کراچی کے علاقے سچل میں پولیس نے بھینس کالونی میں انجام دی گئی ڈکیتی کی واردات کا مقدمہ حقائق اور شواہد چھپا کر درج کیا ہے جس کا سراسر فائدہ ملزمان کو ہوگا۔
پولیس ذرائع کے مطابق سکھن تھانے میں بھینسوں کے بیوپاری محمد غفار راجپوت نے ایف آئی آر نمبر 97/22 زیرِ دفعہ 392، 397، 34 درج کرائی ہے کہ اسے بھینس کالونی روڈ نمبر 7 پر گھوڑا چوک کے قریب موٹر سائیکلوں پر سوار 4 مسلح ملزمان نے روکا اور اسلحے کے زور پر اس سے موبائل فون اور 2 لاکھ روپے لوٹ لیے اور فرار ہو گئے۔
مدعی محمد غفار کے مطابق واردات کے دوران چاروں ڈاکو مسلح تھے جنہوں نے ناصرف اسے گن پوائنٹ پر لیا بلکہ اسے اور مدد کی ممکنہ کوشش کرنے والوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی اور واردات کے بعد بڑے سکون سے فرار ہو گئے۔
مدعی غفار کے مطابق انہوں نے علاقہ مکینوں کی مدد سے ملزمان کی جانب سے فائر کی گئی گولیوں کے خالی خول قبضے میں لے لیے اور انہیں خود تھانے پہنچ کر پولیس کے حوالے کیا مگر پولیس نے مقدمہ کمزور درج کیا جس میں فائرنگ کا حوالہ دیا گیا اور نہ ہی گولیوں کے خول برآمد ہونے کا تذکرہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ فائرنگ کی صورت میں پولیس کے کرائم سین یونٹ کو موقع پر پہنچ کر کارروائی کرنا ہوتی ہے، کرائم سین یونٹ ہی موقع سے ملنے والے خول فرانزک کے لیے لیبارٹری بھیجتا ہے، فرانزک سے واردات میں ملوث ملزمان کا سراغ لگانا آسان ہوتا ہے۔
گرفتاری اور ملزمان سے برآمد اسلحے کا فرانزک کرانے کی صورت میں کسی اور واردات کے خول ان خولوں سے اگر میچ کر جائیں تو عدالت میں ملزمان کو سزا دلانے میں مدد ملتی ہے۔
پولیس ذرائع نے سکھن پولیس کی اس بظاہر معمولی غفلت کو انتہائی مجرمانہ قرار دیا ہے۔
ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر نے واقعے کی تصدیق کی اور کہا کہ ملزمان نے 2 فائر کیے، درج مقدمے میں اس کا تذکرہ کیوں نہیں کیا گیا وہ ایس ایچ او سے بازپرس کریں گے۔
عرفان بہادر کے مطابق ان وارداتوں میں ملوث ڈاکوؤں کے اس نئے گروہ کا سراغ لگا لیا گیا ہے جن کا چند دنوں میں قلع قمع کر دیا جائے گا۔
ایس ایچ او سکھن خالد عباسی کا کہنا ہے کہ مقدمے میں فائرنگ کا تذکرہ کرنے یا نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انہوں نے بتایا کہ پولیس کے شعبۂ تفتیش نے اپنے کاغذات میں ملزمان کے فائرنگ کرنے اور خول برآمد کرنے کا حوالہ دے دیا ہے۔
Comments are closed.