انگریزی کا وہ امتحان جس نے ہزاروں زندگیاں تباہ کر دیں
- ایڈ مین اور رچرڈ واٹسن
- بی بی سی نیوز
2020 میں بین الاقوامی طالبِ علم لندن کے پارلیمنٹ سکوائر میں احتجاج کرتے ہوئے
بی بی سی کی ایک تحقیق نے ان شواہد کے بارے میں تازہ شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے جن کا استعمال کرتے ہوئے ہزاروں لوگوں کو انگریزی زبان کے امتحان میں مبینہ طور پر نقل کے الزام میں برطانیہ سے ملک بدر کیا گیا تھا۔
بی بی سی کے پروگرام نیوز نائٹ کو ملنے والی وِسل بلور کی گواہی اور سرکاری دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ بین الاقوامی ٹیسٹنگ آرگنائزیشن ای ٹی ایس کے طرزِ عمل اور اس کے ڈیٹا میں خامیوں کے متعلق سنگین خدشات کے باوجود، ہوم آفس (برطانیہ کی وزارتِ داخلہ) ای ٹی ایس کے دعوؤں کی بنیاد پر لوگوں کو ملک بدر کر رہی ہے۔
ای ٹی ایس کے امتحان میں نقل کرنے کے الزامات کے نتیجے میں 2500 سے زیادہ لوگوں کو ملک بدر کیا گیا اور 7200 کو برطانیہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور جو لوگ ابھی برطانیہ میں مقیم ہیں وہ برسوں کی مشکلات برداشت کرنے کے بعد آج بھی اپنا نام کلیئر کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔
اس کریک کا آغاز 2014 میں بی بی سی کے پروگرام ’پینوراما‘ میں اس انکشاف کے بعد ہوا کہ لندن کے دو ٹیسٹ سینٹروں میں جعلی امتحان ہو رہے ہیں تاکہ ویزہ حاصل کرنے کے خواہش مند افراد جعلی طریقے سے انگریزی کا امتحان پاس کر سکیں۔
اس انکشاف کے بعد حکومت نے ای ٹی ایس سے سو سے زیادہ ایسے ٹیسٹ سینٹروں کا جائزہ لینے کے لیے کہا جہاں انگریزی زبان کے ٹیسٹ لیے جاتے ہیں۔
ای ٹی ایس نے حکومت کو ایسے مراکز کی ایک بڑی فہرست پیش کی جہاں نقل کروائی جاتی ہے لیکن اس ثبوت کے باوجود کہ اس فہرست میں کچھ بے قصور لوگ بھی شامل ہیں، وزارتِ داخلہ ای ٹی ایس کے شواہد پر یقین کیے بیٹھی ہے۔
لیبر جماعت کے ایم پی سٹیفن ٹمز کا کہنا ہے کہ ’ای ٹی ایس کی گواہی قابلِ بھروسہ نہیں تھی لیکن پھر بھی ہوم آفس ان پر مکمل انحصار کرتا رہا۔‘
نیوز نائٹ نے کچھ اور شواہد کو بھی بے نقاب کیا ہے جن میں سے زیادہ تر کے متعلق محکمے کو کئی برس سے معلوم تھا۔ اس سے مزید کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ جو کچھ ہوا اس کے بارے میں تحقیقات کے لیے ای ٹی ایس پر کیوں بھروسہ کیا گیا۔
وہی صحافی جنھوں نے اصل فراڈ کو بے نقاب کیا، اسی کے ذریعے بی بی سی نے نئی تحقیق میں انکشاف کیا:
- ای ٹی ایس کے سابقہ اور موجودہ عملے نے وزارتِ داخلہ کو بتایا تھا کہ پینوراما میں انکشاف سے دو سال پہلے ہی انھیں نقل کرنے کے ٹھوس شواہد مل چکے تھے۔
- انھوں نے ہوم آفس کے تفتیشی افسران کو بتایا کہ کچھ ایسے جعلی امتحانی مراکز کو بند کرنے کی ان کی کوششوں کو مینیجرز نے روک دیا تھا کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ ٹیسٹ فیس سے آنے والی آمدنی کم ہو جائے گی۔
- ان گواہیوں سے ہوم آفس کو معلوم ہوا کہ اس دھوکہ دہی کے معلق انھیں اندھیرے میں رکھا گیا تھا۔
