وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں بد ترین انسانی بحران جنم لے رہا ہے، کیا طالبان کے علاوہ دیگر کوئی متبادل اس وقت موجود ہے؟ واحد متبادل ہمارے پاس موجود ہے وہ طالبان کے ساتھ کام کرنا ہی ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اگر طالبان حکومت ختم کر دی جائے تو وہاں تبدیلی کیا بہتری کا موجب بنےگی؟، اگر طالبان سے منہ موڑ لیا جاتا ہے تو پھر خدشہ ہے کہ افغانستان افراتفری کا شکار ہوسکتا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ ہمارے ہاں پہلے ہی 30 لاکھ افغان پناہ گزین موجود ہیں، طالبان کی حکومت تسلیم نہ کرنے، بینکاری نظام منجمد ہونے سے افغان عوام شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا ہے کہ تقریباً 4 کروڑ افغان عوام کی بقاء کا سوال ہے، 4 کروڑ افغان عوام میں سے نصف انتہائی خطرناک صورتحال سے دوچار ہیں، افغانستان کی سردی بہت ظالم اور بے رحم ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ امریکی عوام کو سمجھنا چاہیے کہ طالبان حکومت نا پسند کرنا ایک الگ بات ہے، اگلے چند ماہ سے متعلق افغان عوام کے لیے ہر کوئی فکر مند ہے، امریکیوں کو سمجھنا چاہیے کہ افغان عوام کن سنگین مشکلات کا شکار ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ امریکا کی دہشت گردی کےخلاف جنگ سے دنیا بھر میں دہشت گردوں کی تعداد بڑھی ہے، امریکی جنگ کے دوران وسیع پیمانے پر جانی نقصان ہوا، پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزار جانوں کی قربانی دے چکا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ چند عرصہ پہلے افغانستان کی سرزمین سے 3 دہشت گرد گروہ سرگرم تھے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان میں خودکش حملوں کا سیلاب آیا، امریکا کو ڈرون حملوں کی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔
عمران خان نے کہا کہ سفیر معین الحق سنکیانگ گئے، سفیر کے مطابق سنکیانگ کی صورتحال ویسی نہیں جیسی مغربی میڈیا بتارہا ہے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں معصوم لوگوں کی نسل کشی کر رہا ہے، مقبوضہ کشمیر اور سنکیانگ کے معاملے کا تقابلی جائزہ سرے سے غلط ہے، مقبوضہ کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک مسلمہ متنازع علاقہ ہے، بھارت میں آر ایس ایس نظریے کی حکمرانی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ اقوام متحدہ میں اپنے پہلے خطاب میں مسئلہ کشمیر بھرپور طریقے سے اٹھایا، سابق امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات میں بھی مسئلہ کشمیر کے حل پر بات کی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ 5 اگست 2019 کا بھارتی اقدام یو این قرار دادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے، مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک دو ایٹمی طاقتوں میں جنگ کا خدشہ برقرار رہے گا۔
Comments are closed.