روس، یوکرین کشیدگی: کیا یہ ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ہے؟
- جان سمپسن
- ایڈیٹر بین الاقوامی امور
یہ بہت حد تک ایک عہد کے خاتمے کی طرح محسوس ہوتا ہے۔ نومبر 1989 میں جب جرمنی کی دیوار برلن کو گرایا گیا تو ہم نے یہ سمجھا کہ دنیا کی مشرق اور مغرب کی پرانی تفریق اب تاریخ کا حصہ بن گئی ہے۔
تاہم سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونیزم کے درمیان نظریاتی اختلاف ختم ہو گیا تھا۔ اس وقت ایک ایسے احساس نے جنم لیا تھا کہ بنیادی طور پر ہم سب ایک ہی سمت میں بڑھ رہے ہوں۔
مشرقی جرمنی میں مقیم اور ایک زمانے میں روس کی بدنام زمانہ انٹیلیجنس ایجنسی ‘کے جی بی’ میں جاسوسی کے فرائض سرانجام دینے والے ولادیمیر پوتن کے لیے اس وقت بھی مشکل یہ تھی کہ پرانے سوویت یونین کا انہدام ان کے لیے ایک تلخ ذاتی ناراضگی میں تبدیل ہو گیا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدتر ہوتی گئی۔
حقیقت یہ بھی ہے کہ یوکرین جو کبھی سوویت یونین کا حصہ تھا اس کا روسی فیڈریشن سے الگ ہو جانا پوتن کی نظر میں ایک طرح کی بے عزتی تھی۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ روس نے نئی یوکرینی ریاست کو تسلیم کرنے کے ایک بین الاقوامی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
سنہ 2014 میں صدر پوتن نے اپنے فوجی بھیج کر یوکرین کے سب سے زیادہ علامتی روسی علاقے کریمیا پر دوبارہ قبضہ کرنے کا راستہ نکال لیا تھا۔
انھوں نے اسے ملک کے دیگر حصوں سے کاٹ کر رکھ دیا تھا اور بعد ازاں وہاں کی بیشتر نسلی روسی آبادی کا ریفرنڈم کروا کر انھوں نے اسے روس کا حصہ بنا لیا تھا۔
یہ اقدام بین الاقوامی قانون کے خلاف تھا لیکن مغرب پھر بھی اس بات پر بضد رہا کہ وہ پوتن کے روس کے ساتھ کاروبار کر سکتا ہے۔
اس وقت بھی تقاریر کی گئیں اور پابندیاں عائد کی گئی تھیں، لیکن ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا تھا جس نے صدر پوتن یا ان کے ساتھیوں کو اس بارے میں ایک دفعہ بھی سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کیا ہو۔
ایسا ہی کچھ اس وقت بھی ہوا تھا جب پوتن کے دشمن یا روس کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کے پرانے افراد یا ایف ایس بی میں اس کے جانشینوں کو غدار قرار دیا گیا، یا انھیں زہر دیا گیا یا برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں انھیں ٹھکانے لگایا گیا تھا۔
مغرب نے روس کو خبردار کیا تھا اور نئی پابندیاں عائد کر دی تھیں لیکن پوتن کا روس ان پابندیوں کے ساتھ جینے کو تیار تھا۔
گذشتہ 10 برسوں میں روس نے چین کے ساتھ مل کر عالمی سطح پر ایک نیا بلاک بنانا شروع کیا، جو لازمی نہیں کہ مغرب کے لیے جارحانہ عزائم رکھتا ہے لیکن یہ بلاک مغربی تنقید کی صورت میں ایک دوسرے کو مدد فراہم کرتا ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ اور روسی صدر پوتن نے یہ مشترکہ گروپ تشکیل دیا ہے جس کے بعد چین، روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرنے سے انکاری ہے اور تائیوان جو چین کے زیر اثر ہے اور جس کے بارے میں چینی صدر نے ہمیشہ کہا ہے کہ وہ وہاں حملہ نہیں کریں گے، اب وہاں کے لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ اگلی باری ان کی ہے؟
اگر ایسا ہے تو مجموعی طور پر یہ دنیا آج سے چند سال پہلے کی نسبت رہنے کے لیے ایک بہت بری جگہ ہے۔
