میانمار کی بدنام زمانہ فوج ’تتمادو‘ اتنی سفاک کیوں ہے؟
تقریباً ایک برس قبل میانمار کی فوج نے ایک بغاوت کے ذریعے آنگ سان سوچی کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
میانمار کی فوج جسے ’تتمادو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، نے مظاہرین کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن میں درجنوں بچوں سمیت سینکڑوں شہریوں کو ہلاک کر کے دنیا کو چونکا دیا۔
میانمار کے شہریوں کے لیے یہ سال سڑکوں پر سرراہِ اندھا دھند قتل و غارت اور چھاپوں کا سال رہا، جس کے دوران کئی افراد کا قتل کیا گیا۔
حال ہی میں یعنی دسمبر 2021 میں بی بی سی کی ایک تحقیقات میں پتا چلا کہ تتمادو نے کئی ایسے حملے کیے جن میں مخالفین کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انھیں اجتماعی طور پر قتل کیا گیا۔
اسسٹینس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز (برما) کے مطابق فروری 2021 میں ہونے والی بغاوت کے بعد سے اب تک 1500 سے زائد افراد سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔
لیکن تتمادو آخر اتنی طاقتور کیسے ہوئی اور یہ اتنی سفاک کیوں ہے؟
تتمادو کیا ہے؟
تتمادو کا مطلب برمی زبان میں ’مسلح افواج‘ ہے لیکن یہ نام موجودہ فوجی اتھارٹی کا مترادف ہو گیا ہے۔ اسے ملک میں زبردست قوت اور اختیارات حاصل ہیں جبکہ یہ عالمی سطح پر انھی وجوہات کی بنیاد پر بدنام ہے۔
صدیوں تک برمی بادشاہوں کے پاس ایک مستقل فوج ہوا کرتی تھی لیکن برطانوی حکومت کے تسلط کے بعد اسے ختم کر دیا گیا۔
تتمادو کی جڑیں برما انڈیپنڈنس آرمی (بی آئی اے) میں پیوست دیکھی جا سکتی ہیں، جس کی بنیاد سنہ 1941 میں انقلابیوں کے ایک گروپ نے رکھی تھی جس میں آنگ سان بھی شامل تھے۔
آنگ سان کو بہت سے برمی اپنے روحانی ’فادر آف دی نیشن‘ (بابائے قوم) کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ برطرف حکمراں آنگ سان سوچی کے والد تھے۔
سنہ 1948 میں برما کے برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے سے کچھ مدت قبل آنگ سان کو قتل کر دیا گیا تھا لیکن ان کی موت سے پہلے ہی بی آئی اے نے دیگر ملیشیاؤں کے ساتھ مل کر ایک قومی مسلح فورس تشکیل دینا شروع کر دی تھی۔ آزادی کے بعد اسی فوج نے وہ شکل اختیار کی جسے آج تتمادو کے نام سے جانا جاتا ہے۔
آنگ سان سوچی کو گذشتہ سال تختہ الٹنے کے ساتھ حکومت سے معذول کر دیا گيا
آزادی کے بعد اس فوج نے تیزی سے طاقت اور اثر و رسوخ حاصل کر لیا۔ سنہ 1962 تک یہ فوج حکومت کا تختہ الٹ کر ملک پر کنٹرول حاصل کر چکی تھی اور اگلے 50 سال تک عملی طور پر بلا مقابلہ حکومت کرتی رہی۔ سنہ 1989 میں اس نے ملک کا سرکاری نام تبدیل کر کے میانمار کر دیا۔
اس فوج کو ملک میں ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے اور فوج میں شمولیت اختیار کرنا ملک میں بہت سے لوگوں کا خواب ہوتا ہے لیکن حالیہ بغاوت نے اس کے کچھ ارکان کو بہت حد تک مایوس کیا۔
