یوکرین میں جنگ کے خطرے کے سائے میں عام افراد کی زندگی: ’میں جنگ کا خوف مٹانے کے لیے ڈانس کرتی ہوں‘
- زاہنا بزپیچوک اور وکٹوریا ژویان
- بی بی سی یوکرین
یوکرین کے شہری سنہ 2014 سے جنگ میں زندگی گزار رہے ہیں جب علیحدگی پسندوں نے ملک کے مشرقی علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور روس نے کریمیا سے الحاق کر لیا تھا۔
گذشتہ چند ہفتوں سے ملک کے دیگر حصوں میں بھی جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے، جب روس نے یوکرین کے سرحد کے قریب بڑی تعداد میں فوجوں کو اکٹھا کر رکھا ہے۔
بی بی سی نے یوکرین کے چند شہریوں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ وہ جنگ کے سائے میں زندگی کیسے گزار رہے ہیں۔
’میں پریشانی ختم کرنے کے لیے ڈانس کرتی ہوں‘
ان میں سے ایک 36 سال کی ویلینتیا جو ایک پروفیشنل کوریوگرافر ہیں اور دارالحکومت کیو میں ویلن ڈانس کے نام سے ایک ڈانس سٹوڈیو چلاتی ہیں، نے کہا کہ ’میں جنگ کا خوف مٹانے کے لیے ڈانس کرتی ہوں۔‘
عام طور پر موسم سرما کے اختتام اور موسم بہار کے آغاز میں وہ اپنے گاہکوں کے ساتھ کافی مصروف رہتی ہیں کیونکہ اس وقت کے دوران بہت سے افراد ان سے ڈانس کلاسز کے ساتھ ساتھ صحت سے متعلق کورسز کے لیے آتے ہیں لیکن اس مرتبہ حالات مختلف ہیں۔
روس کی جانب سے یوکرین پر حملے کے خطرے کے پیش نظر کم افراد ایسی سرگرمیوں کی تیاری سے متعلق سوچ رہے ہیں۔
ویلینتیا پروفیشنل کوریوگرافر ہیں اور ایک ڈانس سٹوڈیو چلاتی ہیں
ان کے کچھ گاہکوں نے اپنی ماہانہ ممبر شپ کو پیسے بچانے کے لیے معطل کر دیا ہے۔
ویلینتیا کہتی ہیں ان حالات میں کچھ ایسے افراد ہیں جو حالات کے باعث ذہنی دباؤ کو کم کرنے کے لیے جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں مجموعی طور پر ان کا کاروبار مندی کا شکار ہے کیونکہ ان حالات میں عام تاثر یہی ہے کہ پیسے بچانا زیادہ اہم ہے۔
حالیہ کشیدگی کی وجہ سے چند ہفتوں کے علاوہ آگے کی منصوبہ بندی کرنا ناممکن ہے۔
اگر یوکرین کے دارالحکومت پر براہ راست حملہ ہوتا ہے تو ویلینتیا کے پاس ایک ہنگامی پلان بھی ہے۔ ان کے والدین ملک کے مغربی حصے میں رہتے ہیں تو وہاں منتقل ہو جانا ایک آپشن ہو جا سکتا ہے۔
لیکن ابھی وہ مثبت خیالی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ڈانس کلاسز ان کی بے چینی کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
’میں اپنے کاروبار میں تبدیلی لا رہا ہوں‘
رسلن بیلیو کی عمر 45 برس ہے اور وہ ’ڈرونریم‘ نامی ایک ایسی کمپنی کے مالک ہیں جو کمرشل سطح پر ڈرون چلاتی اور فضائی شوز کا انعقاد کرتی ہے۔
ان کی کمپنی نے جون 2020 میں ایک کامیاب شو کا انعقاد کیا جس میں یوکرین کے دارالحکومت میں ایل جی بی ٹی کے حقوق کے لیے قوس قزاح کے رنگوں پر مشتمل ایک جھنڈا ترتیب دی گیا۔
ڈرون ٹیکنالوجی کی مدد سے بنائے گئے اس جھنڈے کو شہر میں موجود مختلف یادگاروں اور مشہور مقامات کے اوپر اڑایا گیا۔
لیکن رسلن بیلیو کا یہ کاروبار پہلے کورونا کی عالمی وبا اور اب روس کے ساتھ کشیدگی کی وجہ سے شدید متاثر ہوا ہے۔
رسلن نے اپنے کاروبار کو دوسرے سمت میں بڑھانے کا سوچا ہے۔ ان کے سٹاف میں موجود دو افراد مشرقی یوکرین کے تنازعے کے دوران لڑ چکے ہیں اور ان کے پاس ایک آئیڈیا ہے۔
رسلن کی ٹیم کا ایک رکن ڈرون چلاتے ہوئے
