روس یوکرین تنازع: بعض روسی دستوں کی چھاؤنیوں کو واپسی، یوکرین غیر مطمئن
روس کا کہنا ہے اس نے یوکرین کی سرحد پر تعینات اپنے ایک لاکھ فوجیوں میں سے کچھ کو واپس بلانا شروع کر دیا ہے۔
روس کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ یوکرین کی سرحد کے قریب وسیع پیمانے پر جنگی مشقیں جاری رہیں گی لیکن کچھ دستے اپنی چھاونیوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔
یوکرین نے خبردار کیا ہے کہ جب تک انھیں فوجیوں کی واپس کا ثبوت نہیں مل جاتا وہ اس پر کوئی رد عمل نہیں دیں گے۔ یوکرین کا کہنا ہے کہ فوجوں کی واپسی کے ثبوت مل جانے کے بعد ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ کشیدگی میں کمی ہو رہی ہے۔
یوکرین کی سرحد کے ساتھ روس نے ایک لاکھ کے قریب فوجی جمع کر لیے تھے لیکن اس نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے کہ وہ یوکرین پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
یوکرین کی سرحد کے قریب اتنی بڑی تعداد میں روسی فوج کی تعیناتی سے جنگ چھڑ جانے کے خدشات پیدا ہو گئے تھے اور امریکہ کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ روس کسی بھی وقت یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے۔
روس اس بات کی یقین دہانی چاہتا ہے کہ یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل نہیں کیا جائے گا لیکن امریکہ اور مغربی مالک کے اتحاد نے روس کے اس مطالبے کو رد کر دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
روس کی وزارتِ دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ یوکرین کی سرحد کے قریب فوجی علاقوں میں جنگی مشقیں کرنے والے اپنی فوج کے کچھ دستے واپس بلا رہے ہیں۔
وزارت دفاع کے ترجمان ایگو کوناشنکو نے کہا ہے کہ ‘بہت سی جنگی تربیتی مشقیں اور جسمانی ورزشیں جس طرح پلان کی گئی تھیں وہ کی جا رہی ہیں۔’
کچھ مشقیں جاری ہیں جن میں روس اور بیلاروس کے درمیان ہونے والی مشترکہ فوجی مشقیں جو کہ فروری کی بیس تاریخ تک مکمل کر لی جائیں گی۔
برطانوی حکومت کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ وہ اس انتظار میں ہیں کہ وہ واپس بلائے گئے فوجیوں کی تعداد جاننے کے انتظار میں ہیں اور اس کے بعد ہی وہ یہ کہہ سکیں گے کہ حملہ کرنے کی صلاحیت میں کوئی معنی خیز کمی ہوئی ہے یا نہیں۔
لیکن یہ اعلان یوکرین اور روس دونوں کے لیے اس کشیدگی میں جیت کا دعوی کرنے کے لیے کافی ہے۔
یوکرین کے وزیر خارجہ دومتروں کولیبا نے کہا ہے کہ ‘ہم نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر روس کو یوکرین پر کوئی مہم جوئی کرنے سے روک دیا ہے۔’
روس کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ماریا زکہاروا نے کہا ہے کہ یہ ایک ایسے دن کے طور پر ’تاریخ میں یاد رکھا جائے گا جب مغرب کا جنگ کا پروپیگنڈہ ناکام ہو گیا تھا۔ وہ کوئی گولی چلے بغیر ہی بے عزت اور رسوا ہو گئے ہیں۔‘
اس دوران اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں اور منگل کو جرمنی کے چانسلر اولف شلز روس کے صدر ولادمیر پوتن سے ملنے ماسکو پہنچے ہیں۔
توقع کی جا رہی ہے کہ وہ ایک مرتبہ پھر روس کے صدر ولادمیر پوتن کو یوکرین پر حملہ کرنے سے بعض رہنے کا کہیں گے بصورت دیگر انھیں روس پر سخت پابندیاں لگانے کے بارے میں خبردار کریں گے۔
جرمن چانسلر کو اس وقت سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب انھوں نے اس کشیدگی پر اپنا رد عمل ظاہر کیا تھا۔ ان سے یہ توقع نہیں ہے کہ وہ روس سے مغربی یورپ تک گیس پائپ لائن کا منصوبہ نارڈ سٹریم ٹو کا منصوبہ ختم کر دیں گے۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے یہ کہا تھا کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو یہ منصوبہ بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
’احتیاط کی ضرورت ہے‘: بی بی سی کے نامہ نگار سٹیو روزنبرگ کا تجزیہ
کئی ہفتوں سے روس اور یوکرین کی سرحد سے متواتر یہ خبریں موصول ہو رہی تھیں کہ روس اپنی فوجوں میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔
اب ماسکو نے اعلان کیا ہے کہ مشقیں مکمل ہو گئی ہیں اور اس کے کچھ دستے اب چھاؤنیوں میں واپس بلائے جا رہے ہیں۔
کشیدگی میں ممکنہ کمی کی طرف پہلا اشارہ؟ شاید۔ لیکن احتیاط کی ضرورت ہے۔ کتنے فوجی اپنا ساز و سامان سمیٹ کر واپس جا رہے ہیں یہ واضح نہیں ہے۔
ماسکو مسلسل یہ اصرار کرتا رہا ہے کہ اس کا یوکرین پر حملہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ روس کے حکام نے مغربی ممالک کے ان دعوؤں کو رد کر دیا تھا کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔
صدر پوتن کے ترجمان نے منگل کو کہا کہ کرملن مغرب کے ان دعوؤں کو مذاق میں اڑا دیتا ہے۔
ترجمان دمتری پیسکو نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘بعض اوقات پوتن ان دعوؤں پر ہنستے ہیں۔ اکثر وہ ہم سے کہتے ہیں کہ ذرا دیکھیں کہ مغربی ملکوں نے جنگ شروع ہونے کے وقت بھی بتایا دیا ہے کہ نہیں۔’
Comments are closed.