- تفتیش کاروں کو عینی شاہدین کے بیانات بھی دکھائے گئے جن کے مطابق کچھ ٹیسٹ جعلی تھے جنھیں ’ریموٹ ٹیسٹنگ ‘ کہا جاتا تھا۔ ان کے بارے میں وکلا کا خیال ہے کہ یہ ای ٹی ایس کے شواہد کو کمزور ظاہر کرتے ہیں۔
پبلِک اکاونٹ کمیٹی کے سربراہ اور لیبر جماعت کے ایم پی میگ ہلر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آپ کی تحقیق سے جو کچھ سامنے آیا ہے، اس کے بعد وزارتِ داخلہ ای ٹی ایس کے ڈیٹا پر بھروسہ نہیں کر سکتی۔‘
وحید الرحمن، جنھوں نے سات سال کی جدوجہد کے بعد اپنے خلاف ہوم آفس کے الزامات کو غلط ثابت کیا، کہتے ہیں کہ ’انھیں مجھ سمیت دیگر بے قصور طلبا سے معافی نہ مانگنے پر شرم آنی چاہیے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’نقل کے الزام کا شکار بہت سے افراد کو اس الزام کو چیلینج کرنے کا اختیار دیے بغیر ملک بدر کر دیا گیا حتیٰ کہ انھیں ان کے خلاف ثبوت تک دیکھنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ہوم آفس نے اپیل کا حق دیے بغیر ان کے ویزے منسوخ کر دیے۔‘
وحید الرحمان کا کہنا ہے انھیں اپنا سر شرم سے جھکا لینا چاہیے کیونکہ اس کے لیے انھوں نے نہ صرف مجھ سے بلکہ میرے جیسے کئی بے قصور طالبِ علموں سے معافی تک نہیں مانگی۔
وحید الرحمن
ڈیم میگ کا کہنا ہے کہ حکومت کے اقدامات ’بڑی ناانصافی‘ کا باعث بنے ہیں اور اب حکومت کو چاہیے کہ مبینہ طور پر نقل کرنے والوں (جن میں سے زیادہ تر بین الاقوامی طلبا کے طور پر برطانیہ آئے تھے) کے خلاف بقایا قانونی کارروائی کو ختم کر دے۔
انھوں نے مشورہ دیا کہ اس کے بجائے انھیں ویزوں کے لیے انگریزی کے نئے ٹیسٹ میں بیٹھنے کی اجازت دی جائے۔
نومی راجہ 22 سال کے تھے جب جون 2014 میں امیگریشن افسران نے ان کے گھر پر چھاپہ مارا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے مجھ سے میری شناخت پوچھی۔ اس آدمی کے پاس ریڈیو تھا اور وہ بولا: ’ٹارگٹ مل گیا ہے۔‘
جب وہ گیٹوک ایئرپورٹ کے حراستی مرکز میں پہنچے تو اس وقت ایک افسر نے بتایا کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا۔
’وہ افسر بولی ’تم ے ٹوئک دیا ہے، جس میں تم نے نقل کی اور ہم تمھیں پاکستان واپس بھیج رہے ہیں۔‘
ٹوئک (بول چال کے لیے انگریزی کا ٹیسٹ) ای ٹی ایس کی طرف سے مقرر کردہ امتحان کا نام ہے۔
یمی گریشن افسران نے نومی راجا کے گھر پر چھاپہ مارا
راجہ اپنی ملک بدری روکنے میں کامیاب ہو گئے اور 125 دن کے بعد رہا کر دیے گئے لیکن اپنی بے گناہی کا احتجاج کرنے والے دوسرے لوگوں کی طرح، ان پر بھی کام کرنے، تعلیم حاصل کرنے یا این ایچ ایس (برطانیہ میں صحت کا نظام) تک رسائی پر پابندی لگا دی گئی۔
کچھ لوگوں کے رشتے داروں نے ان سے تعلق ختم کر دیا۔
انھیں یقین نہیں تھا کہ حکومتِ برطانیہ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے ان پر اس طرح کے شرمناک الزامات لگائے گی۔
چیرٹی مائیگرنٹ وائس کی ڈائریکٹر نازک رمضان کا کہنا تھا کہ متاثرین کے لیے برطانیہ اور خود اپنے ملک میں خود کو ناپسندیدہ محسوس کرنا، ایک خوفناک احساس تھا۔ نازک رمضان کہتی ہیں کہ ایسے لوگوں سنگین ذہنی مسائل کا شکار ہو گئے اور کچھ لوگ خود کشی سے بچنے کے لیے ادویات لے رہے تھے۔