فوج کے ایک سابق کپتان لن ہیٹ آنگ (نام تبدیل کیا گیا) کا کہنا ہے کہ ’میں نے فوج میں اس لیے شمولیت اختیار کی کیونکہ میں بندوق پکڑنا چاہتا تھا، جنگی محاذ پر جا کر لڑنا چاہتا تھا۔ میں ایڈونچر اور ملک کے لیے قربانی دینا چاہتا ہوں۔‘
انھوں نے ملک میں جاری سول نافرمانی کی تحریک (سی ڈی ایم) میں شمولیت کے لیے فوج کی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ یہ تحریک یکم فروری کی بغاوت کے خلاف شروع ہوئی تھی اور اس میں ڈاکٹر، نرسیں، ٹریڈ یونین کے کارکنان اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ شامل ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’لیکن اب میں بہت شرمندہ ہوں۔ میں نے اس ادارے کو سمجھنے میں غلطی کی۔ پرامن مظاہرین پر وحشیانہ حملے کیے گئے ہیں، بعض صورتوں میں، بموں، مہلک ہتھیاروں اور سنائپرز سے حملے کیے گئے ہیں۔ یہ وہ تتمادو (فوج) نہیں رہی۔ اسی لیے میں نے سی ایم ڈی میں شمولیت اختیار کی۔‘
ملک کی ساخت
میانمار 130 سے زیادہ مختلف نسلی گروہوں پر مشتمل ہے لیکن وہاں بدھ مت کے ’بامروں‘ کی اکثریت ہے اور ملک کی زیادہ تر اشرافیہ میں بھی بامار ہی شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ فوج اس اشرافیہ میں بھی خود کو اشرافیہ کے طور پر دیکھتی ہے۔
جدید میانمار کی تاریخ ان کے ساتھ گتھی ہوئی ہے اور تتمادو خود کو قوم کے بانیوں کے طور پر پیش کرتے ہیں وہ خود کو مجسم حقیقی برمی ہونے کا مترادف قرار دیتے ہیں۔
بنکاک کی چولالونگ کورن یونیورسٹی میں میانمار امور کی ماہر گوین رابنسن کہتی ہیں کہ ’وہ اس انتہائی قوم پرست نظریے میں بہت اندر تک پیوست ہیں۔‘
’انھوں نے ہمیشہ نسلی اقلیتی گروہوں کو خطرے کے طور پر دیکھا، جو میانمار میں اپنے حصے کے مستحق نہیں اور انھیں ایسے گروہوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو ملک کے اتحاد اور استحکام کو خراب کرنا چاہتے لہذا انھیں ختم کر دیا جانا چاہیے یا خاموش کر دیا جانا چاہیے۔‘
اور اسی سبب کئی دہائیوں سے میانمار درجنوں چھوٹی چھوٹی خانہ جنگیوں کا شکار رہا۔
میانمار کی فوج مستقل جنگ میں رہی ہے
میانمار میں مسلح نسلی ملیشیا کا ایک پیچیدہ اور مسابقتی نیٹ ورک سرگرم عمل ہے جو وسطی برمی ریاست سے دور خود ارادیت کے خواہاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تتمادو ہمیشہ برسر پیکار رہی ہے اور بعض اوقات تو کئی محاذوں پر بیک وقت لڑتی آئی ہے۔
کچھ مبصرین کے نظر میں ان ملیشیاؤں کے خلاف برمی فوج کا مسلسل جنگ میں مصروف رہنا دنیا کی طویل ترین خانہ جنگی ہے۔
مز رابنسن کہتی ہیں کہ ’اس چیز نے تتمادو کو بے رحم جنگی مشین بنا دیا ہے جو روبوٹ کے انداز میں صرف احکامات کی پیروی کرتے ہیں۔‘
ایک کے بعد دوسری مہم نے فوجیوں کو جنگ کے لیے سخت جان اور خاص طور پر اپنی ہی سرحدوں کے اندر قتل کرنے کا عادی بنا دیا ہے۔
