوں کو معلوم ہوتا کہ ہم کیا ہیں، انھیں خالصتان کا مطلب معلوم ہوتا اور انھیں اندازہ ہوتا کہ ہم کس کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘
فلائٹ نمبر 182 دھماکے میں ہلاک ہونے والے راموتی کے بیٹے سشیل گپتا کی عمر اس وقت صرف 12 سال تھی۔
جب اس واقعے کی عدالتی انکوائری شروع ہوئی تو ان کی عمر 33 سال ہو چکی تھی۔ بعد ازاں انھوں نے کمیشن آف انکوائری کے سامنے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ ’کینیڈا کے سرکاری افسران کو ہماری کوئی پرواہ نہیں تھی۔ ان کی نظروں میں یہ ان کا نہیں بلکہ انڈیا کا دکھ تھا۔ انھیں اس بات سے بھی فرق نہیں پڑتا تھا کہ ہم کینیڈین شہری تھے۔‘
تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ طیارے میں بم کینیڈین شہریوں نے نصب کیے تھے۔
کینیڈا میں آنے والی ہر حکومت نے دعویٰ کیا کہ انھیں ایئر انڈیا کے طیارے پر حملے کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ لیکن حقائق اس کے برعکس تھے۔
ٹیری میلسکی لکھتے ہیں کہ ’آج تک نو ملزمان میں سے صرف ایک اندرجیت سنگھ کو سزا سُنائی گئی۔ 21 سال بعد جب جوڈیشل کمیشن بنایا گیا، تب ہی لوگوں کو پتہ چلا کہ غلطی کہاں ہوئی۔‘
سنہ 1982 میں ہی کینیڈین سکیورٹی فورسز کو معلوم ہو چکا تھا کہ ببر خالصہ کی سرگرمیاں کینیڈا میں جاری ہیں اور یہ بھی واضح تھا کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے کیوںکہ تلویندر پرمار اپنی تقریروں میں کہہ رہے تھے کہ انڈین طیارے آسمان سے گریں گے۔
پیشگی انٹیلیجنس
کینیڈین سکیورٹی ایجنسی نہ صرف ببر خالصہ کے لیڈر تلویندر پرمار کو ٹریک کر رہی تھی بلکہ ایئر انڈیا کے طیارے پر بمباری سے تین ماہ پہلے تک ان کی گفتگو بھی ٹیپ کر رہی تھی۔
کمیشن آف انکوائری کی سماعت میں گواہی دیتے ہوئے، کینیڈا کی خفیہ ایجنسی سی ایس آئی ایس کے ایجنٹ رے کوبزی نے کہا کہ ہم دیکھ سکتے تھے کہ تلویندر پرمار تشدد پر تلے ہوئے تھے۔ جیسے ہی مجھے معلوم ہوا کہ ایئر انڈیا کی فلائٹ 182 کریش ہو گئی ہے، میرے منھ سے یہ نکلا کہ یہ پرمار نے ہی کیا ہو گا۔
اگست سنہ 1984 میں ایک فرانسیسی نژاد کینیڈین مجرم گیری بوڈراؤ نے رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس کو بتایا کہ وینکوور کے کچھ سکھوں نے انھیں مونٹریال سے لندن جانے والی ایئر انڈیا کی فلائٹ 182 میں بم رکھنے کے لیے دو لاکھ ڈالر نقد کی پیشکش کی تھی۔
بوڈراؤ نے کہا کہ ’ایک شخص میرے پاس پیسوں سے بھرا سوٹ کیس لے کر آیا۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سے گھناؤنے جرائم کیے ہیں لیکن ہوائی جہاز میں بم رکھنا میرے مزاج میں نہیں تھا۔ اس لیے میں نے پولیس کو بتا دیا۔‘
پولیس کو بوڈراؤ کی کہانی پر یقین نہیں آیا۔ لیکن ایک ہی ماہ بعد ایک اور شخص نے پولیس کو اسی منصوبے کی اطلاع دی۔ اس بار ایک سکھ ہرمیل سنگھ گریوال نے وینکوور پولیس کو بتایا کہ ان کے چند ساتھی گیری بوڈراؤ نامی شخص کے ذریعے انڈین طیارہ اڑانے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔ گریوال نے دو طیاروں اور دو بموں کی بات کی جو بعد میں سچ ثابت ہوئی۔
