روس یوکرین تنازع: روسی افواج نے یوکرین کو تین اطراف سے گھیر رکھا ہے
- فرینک گارڈنر
- بی بی سی ، سکیورٹی نامہ نگار
امریکہ کی سپیس ٹیکنالوجی کمپنی ماکسر نے سیٹلائٹ سے جو تازہ تصاویر حاصل کی ہیں اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ روس کی جانب سے یوکرین کی سرحد سے ہزاروں فوجیوں کو واپس بیرکوں میں بھیجنے کے دعوؤں کے برعکس یوکرین کی سرحد کے قریب روسی فوجیوں کی کارروائیاں جاری ہیں۔
رواں ماہ کے وسط میں سیٹلائٹ سے جو تصاویر حاصل کی گئی ہیں ان میں نظر آتا ہے کہ روسی افواج نے یوکرین کو تین اطراف سے گھیر رکھا ہے۔
روسی افواج کی سرگرمیاں
ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بیلاروس کے شمال مغربی علاقے اوسیپوچی سے تھوڑے فاصلے پر واقع فوجی تربیتی علاقے میں ایک فیلڈ ہسپتال موجود ہے جو تشویش کا باعث ہے۔
فوجی مشقوں میں فیلڈ ہسپتال کی موجودگی ایک جائز عمل ہے لیکن یہ کسی ممکنہ جنگ کا عندیہ بھی ہو سکتا ہے جسے زخمیوں کے علاج کے لیے تیار کیا گیا ہو۔
اس کے علاوہ روسی افواج یوکرین کی سرحدوں کے کافی قریب موجود ہیں۔ 15 فروری کو پریپیات دریا کے قریب ایک عارضی پل کی تصویر بھی سامنے آئی ہے جو یوکرین کے ساتھ بیلاروس کی سرحد سے 4 میل سے بھی کم فاصلے پر ہے.
لندن میں قائم میکنزی انٹیلی جنس سروسز کے تجزیہ کاروں نے دریا کے دائیں کنارے پر بڑی تعداد میں گاڑیوں کی موجودگی کو ممکنہ روسی حملے کے اشارے کے طور پر اجاگر کیا ہے۔
کچھ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ دریا پر عارضی پل کو ہٹا دیا گیا ہے۔
ایک اور تصویر میں خودکار توپیں، یا بڑی صلاحیت کی بندوقیں جو ٹینکوں پر نصب کی گئی ہیں، بریسٹسکی کے علاقے میں ایک لائن میں کھڑی ہیں جو سرحد سے تقریباً 30 میل کے فاصلے پر ہے۔
اس کے علاوہ ایک تصویر میں یوکرین کی سرحد سے 19 میل دور زیبرووکا کے ہوائی اڈے پر 20 ٹینک شکن ہیلی کاپٹروں کو دیکھا جا سکتا ہے جو حال ہی میں وہاں پہنچے ہیں۔
میکنزی انٹیلیجنس تجزیہ کارروں کا کہنا ہے کہ ان 20 ہیلی کاپٹروں میں بارہ روسی ہو کم، پانچ ہند یا ایم آئی 28 ہیلی کاپٹر ہیں۔
البتہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ بیلاروس میں روس کے 30 ہزار کے قریب فوجیوں کی موجودگی جو یقیناً یوکرین اور نیٹو کے پریشانی کا باعث ہیں، وہ دراصل بیلاروس میں مشترکہ مشقوں کا حصہ ہیں جنہیں 20 فروری کو اختتام پذیر ہونا ہے۔
روس کے ارادوں کا صحیح علم 20 فروری کو ہوگا جب سیٹلائٹ تصاویر سے پتہ چلے گا کہ روسی افواج مشترکہ فوجی مشقوں کے بعد وہاں سے چلی گئی ہیں یا وہیں موجود ہیں۔
یہ تصاویر کیا بتاتی ہیں؟
ان تصاو یر میں کچھ ایسا نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ روس یوکرین پر حملہ آور ہونے والا ہے۔
روس کا اصرار ہے کہ اس کا یوکرین پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور ایسی افواہیں مغربی پراپیگنڈے کا حصہ ہیں۔
لیکن نیٹو کے دفاعی سربراہان کو یقین ہے کہ روس نے اتنی تعداد میں افواج کو یوکرین کی سرحد پر جمع کر لیا ہے جو صدر یوتن کے حکم پر یوکرین پر حملہ کر سکتی ہیں۔
جتنی تعداد میں افواج کو یوکرین کی سرحد پر لایا گیا ہے اور جس طرح ان کی صف بندی کی گئی یہ بہت غیر معمولی ہے۔ مثال کے طور پر ایئرڈیفنس یونٹس کو ہزاروں میل دور مشرقی سائبیریا سے یہاں لایا گیا ہے۔
صدر پوتن کے دور میں روس کی فوجی صلاحیت میں ڈرامائی تبدیلی آئی ہے۔ روسی افواج اب وہ نوے کی دہائی کے تاریک دور سے گزر چکی ہیں جب سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا۔
دو چیزوں نے روسی فوج کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
صدر پوتن کے دور میں افواج کو جدید اسلحے سے لیس کرنے اور ان کی نقل و حرکت کو آسان بنانے اور سائبر کے شعبے میں مہارت حاصل کرنے پر بڑی رقوم خرچ کی گئی ہیں۔
روسی افواج کے سائبر حملوں کی صلاحیت بڑھانے کے علاوہ 800 فوجیوں پر مشتمل ٹیکٹیکل بٹالین گروپ بنائے گئے ہیں جن کو ٹینکوں، توپ خانوں اور دوسرے ہتھیاروں کی مدد حاصل ہوتی ہے۔
روسی فوج میں دوسری بڑی تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ روس کے منصوبہ ساز پچھلے سات برسوں سے شام اور شمالی یوکرین میں جاری جنگوں کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔
ان جنگوں میں انھیں اپنے ہتھیاروں کو ٹیسٹ کرنے کا موقع ملا اور انھوں نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔
ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مغربی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اگر روس چاہے تو وہ اپنی افواج کو نہ صرف ہفتوں بلکہ مہینوں تک یوکرین کی سرحد پر رکھ سکتا ہے۔
Comments are closed.