روہنگیا مسلمان جیسی چند نسلی اقلیتیں طویل عرصے سے فوج کے بدترین مظالم کا شکار ہیں جبکہ اب سینکڑوں مظاہرین، جن میں بہت سے بامر بدھ بھی شامل ہیں، اپنی ہی فوج کے ہاتھوں مارے جا رہے ہیں۔
’ایک مذہبی فرقے جیسی فوج‘
مز رابنسن کے مطابق تتمادو کے نزدیک ہر شخص ممکنہ باغی ہے کیونکہ ’وہ ان مظاہرین کو غدار گردانتے ہیں۔‘
طویل عرصے تک ڈیوٹی پر گھر بار سے دور رہنا، باقی معاشرے سے الگ تھلگ رہنا، سپاہیوں میں اس نظریے کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے۔
ماہرین اور سابق افسروں کے شواہد کے مطابق، کچھ بند احاطے میں رہتے ہیں جہاں ان کی اور ان کے خاندانوں کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے اور انھیں فوج نواز پروپیگنڈا سکھایا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے فوجیوں میں ایک خاندان کا احساس پیدا ہوتا ہے اور افسران کے بچے بعض اوقات دوسرے افسروں کے بچوں سے شادی کر لیتے ہیں۔
مز رابنسن کہتی ہیں کہ ’فوج کو کسی مذہبی فرقے کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ ان کا باہر کے لوگوں سے زیادہ رابطہ نہیں۔‘
ایک منحرف ہونے والے فوجی نے اس کی تصدیق کی ہے۔ وہ بعد میں سول نافرمانی کی تحریک میں شامل ہو گئے ہیں۔
لیفٹیننٹ چان میا تھو (نام تبدیل کیا گیا) نے کہا کہ ’یہ فوجی اتنے عرصے سے فوج کا حصہ ہیں کہ وہ صرف فوج کی زبان ہی جانتے ہیں۔ وہ نہیں سمجھتے کہ فوج کے باہر کیا ہو رہا ہے۔‘
اگرچہ میانمار کی مسلح نسلی تنظیموں کے خلاف مسلسل جنگ ظالمانہ رہی ہے لیکن یہ فوج کے لیے انتہائی منافع بخش بھی رہی ہے۔
منظم طور پر کیے جانے والے جنگ بندی کے معاہدوں نے جرنیلوں کو جیڈ (قیمتی پتھر)، یاقوت، تیل اور گیس جیسے کلیدی قدرتی وسائل پر کنٹرول رکھنے میں مدد کی۔ ان وسائل سے قانونی اور غیر قانونی طور پر حاصل ہونے والا منافع کئی دہائیوں سے فوج کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ رہا۔
وہ بینکنگ سے لے کر شراب اور سیاحت تک ہر چیز میں سرمایہ کاری کے ساتھ بڑے گروہوں کو کنٹرول بھی کرتے ہیں۔
معیشت پر فوج کی گرفت کا مطلب یہ ہے کہ ہر کوئی ہمیشہ فوج کی مخالفت نہیں کر سکتا اور قدامت پسند کاروباری طبقے کے افراد مبینہ مظالم کے باوجود تتمادو کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔
لیکن برسوں کی بدعنوانی اور معاشی بدانتظامی نے عوامی رائے کو فیصلہ کن طور پر فوجی قیادت کے خلاف اور آنگ سان سوچی کی جمہوری طرز حکمرانی کی جانب راغب کیا اور یہی وجہ ہے کہ سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) نے پچھلے انتخابات میں زبردست اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
’ریاست کے اندر ریاست‘
تتمادو کے نظریے کا زیادہ تر حصہ اب بھی ایک معمہ ہے۔ سنہ 2020 تک میانمار میں امریکی سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے سکاٹ مارسیئل کہتے ہیں کہ ’یہ واقعی ریاست کے اندر ایک ریاست ہے۔‘
