معروف مسلمان رہنما اور بھارت کے ایوان زیریں لوک سبھا کے رکن اسد الدین اویسی نے بنگلہ دیشی مصنفہ تسلیمہ نسرین کے حجاب سے متعلق بیان پر اُنہیں ’نفرت کی علامت‘ قرار دے دیا۔
بھارتی میڈیا کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اسد الدین اویسی نے کہا کہ ’میں یہاں بیٹھ کر ایسے شخص کو جواب نہیں دوں گا جو نفرت کی علامت بن گیا ہے، میں یہاں بیٹھ کر ایسے شخص کو جواب نہیں دوں گا جسے بھارت میں پناہ دی گئی ہے اور بھارت کے ٹکڑوں پر پل رہا ہو۔‘
اسدالدین اویسی نے تسلیمہ نسرین کو ان کے ریمارکس پر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ’لبرلز صرف اپنی پسند کی آزادی میں خوش ہیں، لبرلز چاہتی ہیں کہ ہر مسلمان ان جیسا برتاؤ کرے اور اپنی مذہبی شناخت کو چھوڑ دیں۔‘
اُنہوں نے کہا کہ ’میں یہاں بیٹھ کر بھارت کے آئین کے بارے میں بات کروں گا جس نے مجھے انتخاب کی آزادی، ضمیر کی آزادی دی ہے اور اس نے مجھے اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ آگے بڑھنے کی آزادی دی ہے۔‘
اسدالدین اویسی نے کہا کہ ’بھارت ایک سیکولر ملک ہے اور یہاں کوئی بھی کسی کو مذہب چھوڑنے کے لیے مجبور نہیں کرسکتا۔‘
اسدالدین اویسی نے مزید کہا کہ ’بھارت ایک کثیر ثقافتی، کثیر مذہبی ملک ہے لیکن کوئی مجھے یہ نہیں بتا سکتا کہ میں کیسے برتاؤ کروں اور کوئی مجھے یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اپنا مذہب چھوڑ دوں یا اپنی ثقافت کو چھوڑ دوں۔‘
واضح رہے کہ تسلیمہ نسرین نے اپنے بیان میں انتہا پسندوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ مسلمانوں کا خیال ہے کہ حجاب ضروری ہے اور کچھ کا خیال ہے کہ حجاب ضروری نہیں ہے جبکہ حجاب یا نقاب یا برقع ظلم کی علامت ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ تعلیم مذہب سے زیادہ اہم ہے، انہوں نے مزید کہا کہ سیکولر معاشرے میں ہمارا سیکولر ڈریس کوڈ ہونا چاہیے۔
بنگلادیشی مصنفہ نے کہا تھا کہ لوگ مذہبی عقائد رکھ سکتے ہیں لیکن وہ ان پر گھر یا کہیں اور عمل کر سکتے ہیں لیکن کسی سیکولر ادارے میں نہیں۔
Comments are closed.