روس یوکرین بحران: جو بائیڈن کا یوکرین میں موجود امریکیوں کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کا مشورہ
امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی فوجی کارروائی کے بڑھتے خدشے کے باعث یوکرین میں مقیم تمام امریکی شہریوں سے فوری طور پر ملک چھوڑنے کا کہا ہے۔
بائیڈن کا کہنا تھا کہ اگر ماسکو نے یوکرین پر حملہ کیا تو امریکی فوج امریکی شہریوں کو ریسکیو کرنے نہیں آئے گی۔ انھوں نے خبردار کیا کہ خطے میں ‘حالات اچانک خراب ہو سکتے ہیں۔‘
ادھر روس کی جانب سے بارہا تردید کی گئی ہے کہ وہ یوکرین پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے لیکن اس کی جانب سے یوکرین کی سرحد پر ایک لاکھ سے زیادہ فوجی تعینات کیے جا چکے ہیں۔
تاہم روس نے ہمسایہ ملک بیلاروس سے مل کر بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں شروع کر دی ہیں اور یوکرین نے روس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اس کا سمندر تک رسائی میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔
کریملن کا کہنا ہے کہ وہ ‘سرخ لکیر’ کھینچنا چاہتا ہے تاکہ اس کا سابق سوویت ہمسایہ نیٹو میں شامل نہ ہو سکے۔
برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن نے جمعرات کو کہا تھا کہ یورپ اس وقت اس تناؤ کے باعث کئی دہائیوں میں سب سے بڑے سکیورٹی بحران کا شکار ہے۔
امریکہ کے دفترِ خارجہ نے بھی یوکرین میں موجود امریکیوں کو فوری طور پر ملک چھوڑنے کا کہا ہے۔
این بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ‘امریکی شہریوں کو فوری طور پر ملک چھوڑ دینا چاہیے۔’
‘ہم اس وقت دنیا کے سب سے بڑی فوجوں میں سے ایک سے نبرد آزما ہیں۔ یہ بہت مختلف صورتحال ہے اور یہ بہت تیزی سے خراب ہو سکتی ہے۔’
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے کہ انھیں وہاں موجود امریکیوں کو ریسکیو کرنے کے لیے فوج بھیجنی پڑے۔ اس پر بائیڈن نے جواب دیا: ‘نہیں، ایسا نہیں ہو سکتا۔’
‘اگر امریکی اور روسی ایک دوسرے پر حملہ کر دیں تو یہ عالمی جنگ بن جائے گی۔ ہم پہلے کی نسبت ایک بہت مختلف دنیا میں زندہ ہیں۔’
دریں اثنا، عالمی رہنما یوکرین کے حالیہ بحران پر قابو پانے کے لیے سفارت کاری کی کوششوں کو مزید تیز کر رہے ہیں۔
روس اور یوکرین نے جمعرات کی شام یہ اعلان کیا تھا کہ فرانسیسی اور جرمن حکام کے ساتھ اس تنازع کے خاتمے کے بارے میں ہونے والی ایک دن کی بات چیت کے بعد کسی نتیجے پر نہیں پہنچے۔
حالیہ تناؤ روس کی جانب سے یوکرین کے جنوب میں واقع جزیرہ نما کرائمیا کے کچھ حصے پر قبضے کے آٹھ برس بعد سامنے آیا ہے۔ اس کے بعد سے یوکرین کی فوج روس کی سرحد کے قریب روسی حمایت یافتہ باغیوں سے ملک کے مشرقی علاقوں میں جنگ مصروف ہے۔
اس سے قبل، برطانیہ کے وزیرِ اعظم نے کہا تھا کہ انھوں امید ہے کہ ‘جنگ کور روکنے کی بھرپور کوششیں’ اور ‘سفارت کاری میں صبر کا مظاہرہ’ اس بحران سے نکلنے میں مدد دے سکتا ہے لیکن اس داؤ پر بہت کچھ لگا ہوا ہے۔