’وہ باقی معاشرے کے ساتھ میل جول نہیں رکھتے ہیں۔ وہ ایک بڑے ایکو چیمبر میں بیٹھے ہیں جہاں سب ایک دوسرے کو بتا رہے ہیں کہ وہ کتنے اہم ہیں، صرف وہی ہیں جو ملک کو اکٹھا رکھ سکتے ہیں اور ان کے اقتدار میں نہ ہونے کے نتیجے میں ملک ٹوٹ جائے گا۔‘
ناقدین، مارچ میں جرنیلوں کی جانب سے دارالحکومت ’نے پیئی تاو‘ میں شاندار فوجی پریڈ اور ڈنر پارٹی کی مثال دیتے ہیں، جس کے دوران فوجیوں نے ملک بھر میں 100 سے زیادہ شہریوں کو قتل کر دیا تھا۔
لیکن فوج میں نچلے درجے کے سپاہیوں کا کہنا ہے کہ یہ دوستی صرف اونچے درجے والوں تک ہی محدود ہے۔
ایک سابق فوجی میجر ہین تھاو او (بدلا ہوا نام) نے بی بی سی برمی سروس کو بتایا کہ ’اعلیٰ عہدے کے افسران امیر ہیں اور انھوں نے دولت کو کبھی بھی نچلے عہدے کے فوجیوں کے ساتھ نہیں بانٹا۔‘
’جب میں نے تتمادو میں شمولیت اختیار کی تو میں نے سوچا تھا کہ میں اپنی سرحدوں اور اپنی خودمختاری کی حفاظت کرنے جا رہا ہوں۔ مگر میں نے دیکھا کہ فوج میں نچلے درجے کی کوئی قدر نہیں اور اعلی افسران ان پر دھونس جماتے ہیں۔‘
فوجی، بغاوت کے رہنما جنرل من آنگ ہلینگ کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ وہاں اس طرح شخصیت کی پوجا نہیں کی جاتی جیسا کہ عام طور پر کسی فوجی حکمران کے معاملے میں دیکھا گیا ہے۔
جنرل من آنگ ہلینگ
مارسیل کہتے ہیں کہ ’انھیں بنیادی مسئلہ سمجھنا غلط ہو گا۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ ادارہ اور ادارے کا کلچر مسئلہ ہے اور وہ اس کی پیداوار ہیں۔‘
’میں نے اب تک جتنے اداروں کے ساتھ کام کیا، شاید کسی بھی دوسرے ادارے سے زیادہ یہاں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ وہ چیزوں کو اس طرح نہیں دیکھتے، جس طرح دوسرے دیکھتے ہیں۔‘
میجر او نے بی بی سی برمی کو بتایا کہ جب جنرل ہلینگ نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے ہتھیاروں اور یونیفارم کو اپ گریڈ کرنے کے لیے فورسز سے منظوری حاصل کی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’لیکن جب ان کی مدت ختم ہوئی تو انھوں نے خود ہی اس میں توسیع کر لی۔ وہاں بہت سے ایسے کمانڈر تھے جو بعض معاملوں میں ان سے بہتر تھے لیکن انھوں نے مستعفی ہونے سے انکار کر دیا اور صرف اپنے فائدے کے لیے قانون کو توڑ دیا۔‘
ان سب کے باوجود میجر او جیسے لوگ اقلیت میں ہیں لیکن زیادہ تر فوجی جنرل ہلینگ اور ان کی بغاوت کی حمایت کرتے ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ تتمادو اپنی شبیہ کے مطابق کھیل، کھیل رہا ہے، ایک ایسی طاقت کی طرح سے جو رازداری برتتی ہے، اعلی ہے اور بس خود کو ہی جوابدہ ہے۔
یا جیسا کہ مارسیل کہتے ہیں کہ ’سب سے اہم بات یہ ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس بات کی کوئی پرواہ بھی کرتے ہیں کہ دنیا ان کے بارے میں کیا سوچتی ہے۔‘
Comments are closed.