اگر موازنہ کیا جائے تو پرانی سرد جنگ کے دوران کے سال بہت آسان تھے اور دنیا کے بہت سے حصوں پر حکمرانی کے اصول کافی واضح تھے۔
اگر ایک ملک دوسرے بلاک کے ملک پر حملہ کرتا تو مشترکہ تباہی کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا۔ لہٰذا ایسا کبھی نہیں ہوا حالانکہ ایک سے زیادہ مرتبہ جنگ بہت حد تک قریب آ چکی تھی۔
لیکن کمیونزم کے خاتمے کے بعد سے پرانے اصولوں کی کتاب کو پھاڑ کر پھینک دیا گیا۔ اب سرحدیں اتنی مبہم ہیں کہ کوئی نہیں جانتا کہ ریڈ لائن کہاں ہے۔
اگر ماضی کی جھلک میں دیکھا جائے تو اب بھی بہت کچھ ویسا ہی شروع ہو رہا ہے۔ چند سیاستدانوں اور ماہرین تعلیم کا کہنا ہے کہ شاید نیٹو کو دیوار برلن کے گرنے کے بعد اپنے نظریہ کو مکمل طور پر تبدیل کر دینا چاہیے تھا۔
اسے مشرقی یورپ میں موجود اپنے پرانے سیٹلائٹس کو استعمال کرتے ہوئے ماسکو کی تذلیل نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اور انھیں اس طرح ایک ساتھ قطار میں کھڑا نہیں کرنا چاہیے تھا جس سے بظاہر پوتن کے روس کو تصادم کا راستہ اپنانا پڑا۔
یہ تجویز کہ ایک دن شاید یوکرین بھی نیٹو اتحاد میں شامل ہو جائے (جبکہ ایسا ہونے کی توقع بہت کم ہے)، اور کریملن پر چڑھائی کر دے اور روسی صدر پوتن کو اس بات پر اکسانے پر مجبور کر دے کہ وہ ہمیشہ کے لیے یوکرین کے مسئلے سے نمٹ لیں۔
یہ بھی پڑھیے
سب جانتے ہیں کہ یہ ان کی پالیسی ہے اور صرف ان اکیلے کی ہی پالیسی ہے۔ متعدد روسی سیاستدان اور حتیٰ کہ چند اہم فوجی شخصیات بھی کسی حملے کے خلاف پہلے ہی سامنے آ گئے۔ لیکن پوتن اپنی پالیسی سے پیچھے نہیں ہٹے۔
اب اگر وہ یہ داؤ جیتنا چاہتے ہیں تو انھیں اس کو مکمل کرنا ہے اور روس کو اس جنگ میں ایک واضح فاتح کے طور پر سامنے آنا ہے۔ لیکن اس قسم کی عسکری مہمات غلط نتائج کے لیے بدنام ہیں۔
آٹھ برس قبل پوتن کریمیا میں کامیاب ہوئے تھے اور اپنے ملک میں ان کی ساکھ کو بہت سہارا اور مضبوطی ملی تھی۔
شاید وہ یوکرین فوج کے بیچ سے راستہ بناتے دوبارہ کامیاب ہو جائیں اور کچھ اہم فائدے بھی حاصل کر لیں اور پھر تیزی سے وہاں سے انخلا کریں اور وکٹری پریڈ کا انعقاد کریں۔
ایسا بالکل ممکن ہے۔ لیکن ذرا سوچیئے کہ اگر ایسا نہیں ہوتا، اگر روسی فوج کا بھاری جانی نقصان شروع ہو جائے اور روس پر عائد پابندیوں پر عملدرآمد شروع ہو جائے تو پوتن کی اپنی ساکھ اور پوزیشن متاثر اور غیر مستحکم ہو گی۔
اس وقت وہ کیا کریں گے؟ اس کا صرف ایک ہی جواب ہے، وہ داخلی سطح پر ہونے والی کسی بھی تنقید کو قومی سلامتی کے نام پر پہلے سے زیادہ زور اور طاقت سے دبا دیں گے۔
روس اب ماضی کے مقابلے میں حیران کن طور پر زیادہ آزاد معاشرہ ہے۔ یقیناً اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ روس کی معیشت متاثر ہو گی اور ایسے میں چینی مدد نقصان کا ازالہ نہیں کر سکے گی۔
لہٰذا ولادیمیر پوتن، جن کے بارے میں بظاہر یہ خیال ہے کہ انھوں نے سوویت یونین کے خاتمے پر 30 سالہ پرانی رنجش کے باعث یوکرین پر حملہ کیا ہے شاید روس کو سوویت یونین کے دور میں واپس لے جائیں۔
مغرب جس نے ایک طویل عرصے تک یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ روس دیگر ممالک کی طرح محض ایک عام ملک ہے جس کے ساتھ کاروبار کیا جا سکتا ہے۔ اس کو شاید یہ دھچکا لگے کہ سرد جنگ کے پرانے دن اور وہ بھی زیادہ شدت کے ساتھ لوٹ آئے ہیں۔
Comments are closed.