روس اور یوکرین کا بحران چین کے لیے بڑا چیلنج کیوں؟
- سٹیفن میکڈونل
- بی بی سی نیوز، بیجنگ
روس اور چین کے تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ گہرے ہیں
روسی صدر ولادیمیر پوتن کے مشرقی یوکرین میں فوجی آپریشن کے اعلان سے چند گھنٹے قبل امریکہ نے ماسکو اور بیجنگ پر ’شدید غیر لبرل‘ عالمی نظام قائم کرنے کا الزام لگایا۔
ایسی صورتحال میں جب نیڈ پرائس نے چین کے رہنما شی جن پنگ کے ساتھ اسی دن سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب کے دن ’نو لمٹس‘ معاہدے پر دستخط کیے تھے، اس کے باوجود وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے یہ بھی کہا کہ یہ چین کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ روس کو پیچھے ہٹنے کے لیے اپنے اثرورسوخ کا استعمال کرے۔
مسٹر پرائس نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ ’آپ کو پی سی آر (چین) سے پوچھنا پڑے گا کہ کیا انھوں نے اس مقصد کے حصول کے لیے روسی فیڈریشن پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔‘
یوکرین اور روس کا بحران چین کے لیے کئی محاذوں پر ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔
روس اور چین کے درمیان ہمیشہ کے قریبی سفارتی تعلقات سرمائی کھیلوں میں دیکھے جا سکتے ہیں کیونکہ بیجنگ میں شرکت کرنے والے چند معروف عالمی رہنماؤں میں سے ایک روسی صدر پوتن بھی تھے۔
اہم بات یہ ہے کہ مسٹر پوتن نے یوکرین کے دو علیحدہ ہونے والے علاقوں کو تسلیم کرنے اور ان کی پشت پناہی کے مقصد سے فوج بھیجنے کے لیے سرمائی کھیلوں کے ختم ہونے کا انتظار کیا۔
عوامی طور پر اپنے اعلانات میں چینی حکومت نے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرین میں کشیدگی کو کم کریں لیکن اب جبکہ روس نے اس طرح کے تمام نظم و ضبط کو ختم کر دیا ہے تو پھر جھڑپوں میں اضافے کے بعد چین کی سرکاری پوزیشن کیا ہے؟
چینی حکومت کا خیال ہے کہ اسے یورپ میں جنگ کی حمایت کرتے ہوئے نہیں دیکھا جانا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ماسکو کے ساتھ فوجی اور عسکری تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتی ہے۔
دوسری جانب یوکرین کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر چین ہے۔ ایسے میں بیجنگ مثالی طور پر کیئو کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا چاہے گا لیکن اسے برقرار رکھنا اس کے لیے مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ وہ واضح طور پر اس حکومت کے ساتھ بہت جڑا ہوا ہے جو یوکرین کے علاقے میں اپنی فوجیں بھیج رہی ہے۔
چین کو مغربی یورپ سے تجارتی سطح پر اس صورت میں خاطر خواہ دھچکا لگ سکتا ہے اگر اس کے بارے میں یہ سمجھ لیا جائے کہ وہ روسی جارحیت کی حمایت کر رہا ہے۔
مزید برآں، چین کے رہنماؤں کی طرف سے مسلسل یہ گریز دیکھا گیا ہے کہ وہ دوسروں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور یہ چاہتا ہے کہ دوسرے ممالک بھی اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کریں۔
ایک اعلیٰ سطحی چینی سفارت کار لیو شیاؤمنگ نے ایک حالیہ ٹویٹ میں اس بات کا اعادہ کیا کہ چین نے ’کبھی دوسرے ممالک پر حملہ نہیں کیا اور نہ ہی پراکسی جنگوں میں شامل رہا۔‘
اس کے ساتھ انھوں نے مزید کہا کہ چین امن کی راہ پر گامزن رہنے کے لیے پرعزم ہے لیکن جیسا کہ سابق امریکی انٹیلیجنس افسر جان کلور نے ٹویٹر پر پوسٹ کیا کہ ’یوکرین کے کچھ حصوں کو روس میں شامل کیے جانے یا کیئو پر حملہ اور قبضہ، چین کے ’خودمختاری مقدس ہے‘ جیسے مؤقف کی خلاف ورزی ہے۔’
تاہم چینی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے یوکرین پر حملے کی مذمت کرنے یا وہاں جو کچھ ہو رہا ہے اسے ’حملہ‘ قرار دینے سے انکار کر دیا ہے۔
مسٹر وانگ نے کہا کہ چین اب بھی یوکرین کو ایک جائز ریاست کے طور پر تسلیم کرتا ہے لیکن انھوں نے اس بات پر کوئی تبصرہ نہیں کیا کہ آیا بیجنگ مشرقی یوکرین کی علیحدہ ہونے والی جمہوریہ کو تسلیم کرے گا یا نہیں؟
نقطوں کو ملانا
کمیونسٹ پارٹی کے لیے سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ اس کے اپنے لوگوں اور ان کے عالمی نظریہ کو کہاں تک لے جا سکتا ہے۔
اس وجہ سے وہ پریس اور سوشل میڈیا میں یوکرین کی صورتحال کے بارے میں ہونے والی باتوں میں جوڑ توڑ اور اسے کنٹرول کر رہا ہے۔
