بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

روس یوکرین تنازع: روس ’معلومات کی جنگ‘ میں سبقت حاصل کرنے کے لیے کیا حربے استعمال کر رہا ہے؟

روس یوکرین تنازع: روس ’انفارمیشن وارفیئر‘ میں سبقت حاصل کرنے کے لیے کیا حربے استعمال کر رہا ہے؟

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یوکرین کی سرحد پر روس اپنی فوجوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ پر جاری بیانیے کی جنگ کا رخ بھی اپنے حق میں موڑنے کی پوری کوشش میں ہے۔ لیکن کون سی خبریں سچی ہیں اور کون سی جھوٹی؟

یہ ہی معلوم کرنے کے لیے بی بی سی نے روسی ایوان صدر کریملن کے حامی ذرائع ابلاغ کی طرف سے خبروں کو ہوا دینے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے اس کی چند مثالوں پر نظر ڈالی ہے۔

غیر مصدقہ خبروں کی تشہیر

روسی ذرائع ابلاغ پر خبروں میں جذباتیت کا عنصر ڈالنے اور غلط دعوے کرنے کی پرانی روایت رہی ہے تاکہ یوکرین کے بارے میں عوامی سطح پر ایک منفی سوچ پیدا کی جا سکے۔

اس کی ایک بڑی مثال سنہ 2014 میں روس کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی خبر تھی جس میں ایک خاتون مہاجر کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گیا کہ یوکرین کی فوجوں نے اس کے تین سالہ بچے کو قتل کر دیا ہے۔

ویڈیو
،تصویر کا کیپشن

اس ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ یوکرینی فوج کی جانب سے تارکین وطن کو گولیاں ماری جا رہی ہے لیکن اسے جعلی قرار دیا جا چکا ہے

اس خاتون کے الزام کو درست ثابت کرنے کے لیے کبھی کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا اور بعد میں اس خبر کو واپس لے لیا گیا۔ اس واقع کو ’صلیب پر چھڑے بچے‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

حال ہی میں روسی اور کریملن نواز ذرائع ابلاغ نے ایک غیر مصدقہ ویڈیو چلائی ہے جس میں مبینہ طور پر بیلاروس کی سرحد پر مہاجرین پر یوکرینی فوجی گولیاں چلا رہے ہیں۔

اس ویڈیو کو جس کی ریکارڈنگ کا معیار انتہائی خراب ہے اور اسے انفراریڈ کیمرے سے ریکارڈ کیا گیا ہے، فیس بک پر گذشتہ سال دسمبر میں جاری کیا گیا۔ اس ویڈیو کو بہت سے نشریاتی اداروں نے مقامی ذرائع کے حوالے سے چلایا اور یہ الزام عائد کیا کہ یوکرینی فوجی مہاجرین پر گولیاں چلا رہے ہیں۔

ٹویٹ

جس فوجی کے فیس بک اکاؤنٹ پر یہ ویڈیو پہلی مرتبہ شائع کی گئی تھی اس کا کہنا تھا کہ اس کا ‘اکاونٹ’ ہیک کر لیا گیا ہے۔

ایک مقامی ویب سائٹ اور ایک غیر سرکاری ادارے جن کی ویب سائٹس پر ایسی خبریں جاری ہوئیں ان کا بھی کہنا تھا کہ ان کے ویب سائٹس کو ہیک کر لیا گیا تھا۔

بی بی سی آزاد ذرائع سے ان کی تصدیق نہیں کر سکا۔

یوکرین کو ‘نازیوں کے حامی’ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

روسی میڈیا پر یوکرین کے بارے میں چلنے والی خبروں میں اکثر یوکرین کو نازی جرمنی کا حامی قرار دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اس کی ایک مثال روسی وزارتِ خارجہ کی طرف سے سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک پیغام ہے جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ امریکہ اور یوکرین نے اقوام متحدہ میں روس کی طرف سے نازیوں کی مداح سرائی کی مذمت کے لیے پیش کردہ قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

یہ سچ ہے کہ دونوں ملکوں نے اس قرارداد کی حمایت نہیں کی تھی لیکن روس کی وزارتِ خارجہ نے یہ نہیں بتایا کہ ان دونوں ملکوں نے ایسا کیوں کیا تھا۔

یوکرین نے کہا تھا کہ اُس نے اِس قرارداد کی اس لیے مخالفت کی تھی کیونکہ یہ پروپیگینڈا کی نیت سے پیش کی گئی تھی۔ امریکہ کا دعویٰ تھا کہ یہ دستاویز روس کی گمراہ کن معلومات پھیلانے کی مہم کو جائز قرار دینے کی ایک کوشش تھی۔

دونوں ملک امریکہ اور یوکرین نے اس رائے شماری کے بعد نازی ازم کی اپنی مذمت پر قائم رہے۔

یوکرین کے انتہائی دائیں بازو کے گروپوں اور ‘نیو نازی’ کے درمیان رابطوں پر خدشات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے اور خاص طور پر قوم پرست ‘ایزو بٹالین’ پر جو یوکرین کے بحران کے عروج کے دنوں میں سامنے آئی تھی اب ملک کی فوج کا حصہ ہے۔

