بی بی سی یوکرینی سروس کی ایڈیٹر کی جنگ کے سائے میں کیئو سے نکلنے کی ڈرامائی کہانی
- مارتا شوکالو
- ایڈیٹر بی بی سی یوکرین سروس
بی بی سی یوکرینی سروس کی ایڈیٹر مارتا شوکالو
رات کے تین بجے میری آنکھ کھلی اور میں نے خبروں کا جائزہ لیا تو یہ احساس ہوا کہ مجھے اور میرے بیٹے کو کیئو کو چھوڑ کر نکلنا ہو گا۔ شہر کی سڑکوں پر شمال اور دیگر سمتوں سے بڑی تعداد میں ٹینک آ رہے تھے۔ یہ واضح ہو چکا تھا کہ روسی فوج شہر کا محاصرہ کر رہی ہے اور جلد ہی وہ یہاں داخل ہو جائیں گے۔
فضائی حملے کے خطرے کے پیش نظر بجائے جانے والے سائرن سے ہمیں بتایا گیا تھا کہ صبح آٹھ بجے تک فضائی حملے کا خطرہ ہے۔ اور خبروں کا تیس منٹ تک جائزہ لینے کے بعد میں نے قریب ہی دھماکوں کی آواز سنی۔
بی بی سی یوکرین سروس کی ایڈیٹر مارتا شوکالو نے اپنے اس تجربے کے بارے میں تحریر کیا ہے جب انھوں نے جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب اپنے دس سالہ بیٹے کے ہمراہ شہر سے نکلنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت کیئو پر روسی فوجی ٹینک قبضے کے لیے چڑھائی کر رہے تھے اور شہر دھماکوں کی آوازوں سے لرز رہا تھا۔
جمعرات کو بہت سے افراد کیئو چھوڑ کر ملک کے مغربی شہر لیوو اور پولش سرحد کی جانب نکل رہے تھے۔ میں نے اپنے شوہر کو فون کیا جو اس وقت گھر سے دور تھے اور ان کے ساتھ یہ طے کیا کہ مشرقی علاقے میں ان کے والدین کے گاؤں کی جانب سفر کیا جائے جو یوکرین کے دیہی علاقوں میں موجود تھا۔
ہم نے یہ فیصلہ اپنے دس سالہ بیٹے کی وجہ سے کیا تھا جس نے جمرات کا پورا دن کیئو میں دھماکوں کے باعث خوف سے کانپتے ہوئے گزارا تھا۔ میں نے اپنا سامان باندھنا شروع کیا۔ ایسے وقت میں جب آپ کو یہ علم نہ ہو کہ آپ کی واپسی کب ہو گی آپ کتنا سامان اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ میں نے سوئمنگ کاسٹیومیز بھی رکھ لیے کہ کیا پتا گرمیوں تک ہمیں گاؤں میں ہی رہنا پڑے۔
ہم نے صبح ساڑھے سات بجے کرفیو ختم ہوتے ہی اپنے سفر کا آغاز کیا اور کیئو کی مشرق کی جانب گاڑی چلاتے ہوئے ہم دوسری جانب نکل گئے۔ جس سمت میں، میں سفر کر رہی تھی اس وقت وہاں کی تمام سڑکیں خالی تھیں۔ شہر کے باہر ہم یوکرینی فوج کے ٹینکوں کے پاس سے گزرے جو ہماری مخالف سمت یعنی کیئو شہر کی جانب جا رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیے
میں یہ نہیں جانتی تھی کہ راستے میں میرا روسی فوج کے ساتھ سامنا ہوگا یا مجھے کوئی روڈ بلاک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میں اس وقت اپنی تمام توجہ صرف اس پر مرکوز کیے ہوئے تھی کہ ‘ہمیں وہاں( والدین کے گاؤں) تک پہنچنا ہے، ہمیں کسی بھی حال میں وہاں تک پہنچنا ہے۔’
میں راستے میں کچھ دیر کے لیے رکتی اور جنگ کی تازہ ترین صورتحال کے لیے اپنا فون چیک کرتی۔ اس دوران مجھے معلوم ہوا کے کیئو کے شمالی مضافاتی علاقے اوبولون کی گلیوں میں شدید لڑائی جاری ہے۔
وہاں رہنے والے میرے ساتھی وہاں سے نکلنے کی کوشش میں تھے۔ اگرچہ یہ ایک خوبصورت سنہرا دن تھا لیکن اس سب میں یہ بری چیزیں ہو رہیں تھی۔ دیہی علاقوں میں موسم بہار کا آغاز ہو رہا تھا، یہ بالکل افسانوی تھا۔
چند گھنٹوں کی مسافت کے بعد ہم بلآخر گاؤں پہنچ گئے۔ گاڑی چلاتے ہوئے میں ان شہتوت کے درختوں کے قریب سے گزری جہاں گذشتہ موسم گرما میں ہم پھل اکٹھا کرتے ہوئے بہت خوش تھے۔
میں آج بھی خوش تھی لیکن ایک اور طرح سے، مجھے خیریت سے کیئو سے نکلنے کی خوشی تھی۔ مجھے زندہ بچ نکلنے کی، اپنے بچے کی ساتھ ایک محفوظ مقام پر پہنچنے کی خوشی تھی۔
اپنے سسرال کے ساتھ میں نے گذشتہ چوبیس گھنٹوں میں پہلی مرتبہ اچھے سے کھانا کھایا تھا۔ یہاں کھانے کے دوران یہ بات چیت جاری تھی کی سرحدی فوج کے ساتھ لڑنے کے لیے کون کون گیا ہے۔ لیکن یہ گاؤں جنگ کی اثرات سے بچا ہوا تھا اور میں امید کرتی ہو کہ یہ بچا ہی رہے۔
میرے پاس یہاں انٹرنیٹ کنکشن ہے اور میں یہاں سے کام کر سکتی ہوں۔ اگر بجلی کاٹ دی جاتی ہے تو ہمارا پاس جنریٹر موجود ہے۔
اب میری سب سے اہم ذمہ داری میرے بی بی سی کے ساتھیوں کی حفاظت ہے۔ جن میں سے کچھ کیئو سے باہر اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے پاس محفوظ جگہ کی تلاش میں ہیں۔ میں نے انھیں اپنے سسرال کے گاؤں آنے کی دعوت دی ہے اور یہاں بہت سے گھر خالی پڑیں ہیں اور ان کی مالکان کو ان کے استعمال پر خوشی ہو گی۔
ہم اب ملک کی مرکزی شاہراہوں سے دور ہیں اور میں امید کرتی ہوں کہ روسی ٹینک یہاں کبھی نہیں آئیں گے۔ میں کیئو میں اپنے گھر واپس کب لوٹوں گی اور کیا تب وہ وہاں پر موجود بھی ہو گا اس بارے میں کچھ بھی کہنا یا جاننا مشکل ہے۔
Comments are closed.