رسلن نے بتایا کہ ’وہ کہتے ہیں کہ ہم ڈرونز کے آلات میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔ کچھ ڈرونز میں خاص کیمرے ہیں اور کچھ میں تھرمل امیجنگ کی صلاحیت موجود ہے۔ ہم ان تمام کو انٹیلیجنس کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔‘
رسلن کی کمپنی یوکرین کے علاقائی دفاع کے ساتھ ایک مشترکہ پراجیکٹ کرنے کے مرحلے میں ہے۔ یہ شراکت داری ان کی مالی طور پر مدد تو کرے گی لیکن اس کے باوجود ان کو کچھ خدشات ہیں۔
وہ ابھی بھی مستقبل اور روس کے حملے کے بارے میں پریشان ہیں اور اپنی اہلیہ اور دو بچوں کو کہیں دور بھیجنے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔
رسلن کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں دارالحکومت کیو میں رہنا محفوظ نہیں کیونکہ یہ روس کے میزائلوں کی پہنچ میں ہو گا۔ اس لیے میں اپنی اہلیہ اور بچوں کو رشتہ داروں کے ساتھ رہنے کے لیے باہر بھیج رہا ہوں۔‘
یہ بھی پڑھیے
’اپنی زندگی روزانہ کی بنیاد پر جیئے‘
نتالیا کی عمر 35 برس ہے اور وہ بین الاقوامی امور کے مضمون میں ڈگری رکھتی ہیں۔ وہ یوکرین کی سرکاری اسلحہ ساز کمپنی ’یوکروبرونپروم‘ میں کمیونیکیشن آفیسر کے طور پر کام کرتی ہیں۔
حالیہ کشیدگی کی وجہ سے انھوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ کیسے وہ دفاعی معاملات پر اور زیادہ توجہ مرکوز کر سکتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں مشین گن نہیں اٹھا سکتی۔ مجھے نہیں لگتا کہ میں کوئی زیادہ مدگار ثابت ہو سکوں گی ‘لیکن انھیں اس بات کا یقین ضرور ہے کہ ان کی تعلیم اور تجربے کے وجہ سے وہ زیادہ بہتر انداز میں دفاعی حمکت عملی کے شعبے میں کام کر سکتی ہیں۔
اسی لیے انھوں نے نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی میں دو برس کی پوسٹ گریجویٹ ڈگری میں داخلے کے لیے درخواست دے رکھی ہے۔
وہ اپنی جاب چھوڑنے کا کوئی ادارہ نہیں رکھتیں اور اپنی پڑھائی ویک اینڈ پر جاری رکھیں گی۔
نتالیا یوکرین کی سرکاری اسلحہ ساز کمپنی ’یوکروبرونپروم‘ میں کمیونیکیشن آفیسر کے طور پر کام کرتی ہیں
نتالیا کا کہنا ہے کہ اگر فوری طور پر حملہ نہیں بھی ہوتا تب بھی روس کی جانب سے خطرہ ٹلنے والا نہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ یوکرین کی دفاعی صنعت خود کو جدید اور بہتر انداز سے لیس کرے۔
نتالیا کہتی ہیں کہ ’حالیہ بحران ایک عالمی چیلنج ہے۔ یہ ایک ملک کی خواہش ہے وہ دنیا کے نقشے کو دوبارہ سے ترتیب دینا چاہتا ہے اور ہمیں اس کے خلاف مزاحمت کرنا ہو گی۔‘
لیکن اس بحران نے نتالیا کی روزمرہ زندگی کو کیسے متاثر کیا ہے؟
’میں نارمل طریقے سے زندگی گزار رہی ہوں۔ میرے دوست سوچ رہے ہیں کیا انھیں بینک سے پیسے نکلوا لینے چاہیے۔ میرا ایسا خیال نہیں۔ میں اپنی جمع پونجی جمع کیے رکھنے کا ادارہ رکھتی ہوں تاکہ میں گاڑی خرید سکوں۔ میں اپنے فلیٹ کی تعمیر نو کا بھی سوچ رہی ہوں۔‘
یوکرین کے بہت سے دوسرے شہریوں ک طرح نتالیا بھی اس بات پر زور دیتی ہیں کہ ہر صورت گھبراہٹ سے بچنا ہو گا۔
’اس خطرے کے ساتھ رہتے ہوئے، میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ضروری ہے کہ آپ اپنی زندگی کو اسی طرح جاری رکھیں اور روزانہ کی بنیاد پر اسے جیئیں۔
Comments are closed.