برسلز میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز سٹولٹنبرگ کے ساتھ ہونے والی مشترکہ نیوز کانفرنس میں بورس جانسن کا کہنا تھا کہ انھیں نہیں لگتا کہ روس نے ابھی تک یوکرین پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن برطانیہ کو ملنے والی انٹیلیجنس بھی ‘حوصلہ افزا نہیں ہے۔’
جب ان سے پوچھا گیا کہ برطانیہ یوکرین کی مدد میں کس حد تک جا سکتا ہے اور اگر روس حملہ کرتا ہے تو کیا اس کی امداد میں فوجی مدد بھی شامل ہو گی تو بورس جانسن نے کہا کہ ‘ہم اس بات پر غور کریں گے کہ ہم اس بارے میں مزید کیا مدد کر سکتے ہیں۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘یہ ممکن ہے، میں اس امر کو مکمل طور پر خارج الامکان نہیں کہوں گا، لیکن اس وقت میرے نزدیک موجودہ پیکج ہی ٹھیک ہے۔’
روس کے وزیر خارجہ سرجی لیوروو نے اپنے برطانوی ہم منصب لز ٹرس کے ساتھ ایک خاصی سرد پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ اب تک ہونے والی بات چیت خاصی ‘مایوس کن’ رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ روس اور برطانیہ کے درمیان روابط میں ‘بہترین کی خاصی گنجائش ہے’ اور وہ اس ‘گذشتہ کئی سالوں کی پست ترین سطح پر ہیں۔’
دوسری جانب ٹرس نے روس پر الزام عائد کیا کہ وہ ‘سرد جنگ کے بیانیے کو فروغ’ دے رہا ہے۔
برطانیہ کے وزیرِ دفاع بین والیس اپنے روسی ہم منصب سرجی شوئیگو سے ماسکو میں جمعے کو ملاقات کریں گے۔
روس جانے سے قبل والیس نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ برطانیہ یوکرین کو مزید دفاعی سامان مہیا کر رہا ہے جس میں باڈی آرمر، ہیلمٹس اور جنگ کے دوران استعمال ہونے والے بوٹ شامل ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ بہت اہم ہے کہ نظر آئے کہ نیٹو ممالک ‘ان دھمکیوں کے باعث پیچھے ہٹنے والے نہیں۔’
دریں اثنا، یوکرین نے روس پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ بحری مشقیں کرتے ہوئے اس کی سمندر تک رسائی میں رکاوٹ پیدا کر رہا ہے۔
یوکرین کے وزیرِ خارجہ دمترو کلیبا کا کہنا تھا کہ بحرِ ایزوو کو بحرِ اسود پر روسی فورسز کی جانب سے مکمل طور پر بلاک کیا گیا ہے۔
روسی بحری مشقیں اگلے ہفتے ان دونوں سمندروں میں منعقد ہوں گی جو یوکرین کے جنوب میں واقع ہیں۔ روس کی جانب سے ساحلی علاقوں پر وارننگ جاری کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ایسا مشقوں کے دوران میزائلوں اور گنری فائرنگ کے باعث کیا گیا ہے۔
یوکرین کے وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ ‘یہ مشقیں رقبے کے اعتبار سے جتنے بڑے علاقے میں کی جا رہی ہیں ان کی نظیر پہلے نہیں ملتی، اور اس دونوں سمندروں تک رسائی تقریباً ناممکن ہو چکی ہے۔’
روسی وزیرِ دفاع اولیکسی ریزنیکوو نے ٹویٹ کیا کہ دونوں سمندروں کے بین الاقوامی پانیوں کو روس نے بلاک کر دیا ہے۔
یوکرین کے جنوبی حصے میں ہونے والی بحری مشقیں بیلاروس میں جاری 10 روزہ فوجی مشقوں کے علاوہ ہیں۔ یہ مشقیں یوکرین کے شمال میں کی جا رہی ہیں۔
