امریکہ میں منجمد افغان فنڈز کو تقسیم کرنے کا صدارتی حکمنامہ جاری، طالبان کی فیصلے پر کڑی تنقید
امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے افغانستان کے منجمد سات ارب ڈالر کے فنڈز کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے صدارتی حکمنامے پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد نصف رقم (ساڑھے تین ارب ڈالر) افغانستان کے عوام کی انسانی مدد جبکہ بقیہ ساڑھے تین ارب ڈالر گیارہ ستمبر 2001 کے شدت پسند حملوں کے متاثرین میں تقسیم کرنے کے لیے راہ ہموار ہو گئی ہے۔
جمعے کو دستخط کیے جانے والے صدارتی حکمنامے کے مطابق انتظامیہ نیویارک کے فیڈرل ریزور میں منجمد افغان اثاثوں تک رسائی حاصل کر سکے گی اور ان اثاثوں میں ساڑھے تین ارب ڈالر افغان عوام کی فلاح اور افغانستان کے مستقبل پر خرچ کیے جا سکیں گے۔
تاہم اسی حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ اس رقم کو ایک عدالتی فیصلہ آنے تک مختص نہیں کیا جا سکتا۔
دوسری جانب طالبان کے ترجمان نے اس امریکہ فیصلہ کو ’چوری‘ اور ’اخلاقی انحطاط‘ کی نشانی قرار دیا ہے۔
قطر میں طاکبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے اس فیصلے کے بعد ٹویٹ میں رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کے مرکزی بینک کے فنڈز پر قبضہ کرنا ’چوری‘ ہے اور ’انسانی اور اخلاقی انحطاط‘ کے سب سے نچلے درجے پر گرنے کی نشانی ہے۔
واضح رہے کہ ماضی میں طالبان نے تنبیہ کی تھی کہ افغانستان کے منجمد فنڈز کو واپس نہ کرنا ’مسائل‘ کا باعث بن سکتا ہے جس کے باعث نہ صرف اقتصادی طور پر افغانستان مزید متاثر ہوگا بلکہ بڑی تعداد میں لوگ پناہ لینے کے لیے ملک چھوڑنے کی کوشش کریں گے۔
اگست 2021 میں طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے ملک کی معاشی حالات مسلسل بگڑتی جا رہی ہے اور اقوام متحدہ نے خدشہ کا اظہار کیا کہ 2022 کے وسط تک ملک میں غربت کی شرح 97 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
صدارتی حکمنامے میں کیا ہے؟
امریکہ کے ایوان صدر نے اس حکمنامے میں ان قانونی دعوؤں کی طرف بھی اشارہ کیا جو گیارہ ستمبر کے حملوں کے متاثرہ خاندانوں کی طرف سے دائر کیے گئے ہیں جن میں طالبان اور دیگر گروپوں کے خلاف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس رقم کو بطور معاوضہ متاثرین میں تقسیم کرنے کی بات کی گئی ہے۔
صدر بائیڈن کے حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ متوقع عدالتی فیصلہ میں اگر ساڑھے تین ارب ڈالر افغان عوام کو دینے کی منظوری دی جاتی ہے تو بھی ساڑھے تین ارب ڈالر امریکہ ہی میں رہیں گے اور دہشت گردی کے متاثرہ امریکی شہریوں کی طرف سے دعوؤں سے مشروط رہیں گے۔
ایک بیان میں ایوان صدر نے کہا اس حکمنامے سے افغان عوام تک یہ پیسہ پہنچانے کی راہ ہموار کی گئی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ طالبان کے ہاتھ نہ لگے۔
جمعہ کو یہ صدارتی حکمنامہ ایک ایسے وقت جاری کیا گیا ہے جب امریکی حکومت کو گیارہ ستمبر کے حملوں میں متاثرہ خاندانوں کی طرف سے دائر کردہ مقدمات میں جواب جمع کرانے کی عدالت کی طرف سے دی گئی مہلت ختم ہو رہی ہے۔
اسی حوالے سے مزید پڑھیے
گذشتہ سال اگست کے مہینے میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد بہت سی غیر ملکی حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں نے جلد بازی میں افغانستان کے مرکزی بینک کے بیرون ملک اثاثوں کو منجمد کر دیا تھا جن کی مجموعی مالیات دس ارب ڈالر بنتی ہے اور ان میں سے سات ارب ڈالر صرف امریکہ شہر نیویارک میں موجود ہیں۔
طالبان نے بارہا امریکہ اور غیر ملکی حکومتوں اور اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ فنڈ جلد از جلد جاری کیے جائیں تاکہ وہ افغانستان کی بدحال معیشت کو سہارا دے سکیں اور انسانی بحران سے بچ سکیں۔
امریکہ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرتا اور اس نے طالبان کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیمیں امریکہ سے مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ یہ اثاثے جاری کیے جائیں اور طالبان سے ماورا عالمی امدادی اداروں کے ذریعے یہ رقم افغان عوام تک پہنچائی جائے۔
افغان حکومت کو جو پیسہ امریکہ میں منجمد ہے وہ بنیادی طور پر ان پیسوں پر مشتمل ہے جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بین الاقوامی سطح پر افغان عوام کی مدد کے لیے عطیہ کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ دو ارب ڈالر یورپ اور متحدہ عرب امارت میں بھی منجمد ہیں۔
Comments are closed.