یوکرین

یوکرین میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں ہمیشہ اقلیت میں رہی ہیں۔ سنہ 2019 کے انتخابات کے دوران دائیں بازو کے امیدواروں اور گروپوں کو جن میں سوبوڈا شامل ہیں پارلیمنٹ میں نمائندگی حاصل کرنے کے لیے کم سے کم پانچ فیصد ووٹ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔

ایک ٹیکنالوجی کمپنی ‘لاجیکلی’ کے مطابق گذشتہ نومبر سے یوکرین کو نازی ازم سے جوڑنے والی خبروں میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔

لاجیکلی کے برائن مرفی کا کہنا ہے کہ ’اہم موقعوں‘ پر، ان خیالات کو روس نواز میڈیا پر وسیع پیمانے پر شیئر کیا گیا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم سپائکس‘ کے ادوار دیکھتے ہیں جو عالمی واقعات اور روسی سفارتی کوششوں یا دیگر چیزوں کے ساتھ آتے ہیں۔

شمالی بحیرہ اوقیانوس کے ملکوں کے فوجی اتحاد نیٹو کے لیے ’اطلاعات کی جنگ‘ کے بارے میں رپورٹ لکھنے والے اور یوکرین کے امور کے ماہر کیر گیلز کا کہنا ہے کہ ’روس اپنے مخالفین کو نازی قرار دینے میں دیر نہیں لگاتا۔‘

یہ بھی پڑھیے

وہ کہتے ہیں کہ اس کا مشاہدہ نہ صرف ہمیں یوکرین میں ہو چکا ہے بلکہ یہ ہی کچھ بلکان کی ریاستوں کو بدنام کرنے کے لیے بھی کیا جا چکا ہے۔ جب قارئین کے تبصرے رائے عامہ کی نمائندگی کرتے تھے۔

حالیہ ہفتوں میں، کچھ روسی سرکاری ذرائع ابلاغ نے صرف مغربی میڈیا ویب سائٹس پر صارف کے تبصروں کی بنیاد پر یوکرین کے لیے بین الاقوامی حمایت کے بارے میں گمراہ کن سرخیاں شائع کی ہیں۔

جنوری کے آخر میں سرکاری خبر رساں ایجنسی آر آئی اے نووستی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک مضمون میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ڈیلی ایکسپریس کے ’برطانوی‘ قارئین نے اس نظریے کی حمایت کی ہے کہ یوکرین کا دفاع نہیں کیا جانا چاہیے کیونکہ روس کی اس خطے میں نیٹو سے زیادہ مضبوط فوجی موجودگی ہے۔

ایک اور نے کہا کہ ’قارئین یوکرین کی فوجی صلاحیت پر ہنستے ہیں۔‘

ایسے خدشات کے حامی ٹرولز نے، جعلی اکاؤنٹس کا استعمال کرتے ہوئے، روسی مفادات کو بڑھاوا دینے کے لیے، برطانوی اور دیگر غیر ملکی میڈیا سائٹس کو نشانہ بنایا ہے۔

جان پگلر کی ٹویٹ

،تصویر کا ذریعہTwitter

کارڈف یونیورسٹی کے کرائم اینڈ سکیورٹی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی گذشتہ سال کی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ ڈیلی ایکسپریس سمیت 16 ممالک میں 32 ممتاز میڈیا ویب سائٹس کے تبصروں کے سیکشنز کو کریملن کے حامی ٹرولز نے نشانہ بنایا تھا۔

محققین کے مطابق، ان کے مغرب مخالف اور روس نواز تبصروں کو روسی زبان کے میڈیا میں خبروں کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا گیا۔

روس کی حمایت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے مغربی آوازوں کا استعمال

مائتھوز لیب کے کاؤنٹر ڈس انفارمیشن گروپ کی تحقیق کے مطابق گذشتہ سال نومبر میں روس نواز پروپیگینڈا پھیلانے والے اکاؤنٹس کی سرگرمیوں میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا۔

اس مہینے کے دوران، یہ اکاؤنٹس یوکرین کے بارے میں اوسطاً 213 بار ٹویٹ کر رہے تھے۔

ایک حربہ، جیسا کہ محققین نے نوٹ کیا ہے، غیر روسی آوازوں کے مواد کو ایسے خیالات کے ساتھ بانٹنا تھا جو ماسکو کے موقف کے مطابق ہوں۔

جن لوگوں کے خیالات شیئر کیے گئے ہیں ان میں سے ایک آسٹریلوی صحافی جان پِلگر ہیں جنھوں نے ایک حالیہ ٹویٹ میں امریکہ پر الزام عائد کیا کہ اس نے 2014 میں یوکرین میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔

محققین کے مطابق، جان پِلگر کی ٹویٹس کو روسی پروپیگینڈا پھیلانے والے اکاؤنٹس کے ذریعے شیئر کیا گیا ہے۔

ان کی ٹویٹس کو 87 اکاؤنٹس نے ری ٹویٹ کیا ہے جن کی شناخت محققین نے یوکرین کے بارے میں روس نواز پروپیگینڈا کے طور پر کی تھی۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.