اس حوالے سے بھی خدشات موجود ہیں کہ اگر روس نے یوکرین پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو ان مشقوں کے ذریعے وہ یوکرین کے دارالحکومت کائیو کے مزید قریب پہنچ چکے ہیں اور اس پر حملے کرنے میں انھیں آسانی ہو گی۔ تاہم روس کا کہنا ہے کہ ان مشقوں کے اختتام پر اس کی فوجیں واپس آ جائیں گی۔
یوکرین نے بھی اپنی 10 روزہ فوجی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے لیکن حکام کی جانب سے اس حوالے سے واضح تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں
یوکرین اور روس کے درمیان گشیدگی گذشتہ برسوں کے مقابلے میں اس وقت انتہائی عروج پر ہے لیکن دوسری جانب بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے سفارتی کوششیں بھی تیزی سے جاری ہیں۔
اس جاری تنازع کے پیچھے بہت سے گھمبیر مسائل ہیں جو کئی دہائیوں پرانے ہیں اور اس میں اس خطے کے کئی ممالک کا عمل دخل ہے۔
آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس بحران کی وجوہات ہیں کیا؟
تنازع کی ابتدا کیوں اور کیسے ہوئی؟
تازہ کشیدگی کی ابتدا اکتوبر 2021 میں اس وقت ہوئی جب روس نے یوکرین کی سرحد پر اپنی افواج کو بڑی تعداد میں تعینات کرنا شروع کیا۔
انٹیلیجینس اور سیٹلائیٹ رپورٹس کے مطابق اس وقت یوکرین کی سرحد اور اس سے ملحقہ علاقوں میں روس کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی تعینات ہیں۔
روس کی وزارتِ دفاع نے حالیہ دنوں میں ان علاقوں میں کی گئی فوجی مشقوں کی فوٹیج بھی جاری کی ہے۔ یوکرین نے اپنی سرحد کے ساتھ روسی فوج کی بڑی تعداد میں موجودگی پر شدید خدشات کا اظہار کیا ہے، اگرچہ یوکرین کی حکومت نے پرزور انداز میں یہ بھی کہا ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے یا فوجی ایکشن لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
روس کا یہ کہنا ہے کہ سرحد کے پاس ان کی فوجی موجودگی یوکرین کے لیے خطرے کا باعث نہیں ہے اور یہ کہ یہ روس کا حق ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر اپنی افواج کو جہاں مرضی تعینات کرے۔
دفاعی ماہرین کا ماننا ہے کہ سرد جنگ کے بعد یوکرین کی سرحد پر یہ سب سے بڑی فوجی موجودگی ہے۔
لندن میں واقع تھنک ٹینک ‘یوکرین فورم’ کے سربراہ اورسیا لوٹسووچ کے مطابق ‘یوکرین اپنی سلامتی کو مضبوط بنانا چاہتا ہے کیونکہ وہ نہ صرف اپنی سرحد پر بلکہ یوکرین کے مقبوضہ علاقوں میں روس کی فوجی موجودگی کی وجہ سے کافی دباؤ کا شکار ہے۔’
اورسیا لوٹسووچ کے مطابق یوکرین اس دباؤ کو کم کرنے کا ایک حل نیٹو کے ساتھ اجتماعی اتحاد کے ذریعے ممکن ہے۔
دوسری جانب ماسکو میں واقع ‘انسٹیٹیوٹ آف یورپ’ سے منسلک الینا انینیوا کہتی ہیں ‘روس کی افواج اپنی سرزمین پر موجود ہیں۔ امریکہ بالکل بھی یہ نہیں چاہے گا کہ کوئی ملک امریکہ کو بتائے کہ وہ اپنی سرزمین پر اپنے فوجی کہاں کہاں تعینات کرے۔دوسرے ممالک کے حوالے سے بھی سب کا رویہ یہی ہونا چاہیے یعنی کسی بھی ملک کی خودمختاری کا احترام کیا جانا چاہیے ۔’
