بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

جارج فلائیڈ قتل: تین سابق پولیس افسران پر شہری حقوق کی پامالی کا جرم ثابت

جارج فلائیڈ: سیاہ فام امریکی شہری کے قتل کے معاملے میں تین سابق پولیس افسران پر شہری حقوق کی پامالی کا جرم ثابت

From left: Tou Thao, Thomas Lane and J Alexander Kueng
،تصویر کا کیپشن

بائیں سے تو تھاؤ، تھامس لین اور جے الیگزینڈر کینگ

امریکہ میں جیوری نے سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے معاملے میں جائے وقوعہ پر موجود تین سابق پولیس افسران کو مقتول کے شہری حقوق پامال کرنے کا مرتکب قرار دیا ہے۔

مینیاپولس کے محکمۂ پولیس کے ان تینوں افسران پر الزام تھا کہ انھوں نے مئی 2020 فلائیڈ کی گرفتاری کی کوشش کے دوران جان بوجھ کر ان کی حالت کو نظر انداز کیا۔

جارج فلوئیڈ کی گرفتاری کے دوران ہلاکت کی فوٹیج منظر عام پر آنے کے بعد امریکہ بھر میں نسل پرستی کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے گئے تھے اور اپریل 2021 میں ایک اور پولیس افسر ڈیرک شاوین کو اس قتل کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔

اس مقدمے کے دوران تینوں پولیس افسران 36 سالہ تو تھاؤ، 28 سالہ جے الیگزینڈر کینگ اور 38 سالہ تھامس لین کے بیانات ریکارڈ کیے گئے جن میں ان کا کہنا تھا کہ انھیں اندازہ ہی نہیں ہوا کہ جارج فلائیڈ کو گرفتاری کے وقت طبی مدد درکار تھی۔

کسی فرد کے شہری حقوق پامال کرنے کی پاداش میں امریکی قانون میں مختلف سزائیں مقرر ہیں مگر اس مقدمے میں استغاثہ نے ہر پولیس افسر کے لیے 25 برس قید کی سزا کا مطالبہ کیا ہے۔

جارج فلائیڈ کے قتل کے مجرم قرار دیے جانے والے سابق پولیس افسر ڈیرک شاوین جنھیں مقتول کی گردن پر نو منٹ سے زیادہ عرصے تک گھٹنا رکھے دیکھا گیا تھا، اس جرم میں ساڑھے 22 برس قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔

ڈیرک شاوین کو مجرم قرار دیے جانے پر امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ جارج فلائیڈ کی موت ‘دن کی روشنی میں قتل ہے۔’ اور ‘منظم نسل پرستی پوری قوم کی روح پر ایک دھبہ ہے۔’

امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس نے اس موقع پر کہا تھا کہ ‘ہمیں ابھی بھی نظام میں اصلاح کرنا ہو گی۔’

جارج فلائیڈ کی گرفتاری کی ویڈیو فوٹیج میں یہ دکھائی دیتا ہے کہ جس میں جے الیگزینڈر اور تھامس لین اپنے ساتھی ڈیرک شاوین کی جارج فلوئیڈ کو زمین پر دبوچنے میں مدد کر رہے ہیں۔ توتھاؤ نے وہاں موجود اس واقعے پر تشویش کا اظہار کرنے والے شہریوں کو اس منظر سے دور رکھنے میں کردار ادا کیا۔

TWITTER/RUTH RICHARDSON

،تصویر کا ذریعہTWITTER/RUTH RICHARDSON

،تصویر کا کیپشن

جارج فلوئیڈ

چار ہفتوں کی شہادتوں کے دوران، استغاثہ نے یہ دلائل دیے کہ ’انسانی شائستگی اور سمجھداری‘ کا تقاضا تھا کہ وہاں پر موجود دیگر اہلکار جارج فلوئیڈ کو مرنے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے۔

اسسٹنٹ یو ایس اٹارنی منڈا سرٹیچ نے کہا کہ ’یہ بندوق کی گولی کی طرح طاقت کا الگ الگ استعمال نہیں تھا۔ 30 سیکنڈ نہیں، ایک منٹ نہیں، کئی منٹ – 569 سیکنڈ‘ یہ سب کیا جاتا رہا ہے۔

لیکن وکلائے صفائی نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ اپنے سینیئر افسر کی بات سن رہے تھے۔ ڈیرک شاوین تھامس اور جے الیگزینڈر کے فیلڈ ٹریننگ آفیسر تھے۔

جب پوچھا گیا کہ آپ نے ڈیرک شاوین کو جارج فلائیڈ کی گردن سے اپنا گھٹنا ہٹانے کے لیے کیوں نہیں کہا تو اس پر سابق پولیس اہلکار تو تھاؤ نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ میں اس معاملے کے بہتر حل کے لیے ایک 19 برس کے تجربہ کار پر بھروسہ کروں گا۔‘

اپنا فیصلہ دینے سے قبل جمعرات کو 12 رکنی جیوری نے تقریباً 13 گھنٹے اس فیصلے پر غوروخوض کیا۔

اب جون میں ان تینوں سابق پولیس افسران کو عدالت کے سامنے پیش ہونا ہو گا جہاں ان پر اس قتل میں ڈیرک شاوین کی مدد اور اعانت کرنے کی پاداش میں فوجداری کارروائی کا سامنا کرنا ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے

جارج فلائیڈ کے ساتھ کیا ہوا تھا؟

مینیاپولس میں سنہ 2020 میں 25 مئی کی شام کو پولیس کو ایک پاس کے گروسری سٹور سے فون آیا جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ ایک شخص جارج فلائیڈ نے جعلی 20 ڈالر کے نوٹ کے ساتھ ادائیگی کی ہے۔

پولیس اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر انھیں پولیس گاڑی میں بٹھانے کوشش کی تھی اور اس دوران وہ زمین پر گر پڑے تھے۔ انھوں نے پولیس کو بتایا کہ انھیں بند جگہ سے گھٹن اور گھبراہٹ ہوتی ہے کیونکہ وہ کلوسٹروفوبک ہیں۔

پولیس کے مطابق انھوں نے جسمانی طور پر مزاحمت کی لیکن انھیں ہتھکڑی لگا دی گئی۔ واقعے کی ویڈیو میں یہ بات سامنے نہیں آئی کہ تصادم کیسے شروع ہوا۔

بہرحال فوٹیج میں پولیس افسر ڈیرک شاوین کے گھٹنے کے نیچے ان کی گردن نظر آئی جہاں سے جارج فلائیڈ کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ‘پلیز، میں سانس نہیں لے پا رہا ہوں’ اور ‘مجھے مت مارو۔’

کاؤنٹی کے طبی معائنہ کار کی جانب سے کیے جانے والی ابتدائی پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے پولیس افسر نے جارج فلوئیڈ کی گردن پر آٹھ منٹ 46 سیکنڈ تک گھٹنے ٹیکے تھے جس میں سے تقریباً تین منٹ بعد ہی فلائيڈ بےحرکت ہو گئے تھے۔

پولیس افسر شاوین کے اپنا گھٹنا ہٹانے سے لگ بھگ دو منٹ قبل دیگر افسران نے جارج فلائیڈ کی دائیں کلائی کو نبض کے لیے چیک کیا لیکن انھیں نبض نہیں مل سکی۔ انھیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں ایک گھنٹے بعد انھیں مردہ قرار دیا گیا۔

جارج فلوئيڈ کے ایک وکیل نے ڈیرک شاوین پر دانستہ طور پر قتل کرنے کا الزام لگایا تھا، جو جرم ان پر عدالت میں ثابت بھی ہو گیا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.