تائیوان کو اس معاملے میں گھسیٹنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔
چین کی کمیونسٹ پارٹی اس خود مختار حکومت والے جزیرے تائیوان کو بنیادی طور پر ایک ایسے صوبے کے طور پر دیکھتی ہے جسے وہ چین کے مین لینڈ کے تحت لانا چاہتی ہے۔
ٹوئٹر کے ہم پلہ چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو پر چینی قوم پرستوں نے یوکرین پر روس کے حملے کی مثال دیتے ہوئے اپنے ملک کو اسی طرح کے اقدام کی پیروی کی بات کہی اور وہاں اس قسم کے تبصرے نظر آ رہے ہیں کہ ’یہ تائیوان کو واپس لینے کا بہترین موقع ہے۔‘
ابھی جب چینی حکومت نے روس پر پابندیاں عائد کرنے کو مسترد کر دیا تو اسے معلوم تھا کہ اگر وہ طاقت کے ذریعے تائیوان پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے بھی اسی طرح کے سلوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور یہ کہ یہ ایک خونی اور مہنگی مشق ہو گی۔
وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونینگ نے بیجنگ میں ہونے والی معمول کی پریس بریفنگ میں کہا کہ چین کے خیال میں پابندیاں کبھی بھی مسائل کے حل کا بہترین طریقہ نہیں۔
لیکن اگر چینی شہری یوکرین پر حملہ کرنے کے روسی جواز کو اپنے ملک کے حالات سے ملانے لگیں تو یہ چینی حکومت کی اپنی موجودہ سرحدوں کی پوری وضاحت کو درہم برہم کر سکتا ہے۔
ولادیمیر پوتن کا کہنا ہے کہ وہ یوکرین کے اندر روسی بولنے والوں کو آزاد کر رہے ہیں۔ ایسے میں نسلی منگولین، کوریائی، کرغز اور اس طرح کے لوگوں کے بارے میں کیا خیال ہے جو اب چین کا حصہ ہیں؟
بیجنگ کے لیے ممکنہ طور پر زیادہ دھماکہ خیز بات یہ ہوگی کہ اگر تبتی یا اویغور زیادہ خود مختاری، حتیٰ کہ آزادی کے مطالبات کی تجدید کرنا شروع کر دیں تو پھر کیا ہوگا؟
اور ایسا نہ ہو یہ شی جن پنگ کی انتظامیہ کے لیے کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہے۔
یہ بھی پڑھیے
اس کے پیش نظر آپ صرف چینی سوشل میڈیا پر ہونے والے تبصرے دیکھیں کہ پارٹی کا میڈیا آبادی کو کس سمت میں لے جا رہا ہے اور کس طرح انھیں مشرقی یورپ میں مسٹر پوتن کی چالوں کو دیکھنا چاہیے۔
ریاستی پریس کے ویبو پر اپنے اکاؤنٹس ہیں اور وہ روس اور یوکرین کے بارے میں اپنی پوسٹس کے جوابات کو کنٹرول کرتا ہے۔
یہاں نمونے کے طور پر چند تبصرے دیکھے جا سکتے ہیں:
’پوتن بہت با رعب ہیں، میں روس کی حمایت کرتا ہوں، امریکہ کی مخالفت کرتا ہوں۔ میں صرف اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں، امریکہ ہمیشہ دنیا میں گڑبڑ پیدا کرنا چاہتا ہے۔‘
بہت سے لوگ امن کی بات بھی کرنے والے ہیں لیکن امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنانے والی پوسٹس کو بہت زیادہ فروغ دیا جا رہا ہے۔
یوکرین میں روس کے عزائم پر سوال کرنے والے چینی لوگوں کے لیے آپ کو انفرادی ویبو اکاؤنٹس تلاش کرنا ہوں گے جو پارٹی میڈیا تھریڈز سے منسلک نہ ہوں۔
ایک صارف نے لکھا: ’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اتنے لوگ روس اور پوتن کی حمایت کیوں کرتے ہیں۔ کیا حملے کو انصاف کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے؟ ہمیں کسی بھی قسم کی جنگ کی مخالفت کرنی چاہیے۔‘
ایک اور صارف کے مطابق ’پوتن یوکرین کے علیحدگی پسند علاقوں کی آزادی کو تسلیم کرتے ہیں، جو واضح طور پر کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہے۔‘
اور یہ وہ پوسٹ ہے جس میں واضح طور پر لب لباب بیان کر دیا گیا ہے لیکن بیجنگ اس طرح کے لوگوں کو سامنے آنے نہیں دینا چاہتا۔
یوکرین میں موجود چین کے سفارتخانے نے وہاں رہنے والے چینی شہریوں کو ایک پیغام بھیجا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ چینی لوگ اپنی گاڑیوں پر چینی پرچم لگائیں اور ’چین کی طاقت‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’ایک دوسرے کی مدد کریں۔‘
ایک پریس کانفرنس میں جب یہ پوچھا گیا کہ کیا اس وقت یوکرین میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ حملے کے مترادف نہیں تو وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چونینگ نے کہا کہ اس کا ’تاریخی تناظر پیچیدہ ہے‘ اور یہ کہ موجودہ صورتحال ’مختلف عوامل کی وجہ سے‘ ہے۔
یورپ میں ایک بڑی ہلچل مچی ہوئی ہے۔ شی جن پنگ کو اس حوالے سے کچھ بڑے فیصلے کرنے ہیں کہ ان کا ملک اس سے کیسے نمٹے گا۔
Comments are closed.