2014 میں بی بی سی پینوراما کو ایک اطلاع ملی کہ لندن کے دو ٹیسٹ مراکز میں ایسے لوگ، جنھیں انگریزی کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں، انھیں انگریزی کے ٹوئک ٹیسٹ میں پاس ہونے کی ضمانت دی جاتی ہے۔
ایک انڈر کور ریسرچر نے مشرقی لندن کے ایک ٹیسٹ سینٹر میں خفیہ ریکارڈنگ کی جہاں سینٹر کے عملے نے ہر امیدوار کو پیسے لے کر نقل کروائی یا ان کی جگہ کسی اور نے ٹیسٹ دیے۔ اس کے بعد وہ پرچے مارکنگ کے لیے امریکہ میں ای ٹی ایس پر اپ لوڈ کر دیے گئے۔
پینوراما کی اس رپورٹ نے اس وقت کی وزیرِ داخلہ ٹریسا مے کو چونکا دیا تھا اور ان کا کہنا تھا ’میں اس بارے میں کچھ کرنا چاہتی ہوں۔‘ ان کے محکمے نے بین الاقوامی طالبِ علموں کو سپانسر کرنے والے سینکڑوں کالجوں کے لائسنس منسوح کر دیے تھے کیونکہ ان پر ایمیگریشن فراڈ کرنے کا شبہ تھا۔ اس کے بعد ٹوئک کے لیے ہونے والے ٹیسٹ کی تحقیقات شروع کر دی گئیں۔
اب آواز کی شناخت کرنے والے سافٹ ویئر کے ذریعے ای ٹی ایس پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے، جس کے تحت اگر کوئی ایک آواز متعدد ٹیسٹ ریکارڈنگز میں سنائی دیتی ہے تو اس کا مطلب ہو گا کے کسی ایک پراکسی نے دوسرے لوگوں کی جگہ ٹیسٹ دیا ہے۔
اگر کوئی ٹیسٹ شک کے دائرے میں آتا ہے اور ای ٹی ایس کے دو افسران اس پر اتفاق کرتے ہیں تو اسے ’ناقابلِ قبول‘ کی درجہ بندی میں رکھا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ امیدوار نے یقینی طور پر نقل کی ہے۔
یہاں تک کہ اگر یہ نقل کی نشاندہی نہیں کرتا، تب بھی ای ٹی ایس ایک ٹیسٹ کو اس بنیاد پر ’قابل اعتراض‘ قرار دے سکتا ہے اگر یہ بہت سے ’ناقابلِ قبول‘ ٹیسٹوں والے مرکز میں لیا گیا ہو۔
اس حوالے سے حتمی نتائج حیران کن تھے: 2001 سے 2014 کے درمیان برطانیہ میں لیے گئے 58000 ٹیسٹوں میں 97 فیصد کو مشکوک قرار دیا گیا۔ جن میں سے 33663 ’ناقابلِ قبول‘ جبکہ 22476 ’قابل اعتراض‘ تھے۔
اگر یہ اعداد و شمار درست ہوتے تو یہ برطانیہ کی تاریخ میں نقل کا سب سے بڑا سکینڈل ہوتا۔
لیبر رکن پارلیمان سٹیون ٹِمز کا کہنا تھا کہ ان اعداد و شمار کو چیلنج نہیں کیا گیا کیونکہ یہ غیر ملکی تارکین وطن کے لیے ’ناسازگار ماحول‘ بنانے کے حکومتی ایجنڈے کے عین مطابق تھے۔
وہ کہتے ہیں ’افسوس یہ ہے کہ انھوں نے اسے ایک موقعے کے طور پر دیکھا اور اس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ لوگوں نے بہت زیادہ قیمت ادا کی۔‘
2014 میں یونیورسٹیوں کے وزیر، لارڈ ولیٹس کہتے ہیں کہ اگرچہ 97 فیصد تعداد ’قابل یقین حد تک زیادہ‘ تھی مگر حکام نے ان پر یقین کیا۔ ہوم آفس نے فرض کر لیا کہ یہ سارا معاملہ سراسر بدعنوانی اور اختیارت کے ناجائز استعمال کا تھا، اس لیے وہ اس کی تفصیل میں نہیں گئے۔‘
ٹیریسا مے نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
یہ بھی پڑھیے