آئرلینڈ میں مرنے والوں سے اظہار عقیدت
بہت سے اشارے جو نظر انداز ہوئے
دراصل، ایئر انڈیا کے طیارے میں بم چلنے سے تین ہفتے پہلے ہی ایئر انڈیا اور رائل کینیڈا ماؤنٹڈ پولیس کو معلوم ہو چکا تھا کہ جہاز میں ’کیری آن‘ سامان میں ٹائم بم چھپا کر جہاز میں رکھنے کی سازش ہونے والی ہے۔
لیکن اس کے باوجود ایک سوٹ کیس کو بغیر چیک کیے جہاز میں لے جانے دیا گیا۔
مزید پڑھیے
چار جون 1985 کو جب پرمار وینکوور جزیرے پر یہ دیکھنے گئے کہ اندرجیت کس طرح بم بنا رہے ہیں، تو دو کینیڈین خفیہ ایجنسی کے اہلکار ان کا پیچھا کر رہے تھے لیکن ٹیری میلیکسی کے مطابق انھوں نے حکام کو کوئی اطلاع نہیں دی۔
ٹیری کے مطابق خفیہ ایجنسی اہلکاروں کو بتایا گیا تھا کہ ان کا کام صرف پرمار کی نگرانی کرنا ہے، کسی کام میں مداخلت نہیں کرنا، اس لیے انھوں نے کبھی کینیڈین پولیس کو پرمار کو روکنے یا تلاشی لینے کے لیے نہیں کہا۔
حادثے میں مرنے والوں کی لاشیں
سکھوں کو ایئر انڈیا سے سفر نہ کرنے کا مشورہ
اس واقعے سے یہ بات سامنے آئی کہ سکیورٹی اداروں کے درمیان کوئی ہم آہنگی نہیں تھی۔
کمیشن آف انکوائری کے سربراہ جسٹس جان میجر نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اگر کینیڈین پولیس کو معلوم ہوتا کہ CSIS کیا جانتی ہے، اور اگر CSIS کو معلوم ہوتا کہ کینیڈین پولیس کیا جانتی ہے، تو یہ یقینی ہے کہ ایئر انڈیا کے طیارے کو گرانے کا منصوبہ ناکام بنا دیا جاتا۔
پرمار اور عجائب سنگھ طیارہ گرنے سے دو ہفتے پہلے ایک ساتھ ٹورنٹو گئے جہاں گرودوارے میں انھوں نے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ ایئر انڈیا کا سفر نہ کریں، کیونکہ یہ محفوظ نہیں ہو گا۔
بم بنانے والے اندرجیت سنگھ جنھیں سزا ہوئی
بعد ازاں ایئر انڈیا کمیشن آف انکوائری کے سامنے گواہی دیتے ہوئے پرکاش بیدی نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ برٹش ایئرویز کی پرواز میں زیادہ تر مسافر سکھ تھے جبکہ ایئر انڈیا میں سکھوں کی تعداد بہت کم تھی۔ میں نے اپنے دوست سے یہ بھی پوچھا کہ برٹش ایئرویز کی فلائٹ میں اتنے سکھ کیوں سفر کر رہے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ سکھ ایئر انڈیا کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔
12 جون کو وینکوور سٹی پولیس نے سکھ انتہا پسندوں کی ایک میٹنگ کی جاسوسی کی جہاں انٹرنیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن کے منموہن سنگھ نے پرمار کے حامی پشپندر سنگھ پر الزام لگایا کہ انھوں نے اتنے لوگوں کو ہلاک نہیں کیا جتنے کہ انھیں مارنا چاہیے۔
کانسٹیبل گیری کلارک مارلو نے ایئر انڈیا کے مقدمے میں پیش کیے گئے اپنے حلف نامے میں کہا کہ منموہن سنگھ نے پشپندر سنگھ کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے شکایت کی کہ ابھی تک کوئی انڈین سفیر مارا نہیں گیا، تم کیا کر رہے ہو؟
اس پر پشپندر سنگھ نے جواب دیا، آپ دیکھیں گے، دو ہفتوں میں کچھ نہ کچھ ہو جائے گا۔
اس کے 11 دنوں کے اندر ہی انڈین طیارہ پھٹ گیا۔
Comments are closed.