بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

سیٹلائٹ تصاویر: روسی افواج نے یوکرین کو تین اطراف سے گھیر رکھا ہے

روس یوکرین تنازع: روسی افواج نے یوکرین کو تین اطراف سے گھیر رکھا ہے

  • فرینک گارڈنر
  • بی بی سی ، سکیورٹی نامہ نگار

Satellite image showing Russian military activity in Belarus

،تصویر کا ذریعہMaxar

امریکہ کی سپیس ٹیکنالوجی کمپنی ماکسر نے سیٹلائٹ سے جو تازہ تصاویر حاصل کی ہیں اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین کی سرحد سے ہزاروں فوجیوں کو واپس بیرکوں میں بھیجنے کے دعوؤں کے برعکس یوکرین کی سرحد کے قریب روسی فوجیوں کی کارروائیاں جاری ہیں۔

رواں ماہ کے وسط میں سیٹلائٹ سے جو تصاویر حاصل کی گئی ہیں ان میں نظر آتا ہے کہ روسی افواج نے یوکرین کو تین اطراف سے گھیر رکھا ہے۔

روسی افواج کی سرگرمیاں

ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بیلاروس کے شمال مغربی علاقے اوسیپوچی سے تھوڑے فاصلے پر واقع فوجی تربیتی علاقے میں ایک فیلڈ ہسپتال موجود ہے جو تشویش کا باعث ہے۔

فوجی مشقوں میں فیلڈ ہسپتال کی موجودگی ایک جائز عمل ہے لیکن یہ کسی ممکنہ جنگ کا عندیہ بھی ہو سکتا ہے جسے زخمیوں کے علاج کے لیے تیار کیا گیا ہو۔

Satellite image showing field hospital at Osipovichi

اس کے علاوہ روسی افواج یوکرین کی سرحدوں کے کافی قریب موجود ہیں۔ 15 فروری کو پریپیات دریا کے قریب ایک عارضی پل کی تصویر بھی سامنے آئی ہے جو یوکرین کے ساتھ بیلاروس کی سرحد سے 4 میل سے بھی کم فاصلے پر ہے.

Satellite image showing a pontoon bridge on the Pripyat river

لندن میں قائم میکنزی انٹیلی جنس سروسز کے تجزیہ کاروں نے دریا کے دائیں کنارے پر بڑی تعداد میں گاڑیوں کی موجودگی کو ممکنہ روسی حملے کے اشارے کے طور پر اجاگر کیا ہے۔

کچھ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ دریا پر عارضی پل کو ہٹا دیا گیا ہے۔

ایک اور تصویر میں خودکار توپیں، یا بڑی صلاحیت کی بندوقیں جو ٹینکوں پر نصب کی گئی ہیں، بریسٹسکی کے علاقے میں ایک لائن میں کھڑی ہیں جو سرحد سے تقریباً 30 میل کے فاصلے پر ہے۔

Satellite image showing self-propelled artillery at Bretsky training area

اس کے علاوہ ایک تصویر میں یوکرین کی سرحد سے 19 میل دور زیبرووکا کے ہوائی اڈے پر 20 ٹینک شکن ہیلی کاپٹروں کو دیکھا جا سکتا ہے جو حال ہی میں وہاں پہنچے ہیں۔

میکنزی انٹیلیجنس تجزیہ کارروں کا کہنا ہے کہ ان 20 ہیلی کاپٹروں میں بارہ روسی ہو کم، پانچ ہند یا ایم آئی 28 ہیلی کاپٹر ہیں۔

Satellite image showing helicopters at Zyabrovka

البتہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بیلاروس میں روس کے 30 ہزار کے قریب فوجیوں کی موجودگی جو یقیناً یوکرین اور نیٹو کے پریشانی کا باعث ہیں، وہ دراصل بیلاروس میں مشترکہ مشقوں کا حصہ ہیں جنہیں 20 فروری کو اختتام پذیر ہونا ہے۔

روس کے ارادوں کا صحیح علم 20 فروری کو ہوگا جب سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلے گا کہ روسی افواج مشترکہ فوجی مشقوں کے بعد وہاں سے چلی گئی ہیں یا وہیں موجود ہیں۔

یہ تصاویر کیا بتاتی ہیں؟

ان تصاو یر میں کچھ ایسا نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ روس یوکرین پر حملہ آور ہونے والا ہے۔

روس کا اصرار ہے کہ اس کا یوکرین پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور ایسی افواہیں مغربی پراپیگنڈے کا حصہ ہیں۔

لیکن نیٹو کے دفاعی سربراہان کو یقین ہے کہ روس نے اتنی تعداد میں افواج کو یوکرین کی سرحد پر جمع کر لیا ہے جو صدر یوتن کے حکم پر یوکرین پر حملہ کر سکتی ہیں۔

جتنی تعداد میں افواج کو یوکرین کی سرحد پر لایا گیا ہے اور جس طرح ان کی صف بندی کی گئی یہ بہت غیر معمولی ہے۔ مثال کے طور پر ایئرڈیفنس یونٹس کو ہزاروں میل دور مشرقی سائبیریا سے یہاں لایا گیا ہے۔

Map showing troop positions

صدر پوتن کے دور میں روس کی فوجی صلاحیت میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ روسی افواج اب وہ نوے کی دہائی کے تاریک دور سے گزر چکی ہیں جب سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا۔

دو چیزوں نے روسی فوج کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

صدر پوتن کے دور میں افواج کو جدید اسلحے سے لیس کرنے اور ان کی نقل و حرکت کو آسان بنانے اور سائبر کے شعبے میں مہارت حاصل کرنے پر بڑی رقوم خرچ کی گئی ہیں۔

روسی افواج کے سائبر حملوں کی صلاحیت بڑھانے کے علاوہ 800 فوجیوں پر مشتمل ٹیکٹیکل بٹالین گروپ بنائے گئے ہیں جن کو ٹینکوں، توپ خانوں اور دوسرے ہتھیاروں کی مدد حاصل ہوتی ہے۔

روسی فوج میں دوسری بڑی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ روس کے منصوبہ ساز پچھلے سات برسوں سے شام اور شمالی یوکرین میں جاری جنگوں کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔

ان جنگوں میں انھیں اپنے ہتھیاروں کو ٹیسٹ کرنے کا موقع ملا اور انھوں نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔

ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مغربی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر روس چاہے تو وہ اپنی افواج کو نہ صرف ہفتوں بلکہ مہینوں تک یوکرین کی سرحد پر رکھ سکتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.