وزارتِ داخلہ کو ناموں کی ایک طویل فہرست دی گئی جس نے ان سب افراد کے ویزے رد کر دیے جن کے ٹیسٹ ’قابل اعتراض‘ قرار دیے گئے تھے۔ لیکن 2017 کے بعد ٹوئک ٹیسٹ دینے والوں کو برطانیہ میں اپیل دینے کا حق حاصل ہوا۔
2016 میں، ملک بدری شروع ہونے کے دو سال بعد ای ٹی ایس نے ایسے افراد کو جن پر ٹیسٹ میں نقل کرنے کا الزام تھا، انھیں ان کے ٹیسٹ کی ریکارڈنگ فراہم کرنا شروع کی۔
شکیل راٹھور کی کہانی اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ ان سے پہلے ایسے بہت سے لوگ اپنی بے گناہی ثابت کر سکتے تھے اگر انھیں بھی شکیل کی طرح آڈیو پر مبنی ثبوت پیش کرنے کا موقع ملا ہوتا۔ اس آڈیو سے ثابت ہوا کہ 50 سالہ سول انجینیئر شکیل نے نقل نہیں کی تھی۔
جب ہم نے ان کی ٹیسٹ ریکارڈنگ سنی تو یہ صاف تھا کہ وہ انھی کی آواز تھی۔ وہ پرجوش ہو کر بولے ’ہاں یہ میری ہی آواز ہے۔‘
شکیل راٹھور اور رچرڈ واٹسن شکیل کے ٹیسٹ کی ریکارڈنگ سنتے ہویے
شکیل کو اپنی ٹیسٹ کی ریکارڈنگ حاصل کرنے میں تین سال لگ گئے اس کے باوجود وزارتِ داخلہ نے اس وقت ان کے خلاف الزامات واپس لیے جب انھوں نے ایک ماہر کی مدد سے یہ ثابت کیا کہ یہ ان کی ہی آواز ہے۔
ایک اور شخص کو عدالت میں اپنی ٹیسٹ ریکارڈنگ پیش کرنے میں چھ سال لگے جج نے ان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے افسران کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی آواز کا موازنہ کیوں نہیں کیا گیا۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کی آواز ریکارڈنگ میں تھی ہی نہیں جس سے اس دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ انھوں نے نقل کی تھی تاہم ڈیجیٹل فرانزک ماہر پروفیسر پیٹر سومر کا کہنا ہے کہ ’کئی بار آواز کی فائلیں اس شخص کی آواز سے مطابقت نہیں رکھتیں۔‘
تاہم اس بات کی تصدیق کرنا ناممکن تھا کہ فائلیں وہی تھیں جو ای ٹی ایس نے دی ہیں کیونکہ ان میں کوئی الیکٹرانک میٹا ڈیٹا موجود نہیں تھا جس میں یہ دکھایا گیا ہو کہ وہ کب اور کہاں بنی تھیں۔
نومی راجہ نے اپنے خلاف الزامات میں اہم خامیاں دریافت کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں کہا گیا ہے کہ میں بنگلہ دیشی شہری ہوں جبکہ میں پاکستان سے ہوں، اس میں یہ بھی کہا گیا کہ ٹیسٹ سینٹر لیسٹر میں تھا جبکہ میرا امتحان لندن میں ہوا تھا۔
جب پانچ سال بعد ان کی اپیل کی سماعت ہوئی تو جج نے فیصلہ دیا کہ ’ان کے پاس فیصلہ دینے کے لیے کوئی کیس ہی نہیں۔‘
مئی 2015 میں وزاتِ داخلہ نے تفتیشی افسران کے تجربات کو ایک رپورٹس کی شکل دی اور آج بھی یہ رپورٹس امیگریشن اپیلوں میں طلبا کے خلاف کیس کے حصے کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔
فروری 2021 میں وزیرِ داخلہ پریتی پٹیل نے پارلیمان کو بتایا کہ وہ مانتی ہیں کہ کچھ بے قصور لوگوں پر غلط الزامات لگائے گئے۔ ہمیں اس کا حل تلاش کرنا ہے اور جو کچھ بھی ہوا اس میں انصاف دیا جانا چاہیے۔
انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ ٹیسٹ کیس کے فیصلہ کے بعد وہ اس معاملے کا حل تلاش کریں گی لیکن ایک سال بعد بھی اس کیس کے فیصلے کا انتظار ہے۔
Comments are closed.