‘لیکن روس کی نظر سے دیکھا جائے تو انھیں سب سے بڑا خطرہ یوکرین کے نیٹو اتحاد میں شمولیت سے ہے کیونکہ روس کے مطابق ایسا ہونے سے نیٹو اتحاد کا انفراسٹرکچر روس کے قریب تر آ جائے۔’
اور یہی وہ خدشہ ہے جو ہمیں اپنے اگلے سوال کی جانب لے جاتا ہے۔
کیا نیٹو یوکرین کو بطور نیا رکن ملک اپنے اتحاد میں شامل کرے گا؟
یوکرین، روس سرحدی کشیدگی کے بیچ نیٹو اور روس میں سفارتی اختلافات بھی بڑھ رہے ہیں۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کے مطابق ‘مشرق کی جانب نیٹو کی مزید توسیع اور ہتھیاروں کی تعیناتی روسی فیڈریشن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے اور یہ ناقابل قبول ہے۔’
روس نیٹو کی ممکنہ توسیع کے خلاف ہے اور وہ چاہتا ہے کہ نیٹو روس کو یہ ضمانت دے کہ وہ یوکرین کو نیٹو اتحاد میں شامل نہیں کرے گا۔
یہ وہی رائے ہے جس سے چین بھی روس سے متفق ہے۔
مگر نیٹو اور اس کے رکن ممالک نے روس کے اس مطالبے کو مسترد کیا ہے۔
نیٹو کے فی الوقت 30 رکن ممالک ہیں مگر اس اتحاد میں توسیع ہو سکتی ہے اور دیگر ممالک بھی نیٹو کو بطور رکن ممالک جوائن کر سکتے ہیں۔ یوکرین فی الحال نیٹو اتحاد کا باقاعدہ رکن تو نہیں مگر ‘پارٹنر (شراکت دار) ملک’ ضرور ہے۔
اورسیا لوٹسووچ کے مطابق ‘یوکرین بطور معاشرہ اور اس کی سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ یوکرین کو روسی جارحیت سے بچانے کے لیے ‘اجتماعی سلامتی کے اتحاد’ (یعنی نیٹو) کا حصہ بننے سے بہتر کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔’ تاہم لوٹسووچ کا یہ بھی کہا ہے کہ مستقبل قریب میں شاید ایسا ہونا ممکن نہ ہو پائے۔
یاد رہے کہ نوے کی دہائی میں سرد جنگ کے اختتام اور سویت یونین کے حصے بخرے ہونے کے بعد نیٹو اتحاد نے کوشش کی ہے کہ وہ روس سے علیحدہ ہونے والی سینٹرل اور مشرقی یورپی ریاستوں سے اچھے تعلقات استور کرے۔
گذشتہ کئی دہائیوں سے روس نے بارہا یہ دعویٰ کیا ہے کہ مغرب (ویسٹ) نے نیٹو کو توسیع نہ دینے کا اپنا وعدہ توڑا ہے۔ یہ دعویٰ 1990 میں سابق امریکی وزیر خارجہ جیمز اے بیکر اور سابق سوویت رہنما میخائل گورباچوف کے درمیان ہونے والی بات چیت کے پس منظر میں کیا جاتا ہے۔
مگر ویسٹ کے رہنما روس کے اس دعوے سے متفق نہیں اور ان کا کہنا ہے کہ نیٹو اتحاد کو توسیع نہ دین کے حوالے سے کوئی باقاعدہ معاہدہ یا ڈیل کبھی نہیں ہوئی اور یہ کہ نیٹو اتحاد ‘دروازہ کھلا رکھنے’ (یعنی نئے ممالک کو اتحاد کا ممبر بنانا) کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
روس کے صدر ولادیمر پوتن کے مطابق اگر یوکرین نیٹو اتحاد کا حصہ بنتا ہے تو یہ روس کے لیے خطرے کا باعث ہو گا۔
گذشتہ سال نومبر میں انھوں نے کہا تھا کہ نیٹو اتحاد میں یوکرین کی شمولیت اور اس کے نتیجے میں یوکرین میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی ممکنہ تنصیب (جو روس کے شہروں کو کامیابی سے ہدف بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں) روس کے لیے ایک ‘ریڈ لائن’ معاملہ ہو گا جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔
Comments are closed.